روایت پسند سا بندہ ہوں ۔ اپنے بڑوں سے جو باتیں سیکھیں ، اُن باتوں کو اپنی اگلی نسل کے خون میں شامل کرنے کی پوری کوشش کی اور کر رہا ہوں ۔ اِن باتوں میں سرِ فہرست بڑوں کا احترام ہے ۔
یاد نہیں کہ والد مرحوم کی زندگی میں کبھی اُن کی چارپائی پر اُن کے برابر بیٹھا ۔ ایسا اُن کے بیمار ہونے تک تو کبھی نہیں ہوا ۔ اَخیر میں جب اُنہیں فالج ہوا تو زندگی میں پہلی بار اُن کی چارپائی پر بیٹھ کر اُن کی ھئیر کٹنگ اور صاف صفائی وغیرہ کرتا رہا ۔ ذہن میں یہ تصور ہی نا تھا کہ کبھی باپ کے برابر بھی بیٹھا جا سکتا ہے ۔ عموماً یہ ہوتا کہ یا تو اُن کے سامنے کھڑے ہو کر بات کرتا اور یا اگر بیٹھنا بھی ہوتا تو دور فاصلے پر اُن کے سامنے بیٹھتا ۔
چند دن پہلے جائیزہ لینے کی کوشش کی کہ بڑوں کے لئے احترام کی یہ جو روایت میرے دل میں ہے ، کیا میں اپنے بچوں میں مُنتقل کر سکا ہوں یا نہیں ۔
یہ اندازہ لگانے کے لئے اپنا کمرہ چھوڑ کر باہر حویلی میں آیا ۔ وہاں دو چارپائیاں اور ایک کرسی پڑی تھی ۔ ایک چارپائی اور کرسی وہاں سے ہٹا دی ۔ اب وہاں ایک ہی چارپائی رہ گئی ۔ اُس اکلوتی چارپائی پہ لیٹا اور بڑے بیٹے کو آواز دی ۔
بیٹا آیا تو اُسے اشارہ کیا کہ میرے برابر ، میری چارپائی پہ بیٹھ جائے اور میری بات سُنے ، وہ نہیں بیٹھا ۔ دو تین بار کہا کہ بیٹا بیٹھ جاؤ پر اُس نے کہا کہ ابو جی میں کھڑا ہوں ، آپ بات کیجئے ، لیکن میری چارپائی پر ، میرے برابر نہیں بیٹھا ۔ آخر میرے اصرار پر دور پرے سے کُرسی گھسیٹ لایا اور اُس پر بیٹھا ، تب میں نے اُسے کہا ۔ او کے بیٹا ، اب تم فارغ ہو ، جاؤ اور دوسرے بھائی کو بھیجو ۔
یہ دوسرے والے صاحب بیسویں سال میں جا رہے ۔ نوکدار مونچھوں ساتھ چھ فٹ سے کُچھ نکلتے باڈی بلڈر ٹائپ ہیں ۔
وہ تشریف لائے ، میں نے کہا سر ، میرے پاس بیٹھیں تو بیٹھنے کی بجائے آتے ہی اُس نے کھڑے کھڑے اپنی مُونچھوں کو ہاتھ سے لپیٹنا شروع کر دیا ۔ میں نے اُسے کہا کہ یہ کیا بدتمیزی ہے تو اُس کے جواب دینے کی بجائے چند قدم پرے کرکٹ کھیلتا سب سے چھوٹا بولا کہ ابو جی یہ روٹین میں اپنی مُونچھیں اوپر رکھتا لیکن جب آپ کے سامنے آتا تو مُونچھ نیچے کرنے لگ جاتا ۔ کہتا کہ ابو سامنے مُونچھ اونچی رکھنا بدتمیزی ہے ۔
ان صاحب کو بھی میں نے دو تین بار کہا کہ میرے پاس ہی چارپائی پر بیٹھ جاؤ پر وہ نہیں بیٹھا ۔ یہ ہی کہتا رہا کہ ابو آپ نے بلایا تھا ۔ بتائیں کیا کام ہے ۔ آخر جب میں نے کوئی بھی کام نا کہا تو یُونہی کھڑا کھڑا واپس چلا گیا ۔
اب تیسرے ، بارہ سال والے چھوٹے بیٹے کو چیک کرنا رہ گیا ۔ وہ دو سال کا تھا تو اُس کی والدہ فوت ہوئی اور والدہ کے ساتھ ہی اُس کا باقی بہت کچھ بھی فوت ہو گیا ۔
اُسے میں ابھی تک کُچھ بھی نہیں کہتا ، جو چاہے کرتا رہے ۔ ویسے بھی وہ اچھا بچہ ہے ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...