(Last Updated On: )
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا
#مرزا نے اکبر الہ آبادی کا یہ مقبول عام شعر سنا تو بولے:
نہ پردہ رہا، نہ دوپٹہ، نہ آنچل!
تم اپنے دفتر میں دیکھ لو اور ہم اپنے کاروبار میں۔ مردوں کے شانہ بہ شانہ سینہ تانے چلتی ہیں اور کہتی ہیں: ٹو ہیل وِدھ یو [to hell with you]، میرا جسم میری مرضی!
ہم نے جواباً کہا: ٹھیک ہے، ان کی مرضی۔ مگر شاعر بچارا تو بےموت مارا گیا۔ پردہ کیا گیا، اردو شاعری سے ایک لفظ بچارا یتیم ہو گیا: آنچل!
مرزا نے یہ سن کر بطور اظہارِ تاسف تالی بجائی اور آدھی پیالی چائے نوشی کے بیچ ہی بالی ووڈ کے یہ سارے نغمے فرفر دہرا دئے ۔۔۔۔ (آپ کی یادداشت میں بھی “آنچل” والے کچھ نغمے ہیں تو کمنٹ میں لکھیے گا)۔
تصویر:
نقاب پوش ریبیکا (سالار جنگ میوزیم، حیدرآباد میں موجود ایک مجسمہ : تخلیق کردہ: 1863ء)۔
واضح رہے کہ اطالوی مجسمہ ساز جووانی مریابنزونی کی طرف سے تراشے گئے سنگ مرمر کے ایسے چار مجسمے دنیا بھر میں صرف انہی مقامات پر موجود ہیں:
اٹلانٹا (جارجیا، امریکہ) کے عجائب گھر میں، مساچوسٹس (امریکہ) کے برک شائر میوزیم میں، مشی گن (امریکہ) کے ڈیٹرائٹ انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ میں اور حیدرآباد (انڈیا) کے سالارجنگ میوزیم میں۔
ان چاروں مجسموں میں ایک فرق البتہ ضرور ہے۔ صرف سالار جنگ والے مجسمے میں ریبیکا نے چہرے پر آنچل سیدھے ہاتھ سے تھام رکھا ہے، جبکہ باقی تین مجسموں میں بائیں ہاتھ سے۔
آنچل کی مہین و شفاف سلوٹوں کے ساتھ سنگ مرمر کی یہ باریک ترین نقاشی جدید کلاسیکی فنکاری کا اعلی نمونہ باور کی جاتی ہے۔
[نوٹ: عبرانی بائبل کے مطابق، ابراہیم علیہ السلام کے فرزند اسحاقؑ کی زوجہ کا نام ریبیکا رہا ہے، اور مجسمہ ساز نے انہی ریبیکا یا ربقہ کی شادی کے وقت کا مجسمہ تراشا ہے۔]
Pic credit: © Mukarram Niyaz (Nov.’2016)
(1)
ہاتھوں میں تیرا آنچل، آیا کہ بہار آئی
یہ دیکھ کے دل جھوما، لی پیار نے انگڑائی
دیوانہ ہوا بادل
(ایس ایچ بہاری، کشمیر کی کلی: 1964)
(2)
چھوڑ دو آنچل زمانہ کیا کہے گا
ان اداؤں کا زمانہ بھی ہے دیوانہ
دیوانہ کیا کہے گا
(مجروح سلطان پوری، پےانگ گیسٹ: 1957)
(3)
آنچل میں سجا لینا کلیاں، زلفوں میں ستارے بھر لینا
ایسے ہی کبھی جب شام ڈھلے تب یاد ہمیں بھی کر لینا
(مجروح سلطان پوری، پھر وہی دل لایا ہوں: 1963)
(4)
آنچل کو اڑنے دو زلفوں کو لہرانے دو
انجانی راہوں پہ آج دل کھو جانے دو
(مجروح سلطان پوری، پکنک: 1966)
(5)
چہرے سے ذرا آنچل جب آپ نے سرکایا
دنیا یہ پکار اٹھی، لو چاند نکل آیا
(ایس ایچ بہاری، ایک بار مسکرا دو: 1972)
(6)
جب آنچل رات کا لہرائے اور سارا عالم سو جائے
تم ملنے شمع جلا کر تاج محل میں آ جانا
(پریم وار برٹنی، یہاں وہاں: 1984)
(7)
میری دنیا ہے ماں تیرے آنچل میں
شیتل چھایا دو، دکھ کے جنگل میں
(مجروح سلطان پوری، تلاش: 1969)
*****