گوادرکے ویران اسٹولا جزیرے پر گمنام قبر کس کی ہے؟
کیا پچھتر برس پرانے راز سے پردہ اٹھنے والا ہے؟
سوریا بادشاہ پیر پگارا کو انگریزوں نے پھانسی کے بعد کہاں دفن کیا تھا؟
پاکستان میں پیر پگارا سے کون واقف نہیں ہوگا۔ خاص طور پر پاکستان کی سیاست میں مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا کہ بڑا اہم کردار رہا ہے۔ پیر پگارا دراصل نام نہیں بلکہ یہ ایک خطاب ہے جو کہ سندھی صوفیا کے ایک سلسلے ''راشدی '' کی شاخ کے بانی پیر پگارا میں پشت در پشت چلا آرہا ہے۔ اس شاخ کے پہلے پیر سید صبغة اللہ شاہ راشدی اپنے والد پیر محمد راشد بن سید محمد بقا کی وفات کے بعد سن میں گدی نشین ہوئے تھے۔اس وقت پنجاب پرسکھوں کا قبضہ تھا تودوسری طرف انگریزسندھ قابض تھے۔ پیر صاحب نے سندھ کو کو دشمنوں سے بچانے کے لئے مجاھدین کی ایک فورس تشکیل دی جس کو '' حُر'' کا نام دیا۔ تب سے پیر پگارا کے مرید حُر کہلاتے ہیں۔حُر ہمیشہ انگریزوں کے خلاف برسر پیکار رہے بلکہ سندھ پر انگریزوں کے قبضے کے بعد بھی انہوں نے انگریز کو چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ راشدی جماعت کے چھٹے پیر پگارا سید صبغة اللہ شاہ راشدی سن ۱۹۰۹ میں پیدا ہوئے اور بارہ برس کی عمر میں گدی نشین ہوے۔اپنے مریدین میں یہ سوریا بادشاہ کے نام سے ملقب ہوئے۔۔ سوریا بادشاہ نے انگریزوں کے خلاف حُر فورس کو ایک نئ تقویت دی اور سندھ سے انگریزوں کو نکالنے کے لئے حُر تحریک شروع کی۔ سندھ کے علاقہ سانگھڑ کے ”مکھی جنگل“ سے انگریزوں کو نکالنے کیلئے ”حُر تحریک“ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس تحریک کو برطانوی حکومت نے بغاوت کا نام دے کر آپ کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کرلیا۔ اس مقدمے میں آپ کی پیروی قائداعظم نے کی، مگر انگریزوں نے آپ کو 10 سال قید کی سزا سنادی۔ آپ کو 26 مارچ 1930ءکو گرفتار کیا بعد ازاں 15 ستمبر 1930ءکو مزید آپ کے خلاف جھوٹے کیسز رجسٹرڈ کر کے گڑبنگلو سے گرفتار کر کے بمبئی پریزیڈینسی سے ملحق رتنا گری جیل منتقل کر دیا گیا مگر حکومت کے خدشات قائم رہے تو مختصر عرصے بعد جیلیں تبدیل ہوتی رہیں۔ رتنا گری سے راج شاہی جیل، مدنا پور منتقل کیا وہاں سے علی پور ڈھاکہ رکھا گیا۔ حضرت پیر صاحب پگارو مختلف جیلوں میں رہ کر ان علاقوں کے حریت رہنماﺅں سے رابطے میں آ چکے تھے۔ ان کے ولولے او ر منصوبے مزید قوی و وسیع ہوتے چلے گئے۔
رہائی کے بعد انہوں نے سانگھڑ کے قریب گڑنگ کے مقام پر اپنی تحریک کا آغاز کیاانگریز حکومت نے 1936ءمیں آپ کو ناگپور جیل سے رہا کیا تو آپ جیسلمیر کے راستے سکھر پہنچے تو پورا سندھ آپ کے استقبال کو اُمنڈ آیا جواپنے محبوب مرشد کی زیارت کے لئے بیقرار و بے چین تھا اور آپ کے ایک اشارے پر سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار تھا۔ حضرت پیر صاحب نے پیر جوگوٹھ پہنچتے ہی مجاہدین کی عام لام بندی کا اعلان کر دیا اورکفن یا وطن کا نعرہ بلند کرتے ہوئے میدان میں اتر آئے۔ اب انگریز کےلئے پیر صاحب کو آزاد چھوڑنا مشکل ہی نہیں محال ہو چکا تھا۔ ایسے میں سرکار برطانیہ ایک بار پھر حرکت میں آئی اور حضرت پیر صاحب پگارو کو کراچی سے 24 اکتوبر 1941ءکو گرفتار کر کے سیونی میں ایک بار پھر پابند سلاسل کر دیا گیا۔
حضرت سید صبغت اللہ شاہ پیر صاحب پگارو کی گرفتاری کے باوجود انگریز کا سندھ میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ انگریز افسر شاہی اور مخبروں کا جینا حرام ہوگیا۔ حُر مجاہدین اپنے عظیم مرشد کی گرفتاری پر بپھرے ہوئے شیر کی مانند ہر سمت تباہی پھیلاتے نظر آرہے تھے۔ انگریز نے ان کے خلاف ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ سندھ میں مارشل لاءلگا کر حر ایکٹ نافذ کر دیا۔ لوگوں کی بستیوں کی بستیاں جلا ڈالیں اور تمام حر قوم کو حراستی کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا۔ انگریز مزاحمت ترک کرنے پر سکھر سے نوابشاہ تک کی ریاست دینے کی پیشکش کر چکا تھا مگر حضرت سوریا بادشاہ فرماتے ہیں کہ جب مجھ سے سودے بازی کی بات کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ مجھ میں سے حسینیت خارج ہو رہی ہے لہٰذا آپ نے انگریز کی تمام پیشکشیں مسترد کرکے تختہ دار پر چڑھنا اعزاز تصور کیا۔
