درآوڑ اور آس پاس کی صدیوں سال پرانی بستیوں کے دامن میں آباد یہ ریاست، کہیں انیسویں صدی کے اولین سالوں میں قائم ہوئی۔ تخت و تاج کی یہ جنگ پہلے پہل تو افغان درانی اور سندھی کلہوڑے لڑتے رہے مگر پھر بنو عباس کا ستارہ جو ابھرا تو صحرا میں بھی زندگی کے آثار ملنے لگے۔
جب نواب بہاول خان تخت نشین ہوئے تو ستلج سے پرے، ریت اڑتی تھی۔ چند ماہ بعد جب جیسلمیر کے راجپوتوں نے قلعہ دراوڑ پہ اپنا جھنڈا لہرایا تو انہیں بھی فکر لاحق ہوئی، سو آدم واہن کا علاقہ ملتے ہی نیا شہر بسانے کے خیال سے بہاول پور کی بنیاد رکھی گئی۔
ریاست تھوڑی قد آور ہوئی تو پنجاب میں خالصہ راج آ گیا۔ یہی وہ دن تھے جب بہاول پور نے لاہور سے منہ پھیر لیا۔ تخت لاہور اور جنوبی پنجاب کے کچھ کچھ گلے شکوے تو اس دور کی یادگار بھی ہیں۔ سکھوں کا ستارہ ماند پڑتے ہی بہاولپور کے امیر نے ملتان مہم کی خاطر انگریز فوج کو کمک بھی بھیجی اور اس خدمت کا صلہ بھی وصول کیا۔
اگلے چند سالوں میں انگریز اور بہاول پور کی ریاست تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آئے۔ 1833 کے معاہدے کے بعد تو جیسے شہر کے دن پھر گئے۔ ہر آنے والے صادق نے پہلے والے بہاول سے زیادہ کام کیا اور ہر سرخرو بہاول نے اپنے پیش رو صادق کی روائت کو آگے بڑھایا۔
بیسویں صدی اپنے دامن میں نواب صادق خان خامس کی نامزدگی لے کر آئی جس کے ساتھ بہاول پور کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ دریائے ستلج سے تین میل کے فاصلے پہ قائم اس پر اسرار سے ٹھہراؤ کو شہر بنانے میں نواب صاحب نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سٹیڈیم سے لائیبریری اور سینما سے اسپتال تک جو کچھ بھی حرماں نصیب جنوب میں پہنچا وہ سب سے پہلے بہاولپور کے حصے میں آیا۔ اس اہل ثروت ریاست کی آب و ہوا مرد آزما بھی تھی اور مرد آفریں بھی۔ ترقی اور فلاح کے متوازن راستے پہ چلتے چلتے یہ شہر بہت سے محلوں کی ایک ایسی داستان بن گیا جس کا نظام افسرانہ تھا، مزاج شاہانہ اور خو بو درویشانہ۔
محلات کے اس شہر میں دربار محل اور نور محل کے ساتھ ساتھ گلزار محل، نشاط محل اور فرخ محل کا بھی ذکر آتا ہے۔ تعمیر کے ان تمام شاہکاروں کا قصہ کہنا تو ممکن نہیں مگر نور محل کا ذکر کئے بغیر آگے بڑھنا تاریخ سے نا انصافی ہے۔
محل کی تعمیر کرنے والے نواب صبح صادق خان چہارم تھے۔
پاکستان کے تاریخی شہر بہاولپور میں واقع یہ نور محل 1872میں تعمیر کروایا گیا
عباسیوں کے اس شاہجہاں کو جب اس تعمیر کا خیال سوجھا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے وقت کے معروف معمار اکٹھے کئے۔
خاکہ مکمل ہوتے ہی نواب صاحب نے محل کی بنیادیں کھدوائیں اور ان میں شہر کا نقشہ، چند دعائیں اور بہت سے سکے ڈال کر تعمیر شروع کر دی۔ اس محل کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کی تعمیر میں ماش کی دال کا آٹا اور چاول بھی گارے میں شامل کئے گئے تھے۔تعمیر مکمل ہوئی تو آرائش کا مرحلہ آیا جس کے لئے اٹلی اور فرانس سے فرنیچر اور فانوس منگوائے گئے مگر خوشی اور بخت کسی بازار بکتے نہیں تھے سو ان کا بندوبست نہیں ہو سکا۔
