پیپل جھومے مورے انگنا
ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں رے
کراچی کی پرانی قدیم عمارتوں میں سیلن زدہ دیواروں میں اگے یہ پیپل اور برگد کے درخت اکثر نظر آجاتے ہیں۔
میں اکثر پرانی عمارتوں کی پلاسٹر ادھڑی دیواروں کے ساتھ سیوریج پائپوں کے ساتھ سیلن زدہ اینٹوں اور پائپوں کے بیچ اگے ان پودوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھتا ہوں۔ ان میں زیادہ تر پیپل برگد اور جامن کے درخت ہوتے ہیں۔ میرے گھر کے عین سامنے والے گھر میں بھی تیسری منزل کے کچن سے جڑے پائپ کے ساتھ ایسا ایک پودا اگا ہوا ہے۔ اس طرح کے پودوں کو دیکھ کر میری شدید خواہش ہوتی ہے کہ میں ان کو نکال کر زمین میں لگادوں لیکن ان پودوں تک رسائ صرف فائر برگیڈ یا کے الیکٹرک کی سیڑھی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
یہ پیپل کا پودا قدیم بوسیدہ عمارتوں ہی میں کیوں پیدا ہوتا ہے؟ پیپل کا پھل کھانے والے پرندے اس کے بیج ان بلند و بالا مقامات اور کونوں کھدروں تک پہنچانے کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ یہ کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے ؟ یہی کہ اللہ رب العزت بغیر مٹی اور زمین کے بھی پودے اگانے کی قدرت رکھتا ہے۔ یہ پیپل پرانی بوسیدہ روائیتوں سے باہر نکلنے کا پیغام لے کر آتا رہا ہے اور ہم ناسمجھی میں اسے ہی کاٹنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والوں کے مطابق مہاتما بدھ نے پیپل کے درخت کے نیچے نروان حاصل کیا تھا۔
ہندو مذہب میں خاص طور پر پیپل کے درخت کو متبرک مانا جاتا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ شری کرشنا، مہاتما گوتم بدھ اور دوسرے سادھو سنتھ اس درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کے عبادت کرتے تھے۔ یہ درخت پھل دیتا ہے جو پرندے کھاتے ہیں۔ اس کی لکڑی کسی استعمال میں نہیں آتی ہے لیکن یہ درخت بھاری مقدار میں آکسیجن فراہم کرتا ہے۔
ان دیوار گیر درختوں کو دیکھ کر بھی ایک خوشگوار احساس ہوتا ہے۔ یہ درخت گویا حال کا استعارہ ہے جو ماضی اور مستقبل سے جُڑے ہونے کا—۔ زندگی کا—۔کہ زندگی انتہائ نامساعد حالات کے باوجود اپنے پنپنے کی راہ خود بنالیتی ہے—۔
ہمارے دوست جناب مظہر سعیدی صاحب کہتے ہیں،
“پیپل برگد اور بیری بزرگ درخت مشہور ہیں اور ان سے بہت سے واقعات منسوب ہیں.. ہمارے علاقے میں جہاں حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ محفل لگاتے تھے وہ پیپل کا درخت اب بھی موجود ہے جسکی عمر کم و بیش دو سو سال بتائی جاتی ہے.. اور مشہور روایت ہے کہ اس درخت کے نیچے جو دعا(نسبت کی وجہ سے) مانگی جائے قبول ہوتی ہے.. “ واللہ اعلم!
ہمارے عامل دوست جناب عتیق الرحمن ضیاء کا کہنا ہے کہ
“برگد و پیپل کو نر و مادہ کہا گیا ہے حکماء قدیم پیپل کو عورت اور برگد کو مرد کے لیے استمعال کرتے ہیں مزید یہ ہیکہ ہندو جوتش ودیا میں اکثر دان بھی پیپل کے درخت کے نیچے یا جڑوں میں کروایا جاتا ہے ہزا مسلم ہم اس بات سے زیادہ اتفاق نہیں کرتے مگر حیرت ہیکہ کام بنتا ہے”
گرمیوں کی تیز دھوپ میں نہ جانے کیوں یہ دیواروں سے نکلے سرسبز درخت ایک عجیب سکون و طمانیت اور زندگی کا احساس دلاتے ہیں۔ پیپل کا درخت سنیاس میں بھی عجیب پراسرار خواص کا مالک ہے۔ جس طرح بہت سے چوپائے اور پرندے انسانوں سے مانوس ہوتے ہیں اور انسانی آبادی میں انسانوں کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں اسی طرح پیپل بھی انسانوں سے قریب رہنا زیادہ پسند کرتا ہے۔
آپ نے بھارت کی ایک بہت پرانی فلم CID جو 1956 میں ریلیز ہوئ تھی کا وہ گانا تو سنا ہی ہوگا۔
بوجھ میرا کیا نام رے
ندی کنارے گاؤں رے
پیپل جھومے مورے آنگناں
ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں رے