ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
جون 1948 کے لائف میگزین سے لی گئ کراچی کی ایک تصویر۔
یہ سن 1948 کا کراچی ہے۔ ایک کھلے میدان میں یہ سفید خیمے دراصل ان سرکاری اھل کاروں کے دفتر ہیں جو نوزائیدہ مملکت پاکستان کے دارالحکومت میں قائم اس سیکریٹیریٹ سے پورے ملک کا نظم و نسق سنبھالتے تھے۔ سخت گرمی دھوپ اور ریتیلی ہوائوں کا مقابلہ کرتے ان قابل مہاجر افسران نے کچھ ہی عرصے میں کراچی کو ایک مثالی شہر بنا دیا تھا۔
کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ کاغذات کو نتھی کرنے کے لئے پنیںں تک دستیاب نہ تھیں بلکہ اس مقصد کے لئے کیکر کے لمبے کانٹے استعمال کئے جاتے تھے۔ یہ کوئ افسانہ بیان نہیں کر رہا بلکہ آج بھی سندھ سیکریٹیریٹ اور دیگر دفتروں کے پرانے کباڑخانے یا ریکارڈ میں آپ کو نیچے دبی ایسی فائلیں مل جائیں گی جن کے کاغذات کیکر کے کانٹوں سے نتھی کئے گئے ہیں۔ جمیل الدین عالی لکھتے ہیں کہ ببول کے کانٹے کراچی میں تین آنے سینکڑہ جبکہ گھارو اور ٹھٹھہ میں ایک آنے سینکڑہ تھے۔ وہ اور انکا ایک دوست بزریعہ سائیکل جاتے اور ایک آنے سینکڑہ پر ہر ماہ کانٹے خریدتے تاکہ دو آنے فی سینکڑہ بچائے جاسکیں۔
اس زمانے میں، ایک روپے میں چونسٹھ پیسے ہوتے تھے اور ایک روپیہ سولہ آنے کا ہوتا تھا یعنی ایک آنہ چار پیسوں کا تھا۔
اور پھر ایسا وقت بھی آیا کہ کراچی کی سڑکوں پر کچرے گندگی کے ڈھیر جمع تھے۔ گٹر ابل رہے تھے۔ ڈھائ کروڑ آبادی والے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ نام کی کوئ شے دستیاب نہ تھی لیکن خیرپور جیسے سڑی گرمی والے علاقے کے وزیر اعلی قائم علی شاہ کو سندھ اسمبلی کے دوسرے فلور تک دس سیکنڈ میں لے جانے والی لفٹ میں بھی گرمی ستاتی تھی اور ان کی فرمائش پر لفٹ میں بھی ائر کنڈیشنر لگایا گیا۔آج بہترین تعمیر شدہ سندھ سیکریٹیریٹ اور اس کے پرتعیش ائیر کنڈیشنڈ آفسوں میں بیٹھے وزرا و افسران اس ملک اور شہر کی تعمیر و ترقی نہیں بلکہ اس کی تبای اور ہر منصوبے میں اربوں اور کروڑوں کے کمیشن اور کرپشن کی منصوبہ بندی میں مصروف رہتے ہیں۔ جب ان کی کرپشن کےراز فاش ہونے لگتے ہیں تو یہ اس سندھ سیکریٹیریٹ میں آگ لگا کر سارا ریکارڈ جلانے سے بھی نہیں چوکتے۔ اور جب اس صوبے کی صوبائ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کے سامنے اس آگ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس مطالبے کو رول آوٹ کردیتی ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