محل کی تعمیر مکمل ہوئی تو اس کی بنیاد میں ریاست کے سکے اور ایک تحریر جس میں تعمیرِ محل کی تاریخ وغیرہ درج تھی ، رکھے گئے تھے۔ اس محل کی تعمیر پر 12لاکھ روپے سے زیادہ خرچ ہوئے۔ بہاولپور کے سرکاری اخباری ’’صادق الاخبار‘‘ نے اس کی تاریخ تعمیر پر یہ شائع کی تھی: "عروجش تا قیام سماں باد (1292 ہجری)"
نور محل کی عمارت کے وسطی حصے میں ایک نہایت وسیع و عریض ہال ہے۔ چھتوں اور دیواروں پر نقاشی کا خوبصورت کام ہے۔ جب ریاست بہاولپور قائم تھی تو ہال میں ایک سٹیج بنا کر اس پر چاندی کی کرسی نواب صاحب کے بیٹھنے کے لیے مخصوص تھی۔ ہال اور دوسرے کمروں کی دیواروں کو والیانِ ریاست کی تصاویر سے مزین کیا گیا تھا۔
بعض کمروں میں بڑے بڑے قد آدم آئینے بھی تھے جو مختلف خاصیتیں رکھتے تھے۔ مثلاً ایک آئینے میں انسان غیر معمولی فربہ نظر تا تھا جبکہ ایک دوسرے آئینے کے سامنے جانے سے انتہائی دبلا دکھائی دیتا تھا۔ ایک زمانے میں پورا محل سنہری اور روپہلی فانوس اور بہترین فرنیچر سے آراستہ تھا۔ محل میں فرنیچر اور دیگر اشیاء اٹلی اور انگلینڈ سے درمد کی گئی تھیں۔
بادشاہ نے یہ شاندار محل اپنی جس ملکہ نور کے لئے بنوایا تھا انہوں نے صرف ایک رات اس محل میں بسر کی۔ اگلی صبح وہ محل کے سب سے اوپر والی چھت پر گئیں تو محل کے باغات سے ملحق ایک قبرستان دیکھ کر بادشاہ کو کہا کہ آپ نے میرے لئے قبرستان میں گھر بنوا ديا- میں یہاں نہیں رہوں گی۔ سو نواب صاحب کی بیگم ایک رات کے علاوہ یہاں نہ ٹھہریں۔
نور محل میں وہ پرانا پیانو اپنی اصلی حالت میں اب بھی موجود ہے۔ جو نواب نے ملکہ نور کے لئے بنوایا تھا۔وہ آئینہ بھی ہے جو بیلجیئم سےدرآمد کیا گیا-
اس محل میں روشنی کے لئے تین بڑے فانوس تھے جن پر روشندانوں سے روشنی پڑتی تو پورا دربار ہال جگمگا جاتا۔
ایک سو چالیس برس پہلے جب یہ نور محل تعمیر کیا گیا تو اس وقت بجلی کا نام و نشان تک نہیں ہوتا تھا جس کی اب کمی ہو جائے تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔
اس محل میں موجود ڈیڑھ سو سال سے زیادہ پرانا فرنیچر آج بھی قابل استعمال ہیں
ٹھنڈک اور ہوا کے لئے اونچی چھتوں اور روشندانوں کے علاوہ محل کی بنیادوں میں سرنگوں کا ایک جال بچھایا گیا ہے جس میں پانی چھوڑا جاتا تھا اور مخصوص سمتوں پر بنے روشندانوں سے ہوا گزرتی جو پانی کی ٹھنڈک لئے فرش میں نصب جالیوں سے محل کے اندر پہنچتی تھی۔ یہ سرنگیں اب بھی موجود ہیں البتہ ان میں پانی نہیں چھوڑا جاتا ۔
چھت کے سامنے والے حصے میں کسی مصور نے ان حالات کی منظر کشی کرنے کی کوشش کی جب بنو عباس کا خاندان بغداد سے سمندر کے راستے برصغیر پہنچا اور بہاولپور ریاست قائم کی۔ یہ یادگار نور محل اس وقت پاکستانی فوج کے قبضے میں ہے اور اب محل کے سیاہ و سفید کی وہی مالک ہے۔اس کا مرکزی ہال عوامی نمائش کے لئے کھول دیا گیا ہے۔
نواب صادق محمد خاں رابع کو اختیارِ حکومت سپرد کرنے کی رسم اسی محل میں 28 نومبر 1879 کو ادا کی گئی۔ اس موقع پر محل کو خوب سجایا گیا اور ایک عالیشان دربار منعقد ہوا جس میں پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر رابرٹ ایجرٹن نے نواب صاحب کو ریاست کے مکمل اختیارات سونپنے کا اعلان کیا۔