آپ کو 20 مارچ 1943ءکو حیدر آباد جیل میں سولی پر لٹکا کر شہید کر دیا گیا۔ اور کسی نامعلوم مقام پر دفن کردیا۔ اور دونوں فرزندان سید سکندر شاہ اور سید نادر شاہ کو علیگڑھ منتقل کر دیا۔ آپ کے ارادت مند وہاں بھی پہنچ گئے تو انگریز تنگ آ کر دونوں شہزادوں کو برطانیہ لے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کی گدی بحال ہوئی۔ شہید سوریا بادشاہ کے فرزند اکبر سید سکندر شاہ المعروف شاہ مردان شاہ ثانی4 فروری 1952 کو مسند نشین ہو کر دستار پگارو حاصل کی ۔یہ وہی پیر پگارا ہیں جو پاکستان کی سیاست میں چھائے رہے اور جن کی سیاسی پییشنگوئیاں عوام و خواص میں بہت مقبول رہیں۔ سید مردان علی شاہ کا انتقال سن میں ہوا اور اب ان کے فرزند جناب حروں کے آٹھویں روحانی پیشوا کی گدی پر براجمان ہیں اور حسب معمول پیر پگارا لقب سے معروف ہیں۔ لیکن وہ اپنے والد کی طرح مرنجان مرنج اور ہمہ گیر شخصیت کے حامل نہیں ہیں۔ گو سیاست میں شامل ہیں لیکن وہ گرمجوشی و سرگرمی نظر نہیں آتی جو پاکستام مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ مردان علی شاہ پیر پگارا میں نظر ٓتی تھی۔
بہرحال بات ہو رہی تھی سوریا بادشاہ کی کہ انگریز نے ان کو پھانسی چڑھانے کے بعد ان کےجسد خاکی کو راتوں رات کسی خفیہ مقام پر دفن کردیا تاکہ ان کے مزار پر کسی قسم کا اجتماع یا حروں کی اپنے مرشد سے عقیدت دوبارہ کسی بغاوت کو جنم نہ دے سکے۔ یوں تقریبا'' ستر پچھتر برس سے سوریا بادشاہ کی جائے مدفون ایک راز ہے۔ کوئ نہیں جانتا کہ انگریزوں نے ان کو کہاں دفن کیا۔ قیام پاکستان کے بعد برطانوی حکام تمام ریکارڈ پاکستان حکومت کے سپرد کرکے چلے گئے۔ لیکن سوریا بادشاہ کی پھانسی کا ریکارڈ حیدرابادجیل انتظامیہ کے پاس موجود نہیں،۔ جیل میں سوریا بادشاہ کی پھانسی کی تیاریوں کا ریکارڈ تو ہے لیکن پھانسی کا ریکارڈ موجود نہیں۔
لیکن لگتا ہے کہ اب اس راز سے پردہ اٹھنے کو ہے۔
پچھلے سال ہی حکومت برطانیہ برصغیر سے متعلق اپنی چند پرانی رپورٹ منظر عام پر لائی ہے۔ جس میں سے ایک سوریا بادشاہ کے متعلق بھی تھی۔ کہ انہیں حیدرآباد جیل میں پھانسی دینے کے بعد اسٹولا جزیرہ میں دفن کردیا گیا تھا۔ گوادر اور پسنی کے سمندر میں موجود جزیرہ اسٹولا پاکستان کی سمندری حدود میں پسنی سے چھ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ یہ جزیرہ سبز کچھوے کی افزائش نسل کا مقام سجھا اتا ہے۔ ویران جزیرہ ہے اس پر آبادی نہیں ہے البتہ ڈولفن اور دیگر سمندری حیات کی تحقیق کے شوقین اس جزیرے پر جاتے ہیں۔یہاں سانپوں کی کثرت ہے جبکہ درخت نام کی کوئ چیز یہاں نہیں۔یہ ایک چھوٹی سی بنجر پہاڑی پر مشتمل بے آباد جزیرہ ہے۔ پسنی و گوادر کے مچھیرے بعض دفعہ اس جزیرے پر رات گزارنے آتے ہیں۔ اس جزیرے پر ایک گمنام قبر ہے جس پر مزار بنا ہوا ہے اور ساتھ میں ایک مسجد ہے۔ قبر کے بارے مشہور ہے کہ یہاں حضرت خضر ہیں۔ اور کچھ کے بقول یہاں بہت بڑے بزرگ دفن ہیں۔تو غالب امکان یہی ہے کہ اسٹولا پر گمنام قبر سوریا بادشاہ پیر پگاڑا سید صبغت اللہ شاہ شہید ہی کی ہے کیونکہ حکومت برطانیہ کے حالیہ انکشافات کے بعد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ جس میں واضح طور پر انکشاف کیا گیا ہے کہ سوریا بادشاہ نامی قیدی کو حیدراباد جیل میں پھانسی دینے کے بعد اسٹولا جزیرے میں دفن کیاگیا تھا۔ اس سلسلے میں میں موجودہ پیر صاحب پگارا اور حکومت سے التماس ہے کہ اس پر تحقیق کروائیں تاکہ یہ گتھی سلجھ سکے۔ ان کی زمہ داری بھی بنتی ہے کہ تحریک پاکستان کے اس عظیم شہید مجاہد کے اس راز پر تحقیقات کریں۔
نوٹ:
اس مضمون میں کچھ مندرجات و تفصیلات میرے بہت عزیز اور تحقیق نگار دوست جناب محمد عبدہ Muhammad Abduhu کی پوسٹ سے بھی لئے گئے ہیں جس کے لئے میں ان کا مشکور ہوں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