دیوتاؤں نے سسی فس کو سزا دی تھی کہ وہ ایک چٹان کو ایک پہاڑ کی چوٹی پر مسلسل لے جاتا رہے جہاں سے وہ اپنے ہی بوجھ تلے واپس نیچے گرجائے گا. ان کا خیال کچھ ٹھیک ہی تھا کہ بےنتیجہ اور مایوس کن محنت سے زیادہ خوفناک سزا کوئی نہیں ہے.
اگر ‘ھومر’ کی بات مان لی جائے تو ‘سسی فس’ فانی مخلوق میں سب سے زیادہ دانا اور زیرک تھا. تاہم ایک اور روایت کے مطابق اس کا رجحان قزاقی کے پیشے کی طرف تھا. ان دونوں باتوں میں مجھے کوئی تضاد نظر نہیں آتا، البتہ جہنم میں بےنتیجہ محنت کرنے والا مزدور بن جانے کی وجہ کے بارے میں لوگوں کی آراء مختلف ہیں. سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ دیوتاؤں کی پرواہ نہیں کرتا تھا.وہ ان کے راز افشا کردیتا. ‘ایسوپس’ )Aesopus( کی بیٹی ‘ایجینا’ )Aegina( کو جوپیٹر )Jupitar( اٹھا کر لے گیا تھا.اس کے غائب ہوجانے سے باپ کو صدمہ پہنچا اور اس نے سسی فس سے شکایت کی. سسی فس نے،جسے اغوا کا علم تھا، ایسوپس کو اس شرط پر راز بتانے کی پیشکش کی کہ وہ کورنتھ کے قلعے کو پانی دے. اس نے آسمانی کوندوں پر پانی کی بخشش کو ترجیح دی. اس جرم کی پاداش میں سسی فس نے موت کو قید کردیا تھا.چنانچہ پلوٹو اپنی خاموش اور ویران سلطنت کا منظر برداشت نہ کرسکا اور اس نے جنگ کے دیوتا کو بھیجا. جس نے موت کو اس کے فاتح سے نجات دلائی.
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سسی فس نے موت قریب آجانے کے وقت جلد بازی میں اپنی بیوی کی محبت آزمانی چاہی. اس نے اپنی بیوی کو حکم دیا کہ وہ اس کی غیر مدفون لاش چوراہے کے درمیان ڈال دے. سسی فس نے اپنے آپ کو جہنم میں پایا اور وہاں ایسی اطاعت سے ناراض ہوکر، جو انسانی محبت کے تقاضوں کے منافی تھی، اس نے پلوٹو سے دنیا میں واپس آنے کےلیے اجازت حاصل کی کہ اپنی بیوی کی سرزنش کرسکے. لیکن جب اس نے دنیا کا چہرہ دوبارہ دیکھا اور پانی اور سورج، گرم گرم پتھروں اور سمندر کا لطف اٹھایا تو جہنم کے سایوں میں واپس جانا نہ چاہا. واپس لوٹنے کے بلاوے، غصے کے تیور اور تنبیہیں، سب بےسود ثابت ہوئیں. چنانچہ وہ کئی سال اور زندہ رہا اور خلیج کے کٹاؤ، چمکتے ہوئے سمندر اور زمین کی مسکراہٹوں کے نظارے کرتا رہا. اس صورت_ حال میں دیوتاؤں کا ایک فرمان درکار تھا. مرکری )Mercury( آیا اور اس نے اس گستاخ آدمی کو گریبان سے پکڑا اور اس کو اس کی خوشیوں سے چھین کر زبردستی تحت الارض میں واپس لے گیا، جہاں اس کی چٹان اس کا انتظار کر رہی تھی.
آپ پہلے ہی جان چکے ہیں کہ سسی فس ‘لایعنی’ ہیرو ہے. اتنا ہی شدید جذبات کے باعث جتنا کہ اذیت کے. اس کے دیوتاؤں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے، موت سے نفرت کرنے اور زندگی سے عشق کرنے نے اسے اس ناقابل_بیان سزا کا مستوجب بنایا، جس میں تمام وجود کو لاحصل سعی کرنی پڑتی ہے. اس زمین سے متعلق شدید خواہشات کےلیے یہی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے. سسی فس پر جہنم میں کیا گزری؟ اس کے متعلق ہمیں کوئی علم نہیں. اساطیر اس لیے گھڑے جاتے ہیں کہ تخیئل ان میں جان ڈالے. جہاں تک اس اسطور کا تعلق ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ محض جسم اپنی تمام کوششیں بروئے کار لا کر ایک بہت بڑے پتھر کو سینکڑوں دفعہ ایک ڈھلان پر اٹھانے اور اوپر کی طرف دھکیلنے کےلیے اتنا زور لگاتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ اس کوشش میں سسی فس کا چہرہ بھینچا ہوا ہے. گال پتھر کے ساتھ تنا ہوا ہے. کندھا مٹی سے لدے ہوئے پتھر سے نبرد آزما ہے. قدم زمین میں گڑا ہوا ہے. بازو نئی جدوجہد کےلیے پھیلے ہوئے ہیں اور مٹی سے لتھڑے ہوئے دو ہاتھ ہیں جو اس کے تحفظ کے ضامن ہیں. اس طویل کوشش کے بالکل اختتام پر، جو اس زمان و مکان سے ناپی جاسکتی ہے، جس کی کوئی گہرائی، کوئی انتہا نہیں، مقصد حاصل ہوجاتا ہے. تب سسی فس پتھر کو چند ہی لمحوں میں اس نیچی دنیا کی طرف تیزی سے لڑھکتا ہوا دیکھتا ہے، جہاں سے اسے پتھر کو دوبارہ چوٹی کی طرف دھکیلنا ہوگا. وہ نیچے میدان کی طرف واپس جاتا ہے.
