کچھ عرصہ پہلے اخبار میں ایک خبر پڑھی تھی کہ لاہور میں شاد باغ کے رہائشی اختر پرویز نے اپنے وکیل کی وساطت سے مصری شاہ کے ٹیلرعبدالصمدکے خلاف ہرجانے کا دعوے دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ سائل کے بھائی نے بیرون ملک سے اسے بوسکی کا کپڑا بھیجا جس کا اس نے کرتاشلورسلوانے کے لئے ٹیلر عبدالصمد کو دیا ۔اس کو نیا ناپ دیا اور بتایا کہ کپڑا قیمتی ہے اس کی احتیاط سے سلائی کرے۔ وقت مقررہ پر وہ کرتا شلوار لینے گیا تو شلوار اونچی تھی جبکہ کرتا پیٹ سے تنگ تھا اس نے ٹیلر سے اجتجاج کیا اس کو ٹھیک کرکے دینے کو کہا جس پراس نے انکا کردیا اور اسے ہراساں کرکے دکان سے نکال دیا ۔عدالت سے استدعا ہے کہ مذکورہ بالاہرجانہ کی رقم دلوائی جائے جس پر فاضل جج نے آئندہ سماعت پرمذکورہ ٹیلر سے جواب طلب کرلیا ہے ۔
یہ خبر پڑھ کر مجھے بوسکی کے بارے میں جاننے کی مزید جستجو ہوئ- گو کہ میں بچپن سے ہی بوسکی کا نام سنتا آیا ہوں اور یہ ایک قیمتی کپڑا تصور کیا جاتا تھا جسے پہننا اسٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا- خاص طور پر پنجاب میں چودھری وڈیرے اور نوابوں میں دو گھوڑا بوسکی کا کرتا اور چئرمین لٹھے کی شلوار بڑی مقبول تھی جس کے ساتھ راڈو کی بھاری سنہری گھڑی اور سونے کے کفلنس اور بٹن پہننا شان سمجھا جاتا تھا- ساتھ ہے سر پے ایک بھاری پگڑ بھی بوسکی کا سجایا جاتا تھا- بوسکی صرف آف وائٹ اور کریم رنگ میں دستیاب ہوتی ہے- پنجاب کے متمول گھرانوں میں خاندان کے افراد کسی بھی تقریب میں دو گھوڑا بوسکی اور اسکے ساتھ کئ لوازمات کو لازم و ملزوم سمجھ کے اہتمام سے زیب تن کرتے تھے، سب سے پہلے تو اسکی استری احتیاط سے کرائ جاتی تھی اور باور کرایا جاتا تھا کہ دھیان سے نہایت قیمتی ھے، اس سے پہلے اسکی سلائ کیلئے خاص درزی ڈھونڈا جاتا تھا جو نوابین کی سلائ کرتا ھو اور کپڑے کو اسکی روح کے مطابق جان ڈال کر خوبصورت سلائ کرے ، پھر آتا تھا زیب تن کرنے کا مرحلہ جو چنٹ والے کف پہ کف لنکس سے شروع ھوتا تھا خوبصورت سے کف لنکس جانے کہاں سے خریدے جاتے تھے، پھر سگریٹ کیس سنہری سا اس سے ملتاجلتا جو ہاتھ میں ایسے تھاما جاتا گویا اس میں ہیرے جڑے ہیں ، بھلے ہی آپ سگار پی رہے ھوں مگر کش لگانے کو سگریٹ کیس بھی ساتھ ھوتا تھا، کلائ میں بھاری راڈو گھڑی اور آخر میں گھر سے نکلتے ھوئے مسحور کن سی پرفیوم کی خوشبو جو سگریٹ، دو گھوڑا بوسکی کے ساتھ مل کر ماحول میں وہ مہک پیدا کرتیں کہ اس کی مہک آج بھی سانسوں میں محسوس ھوتی ھے پھر آخری مرحلہ سنہری ہتھی والی لاٹھی تھام کر گلابی چوڑیدار