۔۔۔۔۔کنجر۔۔۔۔۔
جوش صاحب لاہور تشریف لائے۔ ایک صاحب زادے نے استدعا کی کہ میر تقی میر کا ایک شعر سمجھا دیا جائے۔ جوش نے گلوری منہ میں رکھتے ہوئے پوچھا، کہئیے میاں صاحب زادے کون سا شعر ہے؟ نوجوان نے بتایا
میرؔ جی اس طرح سے آتے ہیں
جیسے کنجر کہیں کو جاتے ہیں
جوش مسکرائے اور فرمایا، کنجر تنگ کر رہا ہے؟ نوجوان نے ہاں میں سر ہلایا۔ جوش صاحب بولے، دیکھیے، یہ پنجاب کا کنجر نہیں ہے۔ گنگا جمن کی وادی میں کنجر خانہ بدوش کو کہتے ہیں، جس کا کوئی متعین ٹھکانہ نہ ہو۔ تو میر صاحب اس شعر میں اپنی بے کسی کو خانہ بدوشی سے تشبیہہ دے رہے ہیں (SKAF)
اردو لغت کے مطابق ایک خانہ بدوش نیچ ذات کی قوم یا اس کا فرد جو سرکیاں اور چھینکے وغیرہ بنا کر بیچتی ہے، جنگلی جانور کا شکار کرتی اور مردار گوشت اور سانپ وغیرہ کھاتی ہے یہ قوم بھیک بھی مانگتی ہے۔ ان کو غالبا" بنجارے، بھیل یا باگڑی بھی کہا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ آج سے کوئ 800 سال پہلے کچھ کنجروں نے بھی اسلام قبول کیا۔ اب ان کے پاس نہ گھر تھا نہ کاروبار۔ ادھر ادھر پھرنے والے خانہ بدوش۔ روزگار کے لئے انہوں نے ایک آسان طریقہ یہ نکالا کہ عورتوں کی خرید و فروخت کے کاروبار میں بطور ایجنٹ یا آڑھتی شامل ہوگئے۔ فروخت کے لئے بازار میں آئ کنیزیں اور باندیاں و غلام عورتیں ان کے توسط سے خریدار تک پہنچائ جاتی تھیں کہ اکثر ان عورتوں کو فروخت کرنے والے کسی دوسرے ملک یا علاقے سے آتے تھے اور مقامی امرا و حکمرانوں سے واقف نہ ہوتے تھے۔ ایسے میں کنجر ہی شرفا و امرا تک کسی خوبصورت جوان کنیز یا غلام عورت کے بازار میں آنے کی خبر دیتے ۔ اس طرح وہ خریدار اور مالک دونوں طرف سے پیسے بٹورتے۔ کچھ کنجر جب خوشحال ہوجاتے تو خود باندیاں اور کنیزیں خرید کر ان کو مہنگے دام فروخت کرتے۔ جب غلامی اور عورتوں کی خریدوفروخت متروک ہو گئ تو کنجر موجودہ طوائفوں کی دلالی کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ اس طرح یہ لفظ کنجر ایک معیوب پیشے سے جڑ گیا۔
واللہ عالم
(SKAF)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