قدیم یونانی دیومالا میں ایک کرار تھا “سیسیفس” کے نام سے، جس کا کام ایک پتھر کو کو دھکیل کر پہاڑ تک لیجانا تھا اسکے بعد پتھر پہاڑ سے لڑھک جاتا تھا اور دوبارہ سے اس کا یہ کام شروع ہوجاتا تھا اس طرح اس کی زندگی اسی دائرے میں چکر لگاتی تھی یہ غلامی کا طوق اس کے گلے میں باندھ دیا گیا تھا۔
اگر سوچا جائے تو یہ اکثر انسانوں کی کہانی ہے، جن کی زندگی سیسیفس سے مختلف نہیں،
ہم میں سے اکثر لوگ بھی “سیسیفس” ہیں۔
ہم پیدا ہوتے ہیں، تعلیم حاصل کرتے ہیں، کام کرتے ہیں، ٹیکس دیتے ہیں، بچے پیدا کرتے ہیں، صبح سے شام کام اور بس کام اور بچوں کو بھی اسی دائرے میں دھکیلنے کیلئے تیار کرتے ہیں۔
ہر انسان میں زندہ رہنے کی قدرتی خواہش ہوتی ہے وہ چاہتا ہے کہ کسی نا کسی شکل میں زندہ رہے، اس کا نام باقی رہے، کوئی اس کی جائیداد کا وارث بنے جو اس کا اپنا بچا ہو، انسان فنا ہونے سے خوفزدہ ہے،
کیونکہ یہ کائنات ہے ہی خوفزدہ کرنے والی اور بھیانک ہے، اس کی بے پنا وسعتوں کو دیکھ کر ایک انسان ڈر جاتا ہے، وہ خود کو بہلائے رکھنا چاہتا ہے، وہ طفل تسلی کے بہانے تلاش کرتا ہے، اور ذیادہ سے ذیادہ دیر ذندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے،
انسان یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ اس بے پنا کائنات میں جس میں ان گنت ستارے ہیں، ان گنت کہکشائیں ان اربوں کھربوں ستاروں کے ہجوم میں،
انسان کی حیثیت صحرائے عرب میں موجود ریت کے ایک زرے کی سی ہے۔
مگر انسان یہ ماننے کیلئے تیار نہیں، کہ اس کا وجود کائنات کیلئے بہت اہم ہے،
اتنی بڑی کائنات میں لاکھوں سیارے زمین جیسے ہیں جہاں پر زہن زندگی کا قوی امکان موجود ہے۔
اس وسیع کائنات میں ایک ادنی سی کہکشان کے ادنے سے ستارے (سورج) سے 13 لاکھ گنا چھوٹے سیارے زمین پر کروڑوں انواح میں سے ایک انواح ہے،
وہ خود کو کوئی بہت اہم چیز سمجھتا ہے۔
اسی خیالی شخصی اہمیت کی وجہ سے بہت سی لعنتیں نسل در نسل چلتی رہتی ہیں۔
ہم لوگ خود جب پیدا ہوتے ہیں اور زندگی کو لاحق خطرات کے آگاہ ہونے کے باوجود بھی۔۔۔۔۔ اولاد پیدا کرنا وہ بھی ان کی مرضی کے بغیر،
یعنی کی جب ہم بچے پیدا کرتے ہیں بچے کی بھلائی کیلئے کبھی نہیں کرتے بلکہ اپنی مطلبی خواہشات
جیسے
سیاسی پروپیگنڈا،
کاروبار،
نسل کی بقا،
اور
بڑھاپے کا سہارا بنانے کیلئے بچے پیدا کرتے ہیں۔
ایسے میں بچوں کی مرضی، صحت، تعلیم، ان کی صلاحیتوں ان کے پسند اور ناپسند کو یکسر نظر انداز بھی کرتے ہیں۔
ہم سوچتے ہیں کہ اگر ایک بچہ پیدا ہوا تو وہ اپنا زرق خود لے کر آتا ہے،
اس لیئے جیسے ہی بچہ زرا سا بڑا ہوتا ہے، اسے کہنے لگتے ہیں کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاو، اگر کچھ نہیں کر پاتے تو ھڈ حرام، جیسے الفاظ دیئے جاتے ہیں، اس کے احساس گناہ کو بڑھاتے ہیں، اس سے توہین آمیز فرمانبرداری کی توقع رکھتے ہیں۔
بچوں کو ایک سانچے میں ڈھالنے کیلئے پیدا کرتے ہیں، پہلے سے یہ طے کیا ہوتا ہے کہ بچہ
کیا سوچے گا، کیا کھائے گا، کیا پہنے گا، کیا تعلیم حاصل کرے گا، کس سے شادی کرے گا،۔۔۔۔
اور دعوا یہ کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں سے بہت پیار ہے، ہمیں اپنے بچوں کی بہت فکر ہے۔
والین کو صرف ایک گوشت کی گڑیا کی ضرورت ہوتی ہے جس پر وہ تجربات کر سکیں، یہ جرم ایسے ہی ہوتا ہے کہ جیسے کوئی ریپسٹ کہے کہ بچپن میں میرے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا اس لیئے میرا یہ عمل(کہ بچے پیدا کرنا) جائز ہے۔
