(Last Updated On: )
کچھ عرصہ پہلے آفس سے واپسی پہ میں جس رکشے میں بیٹھی اس کا ڈرائیور میرے بیٹھتے ہی کچھ اس قسم کی بات چیت میں مصروف ہوگیا
باجی آپ یہاں روز آتی ہیں؟
اچھا تو رکشہ لگوایا ہوا نہیں ہے؟
مہینے کے کتنے پڑتے ہیں آپ کو؟
باجی میں آجاؤں آپ کو لانے لے جانے وقت پہ آؤں گا چھٹی نہیں کروں گا؟
اسے تفصیل سے سمجھایا کہ میرے لیے رکشہ لگوانا زیادہ مہنگا ہے۔ لیکن وہ بضد تھا کہ یہ ذمہ داری نبھائے گا پورا رستہ اسی بحث میں گزر کیا آخر مجھے دو ٹوک الفاظ میں کہنا پڑا بھائی مجھے رکشہ لگوانے کی ضرورت نہیں ہے میں آپ کو منع کر رہی ہوں۔
جواب میں کہنے لگا باجی بھائی کی اتنی بھی مدد نہیں کرو گی۔ کچھ خیال کرو بھائی غریب ہے۔
میں کہا بھائی جن بھائیوں کے ساتھ روز آتی ہوں وہ بھی غریب ہی ہیں۔
اس قسم کی بات چیت سے آپ کا روز سابقہ پڑتا ہوگا جہاں مختلف انداز میں اپنی معاشرتی حیثیت، عمر، آپ سے رشتے، بزرگی، سینئیرٹی کی بنیاد پہ بغیر کسی دلیل آپ کو کچھ کرنے یا کچھ نہ کرنے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔
یہ روئیے دیکھنے میں نقصان دہ نہیں لگتے لیکن ان روئیوں کے حامل افراد آپ کے لیے نامناسب ہوتے ہیں۔ اس کی ایک عام مثال وہ افراد ہیں جو آپ سے کوئی چھوٹا سا کام نکلوانے کے لیے بھی جذباتی قسم کے مکالموں اور طعنوں کا استعمال کرتے ہیں۔ جیسا اوپر والی مثال کا رکشے والا۔
مثلاً کچھ دکان داروں کا عام طریقہ ہے کہ آپ سے بارگیننگ کرتے ہوئے کہتے ہیں بس باجی اپ لے جاؤ بھائی کی بات پہ یقین کرو کوئی اپنی بہن کو بھی غلط چیز دے گا کیا؟
جی بالکل دے گا آپ دے رہے ہیں اور جذباتی حربے استعمال کر رہے ہیں تاکہ گاہک شک نہ کرے۔
والدین اکثر جب دلیل نہ ہو تو کچھ اس قسم کے جملے کہتے ہیں اچھا تو اب تم اتنے بڑے ہوگئے ہو کہ باپ/ماں کے منہ لگو۔
اساتذہ غلط مارکس دینے پہ پرانے زمانے کی مثالیں نکال کے لے آتے ہیں ہمارے زمانے میں تو ہم استاد کے سامنے نظر اٹھا کے نہیں دیکھتے تھے۔ یہاں یہ جذباتی مکالمات منطقی دلائل کی اہمیت کم کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
وہیں ایک اور رخ یہ ہوتا ہے کہ آپ سے وہ کام کروایا جائے جو کسی بھی حوالے سے آپ کی ذمہ داری نہیں، نہ آپ کی جاب کا حصہ ہے نہ شرعی حکم ہے نہ ہی اخلاقی ذمہ داری ہے لیکن دوسرا شخص ایسے ڈرامائی مکالمے بولے گا کہ آپ کو وہ کام نہ کرکے شدید احساسِ گناہ اورشرمندگی ہوگی کہ آپ بہتر سمجھیں گے کہ وہ کام کر ہی دیں۔
مثلاً کئی اداروں میں کام کی زیادتی یا تنخواہ کی کمی کی شکایت پہ باس آپ کو مثال دے گا کہ اس نے کتنی محنت سے یہ عہدہ حاصل کیا ہے، رزق حلال کمانا کتنا اہم ہے، اور آپ تو پہلے ہی اپنی تنخواہ حلال نہیں کر رہے، یا آپ کی اپروچ نان پروفیشنل ہے وغیرہ وغیرہ۔
کئی افراد آپ کو ایک دم منہ بولا رشتے دار بنا لیں گے کہ تم تو ہمارے فلاں جیسے ہو ہمارا یہ کام بھی نہیں کرو گے کیا۔
کچھ اسی قسم کا رویہ سیاسی، مذہبی رہنما اور موٹیویشنل اسپیکرز اختیار کرتے ہیں۔ وہ آپ کو درست ملکی حالات، درست مذہبی تعلیمات نہیں بتاتے بلکہ الفاظ کی بازی گری دکھاتے ہیں۔ بد قسمتی سے کئی افراد مذہب کا نام لے کر ایسی معلومات پہنچا رہے ہوتے ہیں جو نہ تو کسی مذہبی کتاب میں ہے بلکہ شریعت اور قانون کے منافی بھی ہوتی ہے لیکن ان کے جذباتی مکالمات آپ کو اتنا احساسِ گناہ میں مبتلا کر دیتے ہیں یا اتنا متاثر کردیتے ہیں کہ آپ ان کی بات کی ویلیڈٹی جانچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
ابھی کچھ عرصے پہلے ایک موٹیویشنل حضرت کی وڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ اسکول کی بچیوں کو طعنے دے دے کر کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے اور بچیاں پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا آپ کے والدین اپ کے لیے مشقت کرتے ہیں اور آپ تعلیم کو سنجیدہ نہیں لیتے وغیرہ وغیرہ۔
یہ اور ایسے کئی روئیوں سے آپ کا روز واسطہ پڑتا ہے۔ کئی بار ہم خود بھی کام نکلوانے کے لیے ایسے روئیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ غیر صحت مندانہ روئیے ہیں۔ ایسے روئیوں کے حامل افراد سے فاصلہ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر وہ آپ کے گھر کے افراد ہیں تو بھی کوشش کیجیے کہ انہیں منطقی دلائل کی باتوں تک لائیں اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جذباتی بلیک میلنگ کو بالکل نظر انداز کردیں۔ لوگ کیا کہیں گے، یہ تو عزت کا معاملہ ہے، آج سے میں تمہارے لیے مر گیا/گئی وغیرہ وغیرہ۔ یہ مشکل رویہ ہے لیکن ناممکن نہیں کیوں کہ ہم جن سے محبت کرتے ہوں ان سے اس قسم کے جذباتی جملے سننا خوش گوار نہیں ہوتا جس پہ ہم جذباتی ہوکر ردعمل دکھا جاتے ہیں یا تو ان کی بات مان لیتے ہیں یا لڑ بیٹھتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں نقصان ہمارا ہوتا ہے.
ابصار فاطمہ