سلک کے کرتے پائجامہ میں ملبوس بیگم کا ہاتھ تھام کر نکلنا، وہاں تقریب میں صرف یہی جوڑا قابل دید نہ ھوتا بلکہ ایک سے بڑھ کر ایک خوش لباس ھوتے نہایت وقار چھلکتا تھا اور پھر ہلکے پھلکے انداز میں زنانہ حصے سے قہقہوں کی آوازیں اور مردوں کا پہچہاننا کہ ہماری بیگم تو نہیں اونچی آواز سے ہنس رہیں صرف مسکرانے پہ اکتفا کرنے کو کہا جاتا- یہ تھا دو گھوڑا بوسکی کا انداز پیرہن! پنجاب میں
کئ علاقوں میں تو بوسکی کے سوٹ اور راڈو گھڑی دلہا کے لئے لازمی سمجھی جاتی تھی- بغیر بوسکی کے سوٹ کے دلہا مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا–
اولین بوسکی یعنی سن پچاس اور ساٹھ بلکہ ستر کی دھائ تک جاپان سے آتی تھی بعد ازاں جاپان نے سستے کے لیے جاپانی کے ٹی کا کپڑا متعارف کرایا جو ستر اور اسی کی دھائی میں بہت مقبول ہوا۔ بوسکی مصنوعی ریشے سے تیار ہونے والا اولین کپڑا تھا جو ریشم کی ملائمت رکھتا تھا۔ اس کے سلے ہوئے کپڑوں کا بہترین فال اسے دیدہ زیب بناتا تھا اور استری کے بار بار کرنے سے بھی بچاتا تھا۔ چائنا نے اسی جاپانی کپڑے کی نقل تیار کی اور اسے سستا کردیا۔ بوسکی اب ہر ایک کی پہنچ میں ہے اور اسکا کرتا اچھا لگتا ہے۔۔۔۔ اسکی کریز اور اسٹف انتہائی خوبصورت ہوتی ہے ۔ بلکہ انتہائی جاذبِ نظر ۔۔۔ مکھن ملائی جیسا کپڑا ہونے کے باوجود ریشمی نہیں ہوتا ۔۔۔ اصلی دو گھوڑا کو ٹڈی بڑی جلدی ٹُک جاتی ہے ۔۔۔ بڑی احتیاط سے رکھنا پڑتا ہے ۔۔۔ ہر کسی کو کیری کرنا بھی نہیں آ تا ۔۔ ٹیلر عام جوڑے کی نسبت اس کا محنتانہ زیادہ وصول کرتا ہے ۔۔۔ اکثر روایتی وڈیروں کا پہناوہ ہے ۔۔۔ وڈیرہ ٹائپ سلوانے میں صرف گیارہ گز کی تو شلوار ہی بنتی ہے ۔۔
اب اسکی اتنی کاپیاں مارکیٹ میں دستیاب ہیں کہ بندہ پریشان ہوجاتا ہے اصلی کیا ہے اور نقلی کیا … 800سے لیکر 5500تک بلکہ دس ہزار تک کے سوٹ دستیاب ہیں .
اصل بوسکی دو گھوڑا مارکہ چائینہ کی ہی ہے ۔ چائنا کی شینگوزھوا
shangwuzhua
نامی کمپنی اصلی ڈبل ھارس بوسکی بناتی ہے- کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمان مرد کو بوسکی پہننا حرام ہے کیونکہ اس میں اصلی ریشم کی آمیزش ہوتی ہے- ہو سکتا ہے کہ اصلی بوسکی میں ریشم کی آمیزش ہو لیکن یہ مکمل ریشم سے نہیں بنتی تانا دھاگہ ہوتا ہے اور بانا ریشم – تانا دھاگے کی اس تار کو کہا جاتا ہے جو لمبائی میں ہوتی ہے اور بانا چوڑائی والی تاروں کو کہا جاتا ہے- ایک صاحب علم ٹیلر ماسٹر صاحب جنہوں نے خود بوسکی کا سوٹ پہنا ہوا تھا دریافت کرنے پر بتایا کہ جو مکمل ریشم سے کپڑا بنا ہو اس کی ممانعت ہے ۔ واللہ اعلم!