اسی واپسی کے دوران، اس وقفے میں سسی فس میری دلچسپی کا مرکز بنتا ہے. ایک چہرہ، جو پتھروں کے اتنا قریب مشقت کرتا ہے، خود پتھر بن چکا ہے. میں اس آدمی کو بھاری، تاہم نپے تلے قدموں کے ساتھ اس اذیت کی جانب واپس نیچے جاتے ہوئے دیکھتا ہوں جس کی کوئی انتہا نہیں.
وہ ایک لمحہ جس کا دم بھر کی فرصت کی طرح واپس لوٹ آنا اتنا ہی یقینی ہے جتنا اس کے رنج و محن کا، وہ لمحہ شعور کا لمحہ ہے. ان دو لمحات میں، جب وہ بلندیوں کو خیر باد کہتا ہے اور آہستہ آہستہ دیوتاؤں کے باڑے کی طرف نیچے آتا ہے، وہ اپنی قسمت سے برتر ہے. وہ اپنی چٹان سے زیادہ قوی ہے.
اگر یہ کہانی المیہ ہے تو اس لیے کہ اس کا ہیرو ذی شعور ہے. اگر کامیابی کی امید اسے ہر قدم پر سہارا دیتی تو اس کی اذیت واقعی کہاں ہوتی؟ آج کا مزدور تمام زندگی ہر روز ایک ہی کام کرتا ہے. یہ قسمت بھی کچھ کم لایعنی نہیں ہے. لیکن یہ صرف ان کمیاب لمحوں میں المیے کا روپ دھارتی ہے جب یہ شعور کی سطح پر آجاتی ہے. سسی فس دیوتاؤں میں سے پرولتاری دیوتا، بےبس اور باغی، اپنی زبوں حالی کی حدود خوب پہچانتا ہے اور نیچے اترتے ہوئے وہ اس کے متعلق سوچتا ہے. وہ روشن نظری، جسے اس کےلیے اذیت بننا تھا، ساتھ ہی ساتھ اسے فتح سے بھی سرفراز کرتی ہے. چنانچہ کوئی قسمت ایسی نہیں جس پر حقارت کے ذریعے غلبہ نہ پایا جاسکے.
اگر بعض اوقات نیچے اترنے کی یہ راہ اس طرح رنج و الم میں طے ہوتی ہے تو یہ راہ خوشی میں بھی طے ہوسکتی ہے. یہ لفظ اس جذبے کی گہرائی کو نہیں پہنچتا. میں سسی فس کو پھر چٹان کی طرف لوٹتا ہوا تصور کرتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ رنج و الم بس شروع میں ہی تھے. جب زمین کی صورتیں یاد میں بہت مضبوطی سے نقش ہوجاتی ہیں. جب مسرتوں کے بلاوے میں بہت اصرار آجاتا ہے تو آدمی کے دل میں افسردگی نمودار ہوتی ہے. یہ چٹان کی فتح ہے. یہ خود چٹان ہے. بےپایاں غم ناقابل_برداشت ہوجاتا ہے. ہماری یہ راتیں جیتھ سیمنی )Gethsemane( کی راتوں کے برابر ہیں. لیکن انسان کو کچل دینے والے حقائق کو تسلیم کرلیا جائےگا تو وہ فنا ہوجاتے ہیں. چنانچہ ایڈیپس شروع میں یہ جانے بغیر کہ وہ کیا کررہا ہے؟ قسمت کے احکام کی تعمیل کرتا ہے لیکن جب اسے اس کا علم ہوجاتا ہے تو اس کا المیہ شروع ہوجاتا ہے. تاہم اسی لمحے اندھا اور مایوس ہوکر اسے احساس ہوتا ہے کہ دنیا کے ساتھ اس کا رشتہ صرف ایک لڑکی کے خوشگوار ہاتھ کی نسبت سے قائم ہے.
