پیدائش:22فرور1952ء
امروہہ، ہندستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عذرا نقوی ایک ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم ایس سی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے ایم فل اور کنکورڈیا یونیورسٹی، مانٹریال کناڈاسے ایجوکیشن اور فرنچ زبان میں ڈپلوما کیا ہے۔ تقریباََ چالیس سال اپنے شوہر ڈاکٹر پرویز احمد کے ساتھ عراق، کناڈا اور سعودی عرب میں مقیم رہیں اور اب گریٹر نوئیڈا میں سکونت پذیر ہیں۔ شاعرہ افسانہ نگار، مترجم اور صحافی ہیں۔ آل انڈیا ریڈیو پر جز وقتی اناؤنسر رہی ہیں۔ مانٹریال کے دس سالہ قیام کے دوران ساؤتھ ایشیا کمیونٹی سنٹرمیں سماجی کارکن اور مترجم رہیں۔ ” تیسری دنیا “ نامی تھیڑ گروپ قائم کیا اور اس میں شامل رہیں۔ ریاض سعودی عرب میں ہندستانی سفارت خانے کے زیر نگرانی چلنے والے دماغی طور پر معذور بچوں کے سنٹر کی co-ordinator رہیں اور جدہ سے شائع ہونےوالے اردو روزنامے ” اردو نیوز “ اور انگریزی روزنامے”سعودی گزٹ“ میں آزاد صحافی کے طورپ پر کام کیا۔ اس کے علاوہ گاہے گاہے درس و تدریس سے بھی وابستہ رہی ہیں۔
منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچپن کتنا پیارا تھا جب دل کو یقیں آ جاتا تھا
مرتے ہیں تو بن جاتے ہیں آسمان کے تارے لوگ
پھیلتے ہوئے شہرو اپنی وحشتیں روکو
میرے گھر کے آنگن پر آسمان رہنے دو
آنے والے کل کی خاطر ہر ہر پل قربان کیا
حال کو دفنا دیتے ہیں ہم جینے کی تیاری میں
اب کی بار جو گھر جانا تو سارے البم لے آنا
وقت کی دیمک لگ جاتی ہے یادوں کی الماری میں
حقیقتیں تو مرے روز و شب کی ساتھی ہیں
میں روز و شب کی حقیقت بدلنا چاہتی ہوں
غزل
۔۔۔۔۔۔۔
معتبر سے رشتوں کا سائبان رہنے دو
مہرباں دعاؤں میں خاندان رہنے دو
مضمحل سے بام و در خستہ حال دیواریں
باپ کی نشانی ہے وہ مکان رہنے دو
پھیلتے ہوئے شہرو اپنی وحشتیں روکو
میرے گھر کے آنگن پر آسمان رہنے دو
آنے والی نسلیں خود حل تلاش کر لیں گی
آج کے مسائل کو خوش گمان رہنے دو
الجھے الجھے ریشم کی ڈور سے بندھے رشتے
ہر گھڑی محبت کا امتحان رہنے دو
کیا بہت ضروری ہے ساری بات کہہ ڈالیں
جگنوؤں سے کچھ لمحے درمیان رہنے دو
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
داستان زندگی لکھتے مگر رہنے دیا
اس کے ہر کردار کو بس معتبر رہنے دیا
کوئی منزل کوئی مفروضہ نہ تھا پیش نظر
زیر پا اک رہگزر تھی رہ گزر رہنے دیا
دل کے ہر موسم نے بخشی دولت احساس و درد
صرف اس سرمائے کو زاد سفر رہنے دیا
ساتھ اک خوش باش لہجہ محفلوں میں لے کے آئے
دل کی ویرانی کو تنہا اپنے گھر رہنے دیا
شور کرتی بھاگتی دنیا میں شامل بھی رہے
ایک سر مدھم سا دل کے ساز پر رہنے دیا
وقت کے بہتے ہوئے دریا پہ کشتی ڈال کر
سارے اندیشوں سے خود کو بے خبر رہنے دیا
خود غرض تھوڑا سا ہونا بھی ضروری تھا مگر
تجربوں سے سیکھ کر بھی یہ ہنر رہنے دیا
ساری دنیا کے لئے ہر شب دعائے خیر کی
ذکر اپنی خواہشوں کا مختصر رہنے دیا
کیوں کوئی دیکھے ہمارے دل کی ساری مملکت
اک جھلک دکھلائی ہے اور بیشتر رہنے دیا
کون دامن گیر ہے اکثر یہ کرتا ہے سوال
کر تو سکتیں تھیں بہت کچھ تم مگر رہنے دیا
نظم
۔۔۔۔۔۔
اکثر ایسا ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیتے موسم کی خوشبو سے
مہکے تتلی لمحے
خشک لبوں کو چھو لیتے ہیں ساری کڑواہٹ تن من کی
ایک غزل ہو جاتی ہے
کبھی کہیں کوئی سچی بانی کوئی دیپک سا لہجہ
مدھم سر میں ڈھلتا ہے
اکثر ایسا ہوتا ہے
ڈھول پیٹتے لفظ نہ جانے کیسے گم ہو جاتے ہیں
ایک سریلی سی شہنائی
پریم سدھا بن جاتی ہے
اکثر ایسا ہوتا ہے