پاؤنڈ:
بوسکی میں ایک آٹھ پاونڈ اور ایک چھ پاونڈ قسم ہوتی ہے جو جاپان سے آتی تھی ۔ بلکہ اب تو چائنا کی 12 پاؤنڈ کی بوسکی بھی دستیاب ہے جو جاپان کی 8 پاؤنڈ جیسے معیار کی ہے- یہ پاؤنڈ دراصل ٹیکسٹائل کی صنعت میں کپڑے کا معیار جانچنے کا پیمانہ ہے- یوں سمجھئے کہ 45 انچ یعنی پونے چار فٹ ارض اور 100 گز لمبائ کے تھان کا جو وزن ہوگا وہی اس کپڑے کے معیار کا پیمانہ ہوگا- اب آٹھ پاؤنڈ بوسکی سے مراد یہ ہوئ کہ اس کے سوگز تھان جس کا ارض پونے چار فٹ ہو کا وزن آٹھ پاؤنڈ یعنی تقریبا” چار کلو ہوگا–
چھ پاونڈ والی بوسکی کی قمیص اور اصل چئیرمین لٹھا کی شلوار اس کی ایک اپنی ہی ٹور ہے جبکہ آٹھ پاونڈ بوسکی کا مکمل سوٹ اچھا لگتا ہے ۔جاپانی بوسکی ٹیٹرون پولیسٹر کی ہوتی تھی-۔جو کہ سردیوں میں سرد اور گرمیوں میں گرم ۔ ٹیٹرون خالصتا” جاپان کا کپڑا ہے جو کہ مصنوعی ریشے سے بنتا ہے- اس میں 100 فیصد پولئسٹر شامل ہوتی ہے- ٹیٹرون جاپان کی ایک کمپنی ٹورے ( Toray) بناتی ہے اور ٹیٹرون باقاعدہ اس کی ایک رجسٹرڈ پروڈکٹ ہے- یہی کمپنی ٹیٹریکس نامی کپڑا بھی بناتی ہے جس میں 65 فیصد پولیسٹر اور 35 فیصد ریان شامل ہوتا ہے- پولیسٹر نائلون کی ایک قسم ہے جبکہ ریان بھی مصنوعی ریشہ ہے جو کافی حد تک کاٹن جیسا احساس دیتا ہے–
دو گھوڑا بوسکی عرب ممالک میں بھی بہت مقبول ہے- مکہ کے محلہ مسفلہ میں جہاں عام طور پر پاکستانی رہائش پذیر ہوتے ہیں وہاں ایک دکان بابا سندھی کے نام سے ہے وہ اپنے نام۔ کا مارکہ بنوا کر بوسکی چین سے منگواتا ہے ۔اس دکان کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ لوگ ایک دام بتا کر کپڑا سیل کرتے ہیں اور بھاؤ تاؤ نہیں کرتے ۔بابا سندھی ملتان کا رہنے والا تھا لاچا کرتا پہنتا تھا ۔آب اسکی اولاد یہ دکان چلاتی ہے
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بہت عمدہ قسم کی بوسکی ملتی ہے- آجکل متمول عربوں کا قبا نما لبادہ ہے جس کو وہ ثوب کہتے ہیں ، سننے میں یہ لفظ توپ سنائ دیتا ہے – آجکل بیشتر ریڈی میڈ ثوبیں ویتنام سے بن کر آتی ہیں اور بوسکی۔یا بوسکی نما فیبرکس کی ہوتی ہے – مجھ جیسے غریب غربا سفید کاٹن کی ثوب بطور تبرک لے آتے ہیں کبھئ کبھار جمعہ کی نماز میں پہن کر دیگر نمازیوں پر رعب جھاڑتے ہیں–
