سید سبط حسن پاکستان کے مشہور بائیں بازو کے دانشور ، صحافی اور ادیب ہیں۔ ان کو پاکستان میں یساریت پسندی اور مارکسیت کے بنیاد گذاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کا انجمن ترقی پسند مصنیفیں سے بھی قریبی تعلق رہا۔ سبط حسن 31 جولائی 1916 میں ” امباری”، اعظم گڑھ، یوپی بھارت میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ پاکستان کے ادبی وعلمی جرائد ” نیا ادب، "پیام”، اور ” نیشنل ہیرلڈ” کے مدیر بھی رہے۔
میں نے حموربی کانام پہلی بار سبط حسن صاحب سے سنا تھا۔ ان کا ایک مضمون غالبا لاھور کے ادبی جریدے ” فنون”میں گل گامش اور حموربی کے حوالے سے چھپا تھا۔ جو میرے زہن میں تھا۔۔ میں نے سبط حسن صاحب سے حموربی کے متعلق جب دریافت کیا تو انھوں نے کوئی ایک گھنٹہ مجھے حموربی کے فلسفہ قانون ان کی سوانح کے علاوہ بابلی تہذیب کے متعلق تفصیل سے بتایا۔ اور میں نے یہ گفتگو کے بعد جب سبط حسن صاحب سے کہا کہ مجھے تو حموربی کا فلسفہ قانون ” دستوری یا قانون عمرانیات” کی ایک شاخ لگتا ہے۔ تو میری یہ بات سنکر وہ مسکرائے اور کہا ” تم کچھ کچھ اس کو سمجھ گے ھو”۔
تاریخ۔ کمیونزم، تہذیب و تمدن ، عمرانیات ، بشریات سیاسیات، سامراج/ نوآبادیات اور یورپ کا نشاۃ ثانیہ ان کے مرغوب موضوعات تھے۔1975 میں انھوں نے کراچی سے ادبی جریدہ ” پاکستانی ادب” کااجرا کیا۔ اس زمانے میں سبطے صاحب نے مجھے امریکی نیگرو شاعری اور ہارلم نشاۃ ثانیہ کی طرف راغب کیا۔ اور اس موضوع پر مجھ سے انھوں نے کچھ مضامین اور تراجم کروائے۔ جو بعد میں” پاکستانی ادب” نیا دور” ( کراچی) ادب لطیف ( لاھور)، آئندہ (کراچی)، شب خون ( الہ آباد)، سیاق (جموں) میں بھی شائع ھوئے۔ مرزا ظفر الحسن مرحوم ( منتظم ،غالب لائبریری کراچی ) بتاتے تھے کہ "سبط حسن زمانہ طالب علمی میں بہت خوب صورت نوجوان ہوا کرتے تھے اور اکثر ڈراموں میں "ہیرو” کا کردار بھی ادا کرتے تھے”۔۔۔ ایک کانفرس میں شرکت کرنے کے لیے نئی دہلی گئے تھے۔ وہیں 20 اپریل 1986 میں ان کا انتقال ھوگیا۔ ان کی میت کراچی لائی گئی اور وہ کراچی کے سخی حسن قبرستان میں رزق خاک ہوئے۔ سبط حسن نے بارہ (12) کتابیں لکھی۔۔۔۔۔ 1۔ موسی سے مارکس تک ۔۔2۔ شہر نگاران ۔۔ 3 ماضی کے مزار۔۔ 4۔ پاکستان میں تہذیب کا ارتقا ۔۔5۔ انقلاب ایران۔۔ 6۔ نوید فکر 7۔ سخن در سخن ۔۔ 8۔ افکار تازہ۔۔9۔ ادب اور روشن خیالی ۔۔10 ۔ دی بیٹل آف آئیڈیا ان پاکستان ۔۔11۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی ۔۔12 مارکس اور مشرق ۔۔۔ شاداب مرتضِٰی نے لکھا ہے ۔” انہوں نے پاکستانی کی سیاسی تاریخ اور مسائل پر مارکسی نکتہ نظر سے انگریزی زبان میں بھی ایک کتاب لکھی جس کا عنوان The Battle of Ideas in Pakistan ہے.
