(قدرت اللہ شہاب کو پاکستان بننے سے قبل کٹک(انڈیا )میں جوسرکاری رہائش گاہ ملی وہ کوٹھی آسیب زدہ مشہورتھی ۔اس کا ایڈریس81 سول لائنز تھا۔ یہ ایک ہلکے زرد رنگ کی خوشنما کوٹھی تھی۔ اس کے اطراف ڈیڑھ دو ایکڑ وسیع لان پھیلا ہوا تھا۔ لان میں گھٹنوں گھٹنوں تک گھاس اگی ہوئ تھی۔ ہر طرف سوکھے کالے اور پیلے پتوں کے انبار لگے تھے۔ ایک طرف آم اور جامن کی کچھ درخت تھے جن کے نیچے کتے اور بلیاں روتے رہتے تھے۔ دوسری طرف برگد کا ایک گھنا پیڑ تھا جس سے سینکڑوں چمگادڑیں الٹی لٹکی رہتی تھیں۔ کوٹھی کے عقب میں ایک کچا تالاب تھا جس پر سرسبز کائ کی دبیز تہہ جمی ہوئ تھی۔ کوٹھی سے کوئ دو سو گز کے فاصلے پر باورچی خانہ اور سرونٹ کوارٹرز تھے جہاں میرا خانساماں اور ڈرائیور رہائش پذیر تھے۔ شہاب صاحب کے بیڈروم کی روشنی خود بخود جلتی بجھتی رہتی اور سوئچ کہ کھٹکے کے اوپر نیچے ہونے کی آواز آتی۔ عطر حنا اور انگریزی پرفیوم کی خوشبو پھیل کاتی۔ ایک لڑکی کا ہیولہ بھی نظر آتا ۔ لیکن اس کے بعد اچانک ایک غیض وغضب کا طوفان آجاتا۔ پتھروں کی بارش ہونے لگتی۔ کمرے کا فرنیچر فضا میں معلق ہو جاتا۔ شہاب صاحب صبح سویرے یہ پتھر ٹوکروں کے حساب سے اٹھا کر تالاب میں ڈال آتے تاکہ خانساماں اور ڈرائور یہ سب دیکھ کر خوفزدہ نہ ہوں۔ پھر اس میں رہائش کے دوران ان کو مختلف واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔کبھی دروازے رات کو خودبخود کھلتے اور بند ہوتے ،کبھی کوئی بجلی کا بٹن آن کرتا اور پھر آف کرتا،کبھی دروازے پر دھیمی دستک ہوتی اور کبھی فضا میں دھوئیں کا چھلّا نظر آتا،کبھی کمرے کے اندر پتھروں،اینٹوں اور مردہ ہڈیوں کی بارش ہوتی،کبھی دو دو گھنٹے لگاتار ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی رہتی اورکبھی قالین پر سفید چادر میں لپٹی ہوئی انسانی جسم کی طرح کوئی چیز لاش کی طرح بے حس وحرکت پڑی ہوئی نظرآتی ۔ یہ واقعات تواتر سے رات دس ساڑھے دس بجے شروع ہوتے اور صبح تین بجے تک جاری رہتے ، اس کے بعد مکمل امن ہوجاتا تھا۔ ایک رات پتھروں کے بجائے انسانی ہڈیوں کی برسات شروع ہوگئی جن میں چند انسانی کھوپڑیاں بھی شامل تھیں۔ یہ منظر ایسا کریہہ اور گھنائونا تھا کہ شہاب صاحب نے صبح کا انتظار کئے بغیر ان ہڈیوں کو ایک چادر میں لپیٹا اور تالاب میں ڈالنے کی غرض سے پچھلے حصے کی طرف نکلے تو تاکاب سے سبز کائی میں لپٹا ایک ہیولہ خوں خوں کرتا ان کی جانب بڑھا۔ یہ جناب ہڈیوں کے گٹھر وہیں پھینک کر اوندھے سیدھے گرتے پڑتے اپنے کمرے کی طرف بھاگے۔ ( یہ طویل کہانی شہاب نامہ کے 246 تا 258 صفحات تک پھیلی ہوئی ہے ) ۔ان واقعات کی وجہ قدرت اللہ شہاب مندرجہ ذیل پیرائے میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں):
