دھنا اور دھنکی
دھنک دھن تن۔۔۔۔۔دھنک دھن تن
کیا پاکستان میں بھی اب کہیں یہ دھنکی استعمال ہوتی ہے؟ یہ کمان جیسی ہوتی ہے جس میں تانت کا تار استعمال کیا جاتا ہے ۔ تانت انتہائ مضبوط ڈور نما چیز ہوتی ہے جو جانوروں کی آنت سے بنائ جاتی ہے۔ اس کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ پرانے زمانے میں سپاہیوں اور فوج کے زیر استعمال کمان میں یہی تانت استعمال کی جاتی تھی۔ دھنکی میں ایک بڑا کمان نما لکڑی کا آلہ رسی کی مدد سے دکان یا کمرے کی چھت سے لٹکا ہوتا ہے ۔ دھنا اس کمان کو ایک ھاتھ سے پکڑ کر اور ایک مخصوص ساخت کے تکلے نما ڈنڈے کی مستقل اچٹتی ہوئ چوٹ سے تانت کے تار میں ارتعاش ہیدا کرتا ہے۔ اس ارتعاش شدہ تار کے نیچے روئ ہوتی ہے۔ اس مستقل ارتعاش کی وجہ سے روئ کے باریک باریک ذرات ارد گرد فضا میں بکھر جاتے ہیں اور ان سے میل کچیل و کثافت نکل جاتی ہے۔ جب دھنا یہ دھنکی چلاتا ہے تو ایک عجیب قسم کی دھائیں دھائیں تن تن کی آواز ایک خاص لے اور تال کے ساتھ فضا میں گونجتی ہے۔ اس دھن پر کئ گانوں کی موسیقی بھی ترتیب دی جا چکی ہے۔ یہ طریقہ انتہائ سخت محنت طلب اور دھنکے کی صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ یہ کام کرنے والے اکثر دھنکے ٹی بی کے مرض کا شکار ہوجاتے تھے کہ روئ کے ذرات اڑ اڑ کر ناک کے ذریعے پھیپھڑوں میں جم جاتے ہیں۔ اور دھنکا جلد پھیپھڑوں کے سرطان یا ٹی بی میں مبتلا ہوجاتا تھا۔ یہ کام پرانے زمانے میں تو روئ کی صفائ اور اس کو دھنکنے کے لئے اکثر استعمال ہوتا تھا ۔ وہ روئ جو لحاف یا توشک میں تین چار سال رہنے کے بعد دب جاتی ہے اور اس میں میل کچیل بھر جاتا ہے۔ پہلے زمانے میں سردیوں کی آمد سے پہلے ہی دھنوں کی دکان پر استعمال شدہ لحاف گدے اور توشک کا ڈھیر لگ جایا کرتا تھا۔ دھنے ان کی روئ نکال کر اس کو دھنکتے تھے۔ دھنکنے کے بعد روئ بالکل ہلکی اور پھول کر حجم میں دگنی تگنی بڑھ جاتی تھی۔ پھر لوگ اس کو دوبارہ نئے غلاف یا دھلے غلاف میں بھر کر سوئے اور دھاگے کی مدد سے ٹانکے لگاتے تھے۔ لحاف گدوں میں روئ بھر کر ٹانکے لگانے کا کام آجکل بھی کثرت سے ہوتا ہے اور موسم سرما کی آمد سے قبل ان دکانوں پر لحاف بستروں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ پہلے زمانے میں خواتین گھروں میں بھی لحاف گدوں میں ٹانکے لگایا کرتی تھیں. اس کے لئے مضبوط موٹے دھاگے کی لچھیاں اور بڑے سوئے دستیاب ہیں۔
آجکل روئ برقی مشین پر دھنکی جاتی ہے اور زرا سی دیر میں روئ بالکل صاف ہو کر پھول جاتی ہے۔ وہی کام جو دھنا اپنی دھنکی سے پورے ایک دن میں کرتا تھا وہ کام مشین پر آدھے گھنٹے میں ہوجاتا ہے۔ یہ کام بہرحال دھنے کی صحت کے لئے انتہائ خطرناک ہوتا تھا اور موجودہ زمانے میں یہ متروک ہوچکا ہے۔
کابل افغانستان —– خیرخانه
Posted by Hana Abassi on Wednesday, 20 June 2012
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