ان کی کتاب "موسی سے مارکس تک” کمیونزم کی تاریخ کا احاطہ کرنے والی ایک ایسی نادر و نایاب تحقیقی کتاب ہے جس کی مثال نہ صرف اردو زبان میں بلکہ عالمی ادب میں بھی ملنا مشکل ہے.
ان کی پہلی کتاب 1950 کے لگ بھگ شائع ہوئی جس کا موضوع چین کا انقلاب تھا لیکن حکومت نے اس پر پابندی عائد کردی. ان کا بہت سا علمی و ادبی کام غیر مطبوعہ ہے جسے شائع کرنے کے اقدامات جاری ہیں۔قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور میں اقامت پذیر ہوئے جہاں انہوں نے 1957ء میں میاں افتخار الدین کے اہتمام میں ہفت روزہ لیل و نہار جاری کیا۔ جب میاں افتخار الدین کے ادارے کو صدر ایوب خان کی حکومت نے جبری طور پر قومی تحویل میں لیا تو سبط حسن لیل و نہار کی ادارت سے مستعفی ہوگئے اور 1965ء میں کراچی منتقل ہوگئے۔ کراچی میں سید سبط حسن نے اپنا زیادہ تر وقت تصنیف و تالیف میں بسر کیا اور اس دوران ماضی کے مزار، موسیٰ سے مارکس تک، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا، انقلاب ایران، کارل مارکس اور نوید فکر جیسی خالص علمی اور فکری تصانیف پیش کیں۔ 1975ء میں انہوں نے کراچی سے پاکستانی ادب کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا۔ "۔ سبط حن نے تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں جبرو قدراور استبداد اور دینی التباس بڑی عمیق نکات کی برف اشارہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں ’’جبرو قدر فقط فقہی مسئلہ نہ تھا بلکہ اس کے مضمرات معاشرتی اور سیاسی بھی تھے۔ خلافتِ راشدہ کے دوران اور اس کے بعد اقتدار کی جنگ نے جبرو اختیار کی بحث کو خالص سیاسی رنگ دیا۔ بنی اُمیہ جانتے تھے کہ فلسفۂ قدر کی زد براہ راست ان کے اقتدار پر پڑتی ہے، کیونکہ یہ فلسفہ آزادی عمل کی دعوت دیتا ہے۔ معتزلہ کی کوششوں سے جب بنو اُمیہ کو شکست ہوئی، عباسی سریر آرائے سلطنت ہوئے تو صرف ایک صدی بعد معتزلہ پر ایک بار پھر زوال آیا۔”
ہفت روزہ لیل و نہار میں ان کے لکھے ہوئے اداریے اس وقت کی پاکستانی سیاست, حکومتی اقدامات, ملکی و بین الاقوامی حالات کا بے لاگ, جامع اور معروضی جائزہ پیش کرتے ہیں جو پاکستان کی ابتدائی دور کی سیاست کی نوعیت اور خط و خال کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہیں.
ان کی کتاب سے ایک اقتباس ملاخطہ کریں:
بابلی تہذیب کو فنا ہوئے دو ہزار برس سے زیادہ مدت گزر چکی ہے لیکن سچائ کی آنکھوں سے دیکھو تو صاف نظر آتا ہے کہ اہل مشرق ہوں یا اہل مغرب، یہودی ہوں یا عیسائ، پارسی ہوں یا مسلمان سب کے سب عقیدوں اور رسم و رواج کا رشتہ بابلی تہذیب ہی سے ملتا ہے۔
(ماضی کے مزار)
ایک زبان کے ادب کا دوسری زبان میں ترجمہ: مسائل اور چیلنجز
ادب کا ترجمہ ایک فن ہے جو محض الفاظ کا ترجمہ کرنے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ثقافت،...