اس میں کوئ شک نہیں کہ بوسکی کا ٹیکسچر انتہائ عمدہ ہوتا ہے- دیکھنے میں ریشمی لگنے کے باوجود جسم کو انتہائ آرام دہ اور نفیس محسوس ہوتا ہے- فال کے ساتھ ساتھ ٹکائو پنا بھی ہوتا ہے- پھسلتا نہیں ہے- گورے رنگ پر بہت جچتا ہے- لیکن یہ کراچی میں اتنا پاپولر کبھی نہیں رہا- یہاں جو خالص کراچی کے رہنے والے ہیں وہ عام طور پر عید بقرعید پر یا پھر جمعے کی نماز پڑھنے کے لئے شلوار قمیص بنوانے کا تکلف کرتے ہیں ورنہ عام طور پر پینٹ شرٹ یا پھر گھروں میں شارٹس ٹی شرٹ یا ٹراوزر پہنتے ہیں-اس لئے کراچی میں بوسکی کا اتنا کریز کبھی نہیں رہا البتہ اندرون سندھ میں اسے بھی کسی زمانے میں اسٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا- ایک زمانے میں بلکہ ابھی ماضی قریب تک جب سندھ میں نامی گرامی ڈاکوؤں کے گینگ ہوتے تھے وہ جب تاوان کی غرض سے کسی کو اغوا کرتے تھے تو تاوان کی مد میں رقم کے ساتھ ساتھ ڈاکؤوں کے گینگ میں شامل افراد کی تعداد کے مطابق راڈو گھڑیاں اور بوسکی کے تھان کا مطالبہ بھی ہوتا تھا–
اور اب بوسکی سے جڑا ایک انتہائ دلچسپ قصہ بھی جان لیجئے کہ پنجاب میں بوسکی کب اور کیسے رائج ہوئ–
پرانے لاہوریوں کویاد ہوگا کہ قیام پاکستان سے پہلے کسی زمانے میں ایم اے او کالج کے چاروں طرف بے حدوحساب کھلی زمین پڑی تھی۔ بائیں طرف ریواز گارڈن واقعی خوش نما باغ ہوا کرتا تھا اور ابھی بدوضع سی بستی میں تبدیل نہیں ہواتھا۔ کرشن نگر اور راج گڑھ سے ذرا آگے تاحد نگاہ کھیت ہی کھیت تھے۔ یہیں کہیں بعد میں بوچڑخانہ اور فلم اسٹار فردوس کے نام سے موسوم فردوس سینما بھی بناتھا۔ پاکستان بننے سے پہلے انہی کھیتوں کےدرمیان ہندوؤں اور مسلمانوں کے چند گھر آباد تھے ، جنھیں بستی کے نام سے موسوم کیاجاتا تھا ۔ مرنجاں مرنج قسم کا ایک ہندو رام داس اپنی پتنی کو شلیا کے ساتھ اسی بستی میں رہتا تھا۔ اولاد کی نعمت سے محروم اس جوڑے نے وقت گزاری کیلئے بھینس پال رکھی تھی، جو انکی روٹی روزی کا ذریعہ بھی تھی۔پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اپنے ایک کاروباری دوست کے ہمراہ رام داس کا بمبئی جانا ہوگیا۔ جہاں اس کی ملاقات اپنے وقت کے مشہورسلک فروش چیٹر جی سے ہوئی۔ جو دوگھوڑے کی بوسکی کے امپورٹر تھے اور ان کا مال پورے برصغیر میں جاتا تھا رام داس نے بھی کاروبار میں دلچسپی کا اظہار کیا، مگر جیب خالی تھی۔ چیٹر جی نے نہ جانے کیا سوچ کر لاہور کے واپسی ٹکٹ کے ساتھ دوتھان بوسکی کے بھی ہمراہ کردیئے کہ بیچ کر پیسے بھجوادینا۔ مال تو آگیا،مگر اس سیدھے سادے گوالے کوکچھ اندازہ نہیں تھا کہ اس کا کیا کرنا ہے اور کیسے بیچنا ہے؟ بستی میں ادھر ادھر لوگوں کو دکھایا مگر وہ چکنا سا کپڑا کسی کے کام کا نہ تھا اور اتنا مول بھی کون دیتا؟
