انسانی دماغ ایک اینٹینا۔۔
انسانی سوچ کی پرواز جہاں تک بھی پرواز کر سکتی ہے وہ صرف اور صرف دریافت تک محدود ہے۔۔۔ یعنی ہر چیز پہلے سے موجود ہے ،انسان اس کو صرف دریافت کرتا ہے۔۔۔۔انسانی دماغ میں سوچ کہاں سے آتی ہے؟ انسانی دماغ صرف سگنل موصول کرنے والا ایک انٹینا ہے جو اپنی اپنی فریکوئنسی یا سمجھ بوجھ یا استعداد کے مطابق ان سگنلز کو ڈیکوڈ کرتا ہے۔۔۔ جو ان سگنلز کو درست ڈی کوڈ کر لیتے ہیں وہ کوئ حقیقت جان جاتے ہیں اور اس کو استعمال میں لاتے ہیں ۔۔ یہ ایک چین ری ایکشن جیسا ہے۔۔۔مادہ، مادے سے ایٹم، ایٹم سے الیکٹران پروٹان۔ الیکٹران کے بہائو سے برقی رو، برقی رو سے پہیا گھمانا، پہیے کی مختلف ترتیبوں سے کوئ مشین بنا لینا، انسانی جسم یا کوئ بھی جاندار جسم جب سے وجود میں آیا ہے وہ خودبخود کام کر رہا ہے ، ہم صرف آہستہ آہستہ تحقیق کر کے دریافت کرتے جاتے ہیں کہ اوہو!!! تو یہ سسٹم اس طرح کام کرتا ہے۔۔۔ خون میں موجود آئرن پھیپھڑوں سے آکسیجن جزب کر کے خوراک کو آکسیڈائز کر کے توانائ حاصل کرتا ہے۔۔۔جس دماغ کی آپ بات کر رہی ہیں وہ بھی اسی آکسیجن کا محتاج ہے۔۔۔ کیا یہ بھی سب انسانی دماغ کرتا ہے؟ انسانی دماغ کو اللہ نے صرف ڈسکور کرنے کا کام دیا ہے جس کو قران میں بار بار سوچ و بچار کا نام دیا گیا ہے۔۔۔انسانی دماغ تخلیق کی طاقت نہیں رکھتا۔۔۔ صرف پہلے سے موجود تخلیق کو دریافت کر کے اس کے استعمالات کرسکتا ہے۔۔۔۔۔سارےدنیا کے سائنسدان اہک مکھی کا پر بھی تخلیق نہیں کر سکتے۔۔۔ یاد رہے کہ تخلیق اور دریافت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔۔۔تخلیق کا مطلب ہے عدم سے وجود میں لانا،،،،،کیا انسانی دماغ کوئ بھی شے یا عنصر عدم سے وجود میں لا سکتا ہے؟یہ جو سب کچھ پہلے سے موجود ہے کیا اس کو انسانی دماغ یا سائنس نے بنایا ہے؟ سائنس تو صرف دریافت کرتی جا رہی ہے اور انگشت بدندان ہے یہ اتنا مربوط ، جامع، متوازن، ایک دوسرے سے منسلک، ایک دوسرے پر انحصار کرنے والا نظام کیا خودبخود وجود میں آ گیا؟ْ کس طرح ایک چیونٹی پوی دنیا کے ایکو سسٹم سے منسلک ہے اور اگر صرف چیونٹیوں کو ختم کر دیا جائے تو کچھ ہی عرصے میں پورا حیتیاتی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔۔۔چیونٹی کو چھوڑئیے بلکہ کسی بھی فوڈ چین کا مطالعہ کیجئے کہ اس میں سے اگر ایک بھی کڑی ٹوٹ جائے تو پورے نظام میں ابتری پیدا ہو جاتی ہے جو رفتہ رفتہ پورے نظام کی تباہی اور نیست و نابودی کا باعث بنتی ہے۔۔۔۔کیا یہ بھی انسانی دماغ کرتا ہے۔۔۔۔ انسانی دماغ وقتی طور پر جو فائدہ دیکھتا ہے اس کو استعمال کرنا شروع کردیتا ہے۔۔۔ زمین میں تیل، گیس کوئلہ پہلے سے موجود ہے۔۔ انسن نے اس کو دریافت کر کے استعمال کرنا سیکھا ہے۔۔۔۔الللہ نے زندگی گزارنے کے سارے اسباب مہیا کر دئے ہیں اور ان کا استعمال انسانی سوچ سمجھ اور کاوش سے مشروط کردیا۔۔انسانی دماغ تو اندھا دھند ان کا استعمال کرنا شروع ردیتا ہے بعد میں اس کے سائڈ ایفیکٹس دریافت ہونا شروع ہوتے ہیں۔۔۔۔ اوزون کی تباہی، گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں قطب شمالی و جنوبی کی برف کے پگھلنے کے نتیجے میں موسمی تغیرات اور قدرتی آفات کی بھرمار، ۔۔۔۔۔۔۔ زمین کا رفتہ رفتہ سکڑنااور سمندروں کا چڑھنا۔۔۔۔۔ واہ کیا عظمت ہے انسانی ماغ کی۔۔۔۔ خود ہی اپنی تباہی کے سامان ۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہی دریافت کہ اس سے ایسا ہو ہا ہے تو اب اس کا تدارک کیسے کیا جائے۔۔۔ اسی گھم چکر میں انسانی دماغ پھنسا رہے گا۔۔۔۔ شاید قیامت آجائے لیکن یہ پہلے سے موجود مظاہر کی دریافت ختم نہیں ہو گی۔۔۔وہ بھی صرف اس ننھی منی چنی سی زمین پر۔۔۔ باقی اربوں کھربوں کہکشائیں اور ن میں موجود ستاروں ور سیاروں میں موجود لا محدود اسرار و رموز۔۔۔۔۔۔۔عظمت اور بڑائ کی سزاوار صرف وہ ذات اقدس جس نے یہ سب تخلیق کیا اور عدم سے وجود میں لایا اور انسان کو ایسا دماغ عطا کیا کہ جس میں شعور اور علم ڈالا۔۔۔۔۔۔ونہ دماغ تو ہر جانور کا ہوتا ہے۔۔۔۔ اسی دماغ کی بنیاد پرا نسان کو اشرفالمخلوقات قرار دیا۔۔۔۔۔جو جتنا اس کائنات کے اسرار و رموز جاننے لگتا ہے، وہ اتنا ہی رب کو پہچاننے لگتا ہے۔۔۔سائنس خالق نہیں صرف خالق کی تخلیق کی دریافت کا نام ہے۔۔۔۔'' تو تم پنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے"
https://www.facebook.com/sana.u.khan.733/posts/10208642338476334