اقتدار اور کرسی سے عشق کوئی معمولی بات نہیں یہ محبت کا وہ مرحلہ ہے جس نے ہیر رانجھا، سسی پنوں ، لیلیٰ مجنوں کی محبت،دیوانگی اور جنون کی داستانوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔کرسی کی محبت میں کئی مجنوں ہوئے بہت سے تارتار دامن اور چاک گریباں کے ساتھ اپنی چاہت کا یقین دلاتے رہے ،مگر اس کرسی نے کسی نازک اندام بے وفا حسینہ کی طرح ہر بار نیا ہم سفر چنا۔مگر رسم عاشقی یہی ہے کہ عاشق ہر بار اسی بے وفا حسینہ پر مرتے ہیں بلکہ مرزا نوشہ نے تو ٹھیک عکاسی کی ہے کہ پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں ،،پھر وہی زندگی ہماری ہے۔
وطن عزیز کی سیاست بھی کسی حسینہ کی الجھی ہوئی زلفوں سے کم نہیں ہے ۔اب ان پریشان زلفوں کو کون ٹھیک کرئے ۔باوجود اس کے کہ میڈم نورجہاں نے اپنی مدھر آواز میں حوصلہ افزائی کی کہ لٹ الجھی سلجھا جارے بالم ،، میں نا لگاوں گی ہاتھ رے۔مگر عاشقوں میں اتنی جرات اور حوصلہ کہاں کہ وہ محبوبہ کی الجھی ہوئی زلفوں کو سنواریں لہذا زلفیں الجھی ہی رہیں بلکہ مزید الجھتی گئیں ۔اسی طرح ملکی سیاست کے پیچ وخم بڑھتے گئے ۔گورنر جنرل سے صدارتی ، مارشل لا،پارلیمانی، نیم صدارتی اور حالیہ عجیب وغریب ناسمجھ آنے والا نظام سب آزما لیئے مگر منزل کو نہیں پہنچ سکے مطلب ہنوز دلی دور است۔
مجنوں کی طرح صحرا میں بے سمت بھٹکتی ہوئے ہماری سیاسی اشرافیہ کی حالت یہ ہے کہ بدتر حالات میں بھی اقتدار کا سراب دربدر لیئے پھر رہا ہے ۔میر نے کیا خوب عکاسی کی ہے کہ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں ،، اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی ۔برسراقتدار اگر غلط ہیں تو کیوں برسراقتدار ہیں کیسے ہر قانون منظور ہورہا ہے ۔ملک کی مبینہ تباہی کو روکنے کے لیے عاشقان باصفا کیوں نہیں فیصلہ کن تحریک چلاتے ۔مدت ملازمت اوہ معذرت زبان پھسل گئی مطلب مدت اقتدار کیوں پوری کرنے دی جارہی ہے ۔قرض پر قرض لیتی حکومت کو کون روکے گا کب روکے گا اور کیسے روکے گا۔
کون اس عہد کے عاشقوں کے سمجھائے کہ محبوبہ کے وصل کی خواہش بجا سہی مگر داستانیں ان کی زبان زد عام ہوئی ہیں جن کو محبوب نہیں مل سکا۔ان کی محبت ، چاہت اور رسم عاشقی کی قربانیاں اتنی معتبر ٹھہریں کہ لوک داستانوں کا حصہ بنیں۔گاوں کے چوپالوں میں آج بھی بڑے بوڑھے ان داستانوں کو سنتے ہیں اور سر دھنتے ہیں ۔اگر ان کرداروں کو ملادیا جاتا تو کون ان کو آج یاد کرتا۔اپنی سوچ اور اپنے نظریے کی سچائی کے لیے اقتدار ضروری سہی مگر ناگزیر نہیں ہے ۔کسی سمجھوتے کے بنا مل جائے تو بہت شاندار نہیں تو سمجھوتہ کرکے اقتدار حاصل کیا تو یہی کچھ ہوگا جو آج کل ہورہا ہے۔اور سمجھوتے کے تحت اگلا اقتدار اس سے بھی زیادہ بھیانک ہوگا