نواب بہاول خاں خامس کی دستار بندی بھی اسی محل میں ہوئی۔ نومبر 1903 کو لارڈ برن کرزن وائسرائے و گورنر جنرل ہند نے نور محل میں ایک عالیشان دربارمیں نواب بہاول خاں پنجم کو اختیارات سلطانی تفویض کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس دربار میں ہندوستان کی ممتاز اہم شخصیات کے علاوہ 100 سے زائد یورپین افسران نے شرکت کی۔
یہ محل ریاست کے آخری دور(1955) تک بطور سرکاری مہمان خانہ استعمال ہوتا رہا۔ یہیں پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے اپنے دورہ بہاولپور کے دوران قیام کیا اور نواب صادق محمدخان خامس نے ان کے اعزاز میں گارڈن پارٹی دی تھی۔
بہاول پور کے کچھ پرانے دروازے بھی ہیں جو کسی نہ کسی وابستگی کا مظہر ہیں۔ ان دروازوں میں سے فرید گیٹ، دراوڑ گیٹ اور شکارپوری گیٹ کا تو کچھ کچھ سراغ ملتا ہے مگر باقیوں کے بارے میں صرف کہی سنی باتیں ہے۔ جہاں گزرا ہوا وقت شہر میں ہر نواب کی کوئی نہ کوئی نشانی چھوڑ گیا ہے وہیں ایک حوالہ حواصل کا بھی ہے۔ اپنی ایک عادت کے سبب تمام حکمرانوں کو مرغوب رہنے والے اس ماہی خور پرندے سے بہاول پور کے نواب، اولاد جیسی محبّت کرتے تھے۔
شاہی مہر پہ جلی الفاظ میں صادق دوست کے اوپر نظر آنے والے حواصل کی وہ منفرد عادت، اس کی اولاد پرستی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب بھوک کے مارے باقی پرندے اپنا گھونسلہ تک چھوڑ جاتے ہیں، یہ پرندہ اس وقت اپنا سینہ چاک کرتا ہے اور اپنی اولاد کو اپنا گوشت کھلاتا ہے۔ جس قبیل میں کوئل اپنے انڈے کسی کے گھونسلے میں دے آئے اور عقاب اپنے نو آموز بچوں کو شکار کی خبر لانے گھونسلے سے نکال دے، وہاں اس ماہی خور کی قربانی بے مثال ہے۔
نواب صاحب کا خیال تھا کہ اس طرح کا مزاج ہو تو حکمرانی کا حق ادا ہو سکتا ہے، سو کیا تعجب کہ کچھ سال خوردہ ماہی خور اب بھی دربار محل کے وسیع دالانوں میں نظر آتے ہیں۔
ہندوستان کی بہت سی ریاستوں کی طرح بہاول پور کے لوگ بھی اپنے نواب سے بہت پیار کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے کچھ ہی ہفتوں بعد بہاول پور نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا اور نواب صاحب کی قیادت میں ون یونٹ کا حصہ بن گیا۔
ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ سفر کرنے پہ آخر کار ایک ایسا شہر بھی مل ہی گیا جہاں کچھ نہیں بدلا۔۔۔ یا شائد کچھ زیادہ نہیں بدلا۔ اپنے عباسیوں، امیروں اور نوابوں کے باوجود یہ ایک عوامی سا شہر ہے، جہاں زندگی چپ چاپ اپنے طور چلی جا رہی ہے۔ اسے نہ مستقبل کی فکر لاحق ہے اور نہ ماضی کا روگ لگا ہے۔ شہر اگر درویش کہلانے کے قابل ہوتے تو بہاول پور واقعی صاحب حال ہوتا۔۔۔
بہاول پور کی صبح کے دھندلکے اور شام کی گردباد جن صحراؤں کی عطا ہے، ریل کی کھڑکی میں وہ منظر بھی قید پڑے ہیں۔
اس مضمون کی تیاری میں جناب محمد حسن معراج کے صادق دوست اور بہاولپور ڈائجسٹ کے مضمون نور محل سے مدد لی گئ ہے۔