حالانکہ بچے نے تو نہیں ضد کی تھی کہ مجھے پیدا کرو،
اس لیئے بچے کی ذمہ داری نہیں کہ وہ آپکے مطابق مشینی زندگی گذارے، وہ کیا سوچے کیا پڑھے، کیا کام کرے یا نا کرے اس کی ذمہ داری والدین کی ہوتی ہے،
سسٹم کو چاہئیں غلام،
اور یہ نام نہاد والدین
جو کہ سرمایہ داروں کے ایجنٹ ہیں جو
مالی تحفظ کی عدم موجودگی میں،
بچے پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔
اسکے علاوہ جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے وہ بہت سے خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے جیسے کہ
بیماری
حادثہ
قتل
ایٹمی حملے کا شکار
دیوالیہ
قحط
وبا
جیسے خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے،
ایسے می۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بچے پیدا کرنا ایک اخلاقی عمل ہے،
کونکہ ان خطرات کی موجودگی میں بچے پیدا کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی کو اغوا کر کہ تہ خانے میں رکھنا اور تشدد کرنا، یا لکڑی کو آگ میں پھینکنے جیسا ہے۔
پھر اچھا کھانا دینا، مگر ساتھ ساتھ بجلی کے چھٹکے بھی لگاتے رہنا۔۔۔
زندگی ہر حال میں دکھ ہی دکھ ہے۔
گوتم بدھ نے کہا تھا
زندگی دکھوں کا گھر ہے ہر طرف دکھ ہی دکھ ہے،
اور ہم بے لگام خواہشات کی وجہ سے اپنا دکھ شدید کر لیتے ہیں۔
جب گوتم بدھ کا بچہ پیدا ہوا تو ان کو خوشی نہیں انہوں نے اس کا نام ارجن (زنجیر) رکھ دیا، کیونکہ شادی ایک ایسا ادارہ جو آپکو ذمہ داریوں الجھا دینا چاہتا ہے، تا کہ آپ کی اپنی شخصیت ختم ہو جائے اور کچھ بھی سوچ نا سکیں، آپ اس سماج میں کام کرنے والی ایک مشینری کے پرزہ بن کر رہ جائیں۔
ابو العلا المعری کا کہنا ہے کہ
“دکھ اولاد کی وجہ سے جنم لیتا ہے،
میرے والد نے مجھے پیدا کر کہ جرم کیا مگر میں اس جرم سے باز رہا،
میرے بچوں کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ ان کا وجود ہی نہیں۔”
اسی طرح
شوپنہاور لکھتا ہے کہ
“اولاد پیدا کرنا سب سے بڑا شر ہے۔ سیکس کے ساتھ شرم کا ہونا اس کا ثبوت ہے۔ یہ دنیا شہوت اور درد سے بھری ہے۔ فطرت ہمیں لذت کا جھانسہ دے کر اولاد کا طوق گلے میں باندھ دیتی ہے۔”
موجودہ دور کے دانشور اور اخلاقیات کے فلسفی
ڈیوڈ بیناٹر
نے اس موضوع پر دوشی ڈالی ہے۔
انہوں نے
“وجود میں آنے کے نام سے ایک جامع کتاب تحریر کی ہے،
جس میں زندگی کی خستہ حالی اور انسان کے بے معنی وجود کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔
ہم بچوں سے اجازت نہیں لے سکتے اس لیئے ہمیں کیسے یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنے مزموم مقاصد اور پروپیگنڈے کیلئے بچے پیدا کرتے جائیں؟
یہ فلسفے کا بہت اہم سوال ہے جس پر بحث جاری ہے۔۔۔۔۔۔
حال ہی میں ایک نوجوان نے اپنے والدین کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی کہ اس کے والدین نے اس کو اس کی اجازت کے بغیر پیدا کیا،
وہ درخواست تو نا قابل سماعت قرر دیتے ہوئے عدالت نے ردی کی ٹوکری کے نظر کردی۔۔۔۔۔۔۔
مگر سوال اپنی جگہ قائم ہے۔۔۔۔۔
امید ہے کہ کبھی نا کبھی تو کوئی نا کوئی نسل اس پر ضرور غور کرے گی۔۔۔۔۔ اور یہ نسل در نسل ظلم و جبر کا سلسلہ رک جائے گا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...