تب ایک مہیب آواز فضا میں گونجتی ہے: “اتنی سخت آزمائشوں کے باوجود میرا بڑھاپا اور میری روح کی عظمت مجھے اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ سب ٹھیک ہے.” چنانچہ سوفوکلیز کا ‘ایڈیپس’ دوستوفسکی کے ‘کری لوف’ )Kirilov( کی طرح لایعنی فتح کا نسخہ مہیا کرتا ہے. قدیم دانش اور جدید بطولت )Heroism( آ ملتے ہیں.
مسرت پر کتابچہ لکھنے کی رغبت کے بغیر کوئی لایعنیت کو دریافت نہیں کرسکتا. “کیا !!! اتنی تنگ راہوں سے….” تاہم دنیا تو صرف ایک ہے. مسرت اور لایعنیت ایک ہی زمین کے دو سپوت ہیں. انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا. یہ کہنا غلط ہوگا کہ مسرت کا سرچشمہ لازمی طور پر لایعنی کی دریافت ہے. ایسا بھی ہوتا ہے کہ لایعنی کا احساس مسرت سے پیدا ہوتا ہے. ایڈیپس کہتا ہے کہ “میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ سب ٹھیک ہے.” اور یہ بول مقدس ہے. یہ آدمی کی محدود اور بےنظم کائنات میں گونجتا ہے. یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر چیز ختم نہیں ہوتی اور نہ ہوچکی ہے.
یہ اس دیوتا کو اس دنیا سے نکال دیتی ہے جو یہاں بےاطمینانی لے کر آیا تھا اور جو بےنتیجہ مصائب کو ترجیح دیتا تھا. یہ قسمت کو انسانی معاملہ بنا دیتی ہے، جس کا انسان خود فیصلہ کرتے ہیں.
سسی فس کی تمام خاموش مسرت اسی میں ہے. اس کی قسمت اس کی ملک ہے. اس کی چٹان اس کا جہیز ہے. اسی طرح جب لایعنی انسان اپنی اذیت کے متعلق سوچتا ہے تو تمام بتوں کو خاموش کردیتا ہے. اس کائنات میں، جو دفعتا اپنی خاموشی کو واپس مل جاتی ہے، زمین کی بہت سی چھوٹی چھوٹی حیرت زدہ آوازیں ابھرتی ہیں. غیرشعوری مخفی بلاوے، تمام چہروں کی دعوتیں فتح کی لازمی ضد ہیں اور اس کی قیمت. سائے کے بغیر کوئی سورج نہیں ہوتا اور رات کا علم ناگزیر ہے. لایعنی آدمی اس کو لبیک کہتا ہے اور اسکے بعد اس کی سعی کبھی ختم نہیں ہوگی. اگر کوئی ذاتی قسمت ہے تو اعلی تر تقدیر کوئی نہیں ہے یا بس صرف ایک ہے، جس کے متعلق وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہ ناگزیر ہے اور حقیر. جہاں تک باقی کا تعلق ہے، وہ جانتا ہے کہ وہ اپنے ایام کا آقا ہے.
اس نازک لمحے جب انسان اپنے ماضی کی طرف نظر دوڑاتا ہے، جب سسی فس اپنی چٹان کی طرف واپس لوٹتا ہے، اس نگاہواپسیں میں وہ اپنے بےربط سلسلہاعمال کے متعلق سوچتا ہے جو اس کی قسمت بن جاتا ہے جس کا وہ خالق ہے. یہ اعمال اس کے حافظے کی آنکھوں میں یکجا ہوجاتے ہیں اور جلد ہی موت ان پر مہر_تصدیق ثبت کردیتی ہے. اس طرح سے یہ تسلیم کرکے کہ ہر انسانی چیز کی اصل پورے طور پر انسانی ہے، ایک اندھا جو دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے اور جو جانتا ہے کہ یہ اندھیری رات کبھی ختم نہیں ہوگی، پھر بھی رواں دواں ہے. چٹان اب بھی لڑھک رہی ہے.
میں سسی فس کو پہاڑ کے دامن میں خیرباد کہتا ہوں. انسان کو اس کا بوجھ دوبارہ مل ہی جاتا ہے لیکن سسی فس اس اعلی ترین وفاداری کا سبق دیتا ہے جو دیوتاؤں کی نفی کرتی ہے اور چٹانیں اٹھاتی ہے. وہ بھی اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سب ٹھیک ہے. یہ کائنات، جس کا اس کے بعد سے کوئی مالک نہیں، اسے نہ بنجر معلوم ہوتی ہے اور نہ لایعنی. اس پتھر کا ہر ذرہ، اس رات بھرے پہاڑ کی ہر معدنیاتی چیز، خود ایک دنیا ہے.
بلندیوں کی طرف جانے کی جدوجہد ہی انسان کی تشفی کےلیے کافی ہے. ضروری ہے کہ ہم سسی فس کو خوش تصور کریں.
مصنف: البر کامیو
مترجم: بشیر احمد چشتی