یکایک اسے کرشن نگر کے گوپی چند کا خیال آیا۔ جس کے گھر وہ دودھ سپلائی کرتا تھا اور جس کی انار کلی میں اون کی دکان تھی۔ طے یہ پایا کہ دکان کے بند رہنے والے شٹر کے سامنے رام داس بھی بوریا بچھا کر بیٹھ جائے ۔ ہفتہ بھر توکسی نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کربھی نہیں دیکھا۔ پہلا گاہک نواب آف بہاولپور کے دربار سے وابستہ ایک اہم عہدیدار تھا، جو نظر پڑتے ہی ٹھٹھک ساگیا۔ زمین پر بیٹھ کر کپڑے کی کوالٹی اور مہریں چیک کیں۔ اتفاق سے اس وقت بھی وہ دو گھوڑے کی بوسکی کے کرتے میں ہی ملبوس تھا۔ کپڑے کواپنے پیرہن سے ملایا۔ جب پوری تسلی ہوگئی تو دونوں تھان خرید لئے، قیمت کے علاوہ دس روپے انعام بھی دیا کہ اصل مال نصیب سے ملتا ہے۔ رام داس نے پہلی فرصت میں قرض کا منی آرڈر بمبئی روانہ کیا اور ریلوے پارسل کے ذریعے دوتھان اور منگوابھیجے۔ یوں کاروبار چل نکلا، شوقین حضرات کو سینہ بہ سینہ خبر ہوتی گئی کہ دوگھوڑے کی اصل بوسکی کہاں سے ملتی ہے۔ سرگودھا، جھنگ، میانوالی،اور سرائیکی بیلٹ کے کئی زمیندار رام داس کے مستقل گاہکوں میں شامل تھے۔ جن میں سے بعض تو پاکستان بننے کے بعد وزیر مشیر اور گورنر بھی رہے۔ رستم ہند امام بخش پہلوان بھی کبھی کبھار چکر لگالیا کرتے تھے۔ اسی دوران رام داس کے ساتھ ایک ہلکی سی انہونی بھی ہوگئی۔ لوہاری گیٹ کے سکھ تھانیدار نے بوسکی کا ایک تھان مفت میں منگوا بھیجا، جس کی رام داس میں سکت نہیں تھی ۔ مشکل کی اس گھڑی میں امام بخش پہلوان کام آئے اور تھانیدار کوسمجھایا کہ غریب ماری نہ کرے۔
پاکستان بنا تو رام داس اور اسکی بیوی کوشلیا یکایک غائب ہوگئے۔ لوگوں نے سمجھ لیا کہ باقی بھائی بندوں کے ساتھ ہندوستان چلے گئے ہوں گے ۔ مگر دسمبر 1947میں وہ دوبارہ منظر عام پر آگئے ۔ اللہ دتہ اور سکینہ کے نام سے ، کیونکہ اس دوران داتا دربار مسجد کے خطیب کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے ۔ ملک تقسیم ہونے سے بوسکی کاکاروبار ختم ہوگیا تو نومسلم جوڑے نے پھر سے دودھ کادھندا شروع کردیا۔ آگے کیا ہوا یہ پھر کبھی جانئے گا کہ اس کہانی کا اختتام بڑا المناک ہے–
اصل بوسکی دو گھوڑا مارکہ چائینہ کی ہی ہے ۔ چائنا کی شینگوزھوا
shangwuzhua
نامی کمپنی اصلی ڈبل ھارس بوسکی بناتی ہے۔ لاہور میں یہ بوسکی مندرجہ ذیل ایڈریس پر دستیاب ہے–
* 3rd Floor, 77 D, D Block, Commercial Area D Block Phase12 EME Society DHA Near Thokar Niaz Baig Lahore.
* +92 0345-4690818, 042-35234510
)اس مضمون کی تیاری کے لئے میں اپنے احباب کا انتہائ مشکور ہوں جنہوں نے اپنے گرانقدر کمنٹس کے ذریعے بوسکی کے بارے میری معلومات میں اضافہ کیا- اس کے علاوہ اس مضمون کی تیاری کے لئے مختلف بلاگز، ویب سائٹس اور روزنامہ جنگ میں مشہور صحافی اور کالم نگار جناب ریاض احمد سید کے کالم سے رام داس کا واقعہ نقل کیا گیا ہے– (