کئی ماہ کی لگاتار ہیبت ،وحشت اور آسیب کی تہہ میں انجامِ کار یہ راز کھلا کہ اٹھارہ بیس برس پہلے اس گھر میں آئی سی ایس کا ایک اوباش افسر رہاکرتاتھا ۔شادی کاجھانسہ دے کر اس نے الہ آباد میں کالج کی ایک طالبہ بملاکماری کو ورغلایا اور خفیہ طور پر اسے اپنے ساتھ کٹک لے آیا۔شادی اس نے کرنی تھی نہ کی ۔سات آٹھ ماہ بعد جب بملا ماں بننے کے قریب ہوئی تو ظالم نے اس کا گلا گھونٹ کر مارڈالا اورلاش کو ڈرائنگ روم کے جنوب مشرقی کونے میں دفن کردیا ۔اس وقت سے بملا کی نخیف ونزارماں الہ آباد میں بیٹھی بڑی شدّت سے اپنی بیٹی کاانتظار کررہی تھی ،اُسی وقت سے بملاکماری بھی اسی کوشش میں سرگرداں تھی کہ کسی طرح وہ اپنی ماں تک صحیح صورت حال کی خبر پہنچادے تاکہ انتظار کے اس کربناک عذاب سے اسے نجات حاصل ہو ۔اس کے علاوہ اس کی اپنی خواہش بھی تھی کہ اس کی ہڈیوں کا ڈھانچہ کھود کر باہر نکالا جائے اور اس کے دھرم کے مطابق اس کا کِریاکرم کیا جائے ۔اس عرصہ میں قاتل خو د بھی مر چکا تھا اور اب بملا کی طرف سے پیغام رسانی کی ہر کوشش کوناکام کرنے میں سرگرِم عمل تھا ۔
جس روز بملا کی ماں کو اصلی صورت ِحال کی خبر ملی اور بملاکی بوسیدہ لاش کو چِتا میں رکھ کر جلا دیاگیا اسی روز ۸۱سوِل لائنز کے درودیوار ،سقف وفرش سے آسیب کا سایہ اس طرح اُٹھ گیا جیسے آسمان پر چھائے ہوئے بادل یکایک چھٹ جاتے ہیں ۔اس رات نہ مینڈکوں کاٹرّانابند ہوا نہ جھینگروں کی آواز خاموش ہوئی ،نہ پیپل کے درخت سے لٹکی ہوئی چمگادڑوں کا شورکم ہوا ۔صبح تین بجے کے قریب اچانک فضامیں لاالہ الا اللہ کی بے حد خوش الحان صدا بلند ہوئی ،ایسے محسوس ہوتا تھا کہ یہ آواز مشرق کے افق سے اُبھرتی ہے ،۸۱ سول لائنز کے اوپر قوس بناتی ہوئی گزرتی ہے اورمغرب کے افق کوجاکر چھوتی ہے ،تین بار ایسے ہی ہوا اور اس کے بعد اس مکان پر امن اورسکون کا طبعی دور دورہ از سر ِنوبحال ہوگیا۔اس عجیب وغریب واقعہ نے ایک طرف تو خوف وہیبت کے تھپیڑوں سے میرا اچھا خاصا کچومر نکال دیا اور دوسری طرف اس کی بدولت مجھے حقیقت ِ روح کا قلیل سا ادراک حاصل ِہوا۔
(قارئین کرام یہ ہے تصوف کی دنیا کہ جہاں مرنے کے بعدکسی کمزور کو سکون نصیب نہیں ہوتا اور کسی ظالم کی روح کسی مظلوم کی روح کو تنگ کرتی رہتی ہے وہ روح چاہے ہندو کی ہو یا کسی مسلمان کی ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔علاوہ ازیں یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جب ہندو لڑکی کا اس کے دھرم کے مطابق کِریاکرم ہو جاتاہے تو فضامیں تین بار لاالہ الا اللہ کی بے حد خوش الحان صدا آخر کیوں بلندہوتی ہے ؟شہاب صاحب اس سے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟درحقیقت مروجہ سلسلہ تصوف دین اسلام کے متوازی زیادہ تر عیسائیوں او ر ہندوں کے عقائدوعبادات سے متاثرہ ایک ایساراستہ ہے کہ جس پرچل کر انسان ہدایت تو کجا ضلالت کی گہرائیوں میں اوندھے منہ گر جاتاہے ۔ہمارا ارادہ کسی بزرگ کی توہین نہیں ہے تاہم چونکہ نبی ﷺ کے علاوہ کوئی ہستی بھی معصوم عن الخطا نہیں ہے لہذا کسی کی غلطی کو بیان کرنا توہین نہیں کہلائے گا بلکہ اصلاح ہوگی لہذا اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ ہمیں صحیح عقیدہ رکھنے اور قرآن وحدیث کے مطابق عمل کرنے کی توقیق عطافرمائے ۔آمین)
https://www.facebook.com/sana.u.khan.733/posts/10207914932651643