مغل شہزادوں کی تعداد اور عمر میں خاطر خواہ اضافے کے پیش نظر کہاجاتا ہے کہ اکبر بادشاہ نے کچھ ایسی خواہش ظاہر کی کہ “شہزادہ بھی مرجائے اور ملکہ بھی نہ روٹھے”۔ مغل فیملی ڈاکٹر نے ظل الہٰی کے حکم کی تعمیل میں حقے کا نسخہ پیش کیا اور دربار سے وابستہ ہر فرد کے لیے حقہ کا استعمال لازمی قرار پایا۔ جہاں کسی شہزادے نے تخت شاہی کے زیادہ قریب ہونے کی کوشش کی محل کے خواجہ سراؤں نے بادشاہ کے تیور دیکھتے ہوئے چلم میں سنکھیا رکھوا دی۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ ایک ہی کش میں شہزادہ دھویں کا مرغولا اڑانے سے پہلے ہی رحمتہ اللہ علیہ ہوجایا کرتاتھا۔ کتنے ہی ولی عہد حقے کی بدولت بادشاہ کے عہد میں ہی ولی ہوگئے اور حقے سمیت سنگ مرمر سے مزین مزاروں میں پہنچادیے گئے۔ انہیں مزاروں سے حقے کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی جہاں عامی ہاتھوں میں پہنچنے کے بعد حقے کی شاہی حیثیت بری طرح متاثر ہوئی اور تمباکو کے ساتھ ساتھ کئی دوسری جڑی بوٹیاں بھی چلم کی زینت بننے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے حقہ راج محل سے نکل کر بر صغیر کے گلی کوچوں میں پھیل گیا۔
مغل سلطنت کے عظیم الشان عہد کی نشانی کے طور پر حقہ ہمیشہ ہم میںرہے گا اور جب کبھی مغل سلطنت کی بات ہوگی ہم بڑے فخر سے کہہ سکیں گے کہ ہزار سالہ شاندار دور کا ورثہ ہے ایک مسجد، چند قلعے، ایک مقبرہ اور یہ حقہ۔
بشکریہ:راجہ گدھ
حقے کی ابتدا
حقہ اولین مصر سے شروع ہوا۔ چوتھی صدی عیسوی میں دانتوں اور مسوڑھوں کی بیماری کے بعد حکما نے کچھ جڑی بوٹیاں معہ پیاز کے بیجوں کے جلتے ہوئے کوئلے پر ڈال کر دھواں کش کرایا۔ یہ اولین حقہ تھا۔ پھر رفتہ رفتہ مصر میں یہ خوشبودار جڑی بوٹیوں کے ساتھ استعمال ہوا۔ تجار اسے چین تک لے گئے جہاں اس میں اولین تمباکو کا چلن پڑا
جبکہ حقہ کی موجودہ شکل و صورت برصغیر کی ایجاد ہے
یہ سولہویں صدی عیسوی کے دور کی بات ہے کہ جب انڈیا میں برطانیہ سے آئ ہوئ صنعت شیشہ سازی شروع ہوئ۔ اس دور میں شیشے کے بنے بلوریں حقوں کے ذریعے تمباکو نوشی امرا و شرفا کا مشغلہ و پہچان ٹھہری۔
تمباکو حقے کی ابتدا
تمباکو حقے کی ابتدا ظاہر سی بات ہے تمباکو کی دریافت کے بعد ہی ہوئی ہوگی۔ تمباکو کی دریافت کو پانچ سو سال ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے تمباکو صرف امریکہ کے ریڈ انڈینز پیتے تھے۔ جب اپنے چاچا کولمبس انڈیا کے چکر میں امریکہ جا پہنچے تو دیکھا کہ مقامی لوگ ایک پودے کے پتوں کا رول بنا کر اس کے اگلے سرے کو سلگا کر اس کا دھواں اپنے پھیپھڑوں میں اتارتے ہیں۔ یوں پوٹیٹو، ٹومیٹو اور پامیٹو کے ساتھ ساھ ٹوبیکو بھی مہذب دنیا میں متعارف ہوا۔ یورپ میں مقبولیت کے بعد یہ ایشیا پہنچا اور پھر برصغیر سے ہوتا ہوا مشرق وسطی تک جا پہنچا۔ اس سے پہلے برصغیر اور ایشیا کا مقبول عام نشہ افیون یا شراب تھی۔ راجوں مہاراجوں اور نوابوں سے ہوتا ہوا تمباکو عوام تک منتقل ہوا۔
سگریٹ آنے کے بعد مہذب معاشرے نے حقے کی جگہ اسے اپنا لیا اور حقہ گاؤں دیہات تک ہی محدود ہوگیا کہ اس میں چلم، پانی، کوئلوں اور تمباکو کا جھنجھٹ نہ تھا۔ ورنہ حقہ اس قدر مقبول ہو چکا تھا کہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر باقاعدگی سے دوپہر اور رات کے کھانے کے بعد حقہ نوشی کرتے تھے۔ مغل دربار میں یہ بھنڈا کہلاتا تھا۔ لیکن مشرق وسطی میں حقے کی مقبولیت میں کمی نہ آئی۔ ترکی، ایران، لبنان، یمن اور شام میں حقہ قہوہ خانوں کا لازمی جز بن گیا۔ ترکی اور ایران میں چھوٹے بڑے قہوہ خانوں میں لوگ آج بھی حقے کے کش لگاتے ہیں اور یہ وہاں کی ثقافت کا یک اہم جزو ہے۔ موجودہ پاکستان میں شیشے کی یلغار مشرق وسطی سے ہی ہوئی۔ پہلے پہل کچھ کڑاھی اور بار بی کیو ریسٹورنٹس نے حقہ متعارف کروایا۔ شروع شروع میں یار لوگوں کے لیے یہ ایک شغل میلے کی چیز تھی کہ آرڈر تیار ہونے تک حقے کے کش لگانا ایک تفریح محسوس ہوتی تھی۔ خواتین بھی اس تفریح کوایک دو کش لگا کر انجوائے کر لیا کرتی تھیں۔ پھر رفتہ رفتہ حقہ بارز وجود میں آتے گئے۔ امپورٹڈ فلیورڈ تمباکو اور شیشے کے انتہائی نفیس و خوبصورت حقے جنہیں عرف عام میں شیشہ کہا جاتا ہے، نمودار ہوئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے نوجوان ان کے شیدائی بن گئے۔ ان کی بڑھتی تعداد اور مضر صحت ہونے کی وجہ سے حکومت کو ان پر پابندی لگانی پڑی