مگر عاشقوں کو کون سمجھا سکا ہے لہذا ہماری بات اس نقار خانے میں کون سنے گا۔سیاست کے نام پر عقل کل ہونے کا خبط سرپر سوار کیئے ہماری سیاسی اشرافیہ محض اقتدار حاصل کرکے عصر حاضر میں کیوں جینا چاہتی ہے ۔یہ سیاسی اشرافیہ جدوجہد کرکے تاریخ میں اپنا نام کیوں نہیں لکھوانا چاہتی۔سمجھوتے کب کسی کو راس آئے ہیں جو ان کو راس آئیں گے۔اور سوچنے کی بات ہے کہ سمجھوتے کب قابل احترام ہوتے ہیں ۔اگر سمجھوتے قابل احترام ہوتے تو بھٹو جیل میں بیٹھ کر سمجوتہ کرجاتا مگر اس نے سمجھوتہ نہیں کیا سمجوتہ تو چی گویرا نے بھی نہیں کیا تھا اور آج بھی وہ اپنے ملک ارجنٹائن کے ساتھ ساتھ کیوبا کا بھی نیشنل ہیرو ہے
اقتدار اور کرسی سے عشق ضرور کریں اس کے ناز ونخرے بھی برداشت کریں مگر رسم عاشقی میں عزت سادات بھلا کر میر کی طرح گنہ گار مت ہوں۔سمجھوتے مت کریں اور سمجھوتے کے تحت اقتدار بھی حاصل مت کریں ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ احتیاط اہل محبت کہ اسی شہر میں لوگ ،،گل بدست آتے ہیں پابہ رساں جاتے ہیں۔آدھا سچ بول کر مسند اقتدار پر بیٹھنے سے بہتر ہے کہ پورا سچ بول کر مرزے یار کی طرح سنسان گلیوں میں پھرتے رہیں۔
اب ایسا اقتدار بھی کس کام کا جہاں عوام کو دینے کے لیے کچھ نا ہو۔قرض کے ہمالیہ تلے سسکتی دم توڑتی معیشت سوائے مہنگائی ، افراط زر کے علاوہ کیا دے سکتی ہے ۔اربوں ڈالر کے مقروض ہونے کے باوجود عوام آج بھی پینے کے صاف پانی کو ترس رہی ہے۔آج بھی ملک کے کروڑوں بچے سکولوں سے باہرہیں لاکھوں نوجوا ن روزگار کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں ۔بھوک اور غربت سے تنگ آکر لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں ۔ٹیکس کے بوجھ سے کوئی سراٹھا کر نہیں چل سکتا۔بنیادی ضروریات زندگی کو ترستی عوام پرحکمرانی کا کیا فائدہ ، ایسے تاج و تخت کس کام کے ۔۔
بے خبر سسی کی طرح ہمارے خوابوں کا بھبھور بھی کب کا لٹ چکا ہے۔ہماری خوشحالی کی لیلیٰ ، خوش قسمتی کی ہیر کسی اور کا مقدر ہوچکیں اورہم ہیں کہ غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری ، بدامنی کے جنگل بیلوں میں رلتے پھررہے ہیں۔جھوٹے وعدوں اور دلاسوں کے سراب کے پیچھے سرگرداں ہربار مایوسی ہمارا مقدر ہے۔تشنگی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے بے بسی اور بے چارگی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی کچھ کر نہیں سکتے کچھ کہہ نہیں سکتے
اتنا بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے مسائل کی بنیادی وجوہات کیا ہیں ۔عوام خوشحال کب ہوگی۔اگر ہم سوال کرنا شروع کردیں اگر بولنا شروع کردیں تو شائد میوزیکل چیئر کے تماشے سے ہی باہر نکال دئیے جائیں۔لہذا خاموشی ہی بھلی ہے ۔مگر ایک بات یاد رہے کہ سمجھوتے کے گھڑے پر سوار کو مشکلات کے چناب کو پار کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔اس سفر میں جان ہی نہیں ساکھ بھی جاتی ہے اعتبار بھی ختم ہوتا ہےاور آئندہ سفر کرنے کی صلاحیت بھی باقی نہیں رہتی ۔یقین نہیں آتا تو سمجھوتے کے گھڑے پر سوار موجودہ حکومت کی حالت دیکھ لیں سارا منظر واضح ہوجائے گا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...