( ناول ’ کرول گھاٹی ‘ ۔ ۔ ۔ ایک تاثر )
راجندر سنگھ بیدی کا کہنا ہے کہ فِکشن کا کوئی کُلیہ نہیں ہوتا ۔ یہ بات سچ ہے ۔ بیلارس کی صحافی سویتلانا ایلکسیوچ ( Svetlana Alexievich ) کی چرنوبل کے نیوکلیائی پاور پلانٹ نمبر 4 میں پیش آئے حادثے یا سانحہ کہہ لیں، پر کتاب ”Chernobylskaya molitva: khronika budushchego“ کو ہی دیکھ لیں ۔ بظاہر یہ ایک صحافتی کتاب ہے لیکن اس نے نوبل انعام دینے والوں کی کمیٹی کے اراکین میں ایسی ہلچل مچائی کہ انہیں ’ ادب‘ کی تعریف بدلنی پڑی اور سویتلانا ایلکسیوچ کو ادب کا نوبل پرائز برائے 2015 ء دینا ہی پڑا ۔
”کرول گھاٹی“ غافر شہزاد کا ناول ہے۔ میں نے ان کی شاعری پڑھی ہے اور سُنی بھی ، ان کی نان فکشن نثر اخباروں میں دیکھی بھی ہے اور میری نظر ان کی معماری کے ہنر / فن پر تکنیکی تحاریر پر بھی ہے لیکن ان کی فِکشن بصورت ناول ’ کرول گھاٹی ‘ میرے سامنے پہلی بار آئی ہے۔ اسے پڑھ کر میرا پہلا دھیان راجندر سنگھ بیدی ہی کی طرف گیا جس نے فِکشن میں کسی کلیے کی موجودگی کو سرے سے رد کیا تھا۔
’ کرول گھاٹی‘ بھی ایک ایسی ہی فکشن ہے جو اپنے انگ میں اچھوتی اور منفرد ہے۔ کہیں بیانیہ ہے کہیں سکرپٹ رائٹنگ اور کہیں تجزیاتی مباحث اور مکالمہ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مکالمہ بھی اچھوتا ۔ بھلا پہلے کبھی ایسی فکشن لکھی گئی؟ شاید نہیں کہ آپ موٹر وے پر پیش آئے ’ ریپ‘ (Rape) کے ایک واقعے کو بیس (base) بنائیں اور منٹو کو اپنے ساتھ کھڑا کرکے ایسی تلخ سچائیوں کا پردہ چاک کریں جس کی لپیٹ میں سارا سماج ، اس کے ادارے ، اس کا ادب ، اس کے فنون لطیفہ ، اس کا پرنٹ ، الیکٹرونک و سوشل میڈیا آیا ہوا ہے۔
واقعہ ہموار موٹر وے پر پیش آتا ہے لیکن غافر شہزاد کی نظر سماج کی اُس سڑک پر ہے جو ناہموار ہے اور اس میں ایسے گڑھے ہیں جن کا کوئی پاتال نہیں اور جن میں ’زنابالجبر‘ کا ایک واقعہ تو کیا عمداً ہر طرح کے ’ جبر ‘ اور ’ قتل ‘ کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں واقعات دفن کر دئیے جاتے ہیں۔
یہ ناول تکنیک کے اعتبار سے نہ صرف منفرد ہے بلکہ واقعاتی طور اس مکروہ سچ کو بھی ایک نیا بیانیہ دیتا ہے جسے زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا اور اسے ایک گڑھے میں ایسے دفن کیا گیا ہے کہ آپ پاتال تک کھوج کر بھی اسے پا نہیں سکتے ، ویسے ہی جیسے APS پشاور اور مری کے سانحے تحقیقاتی رپورٹوں کے گڑھوں میں دفن کر دئیے گئے ہیں اور شہ سرخیاں یہ ہیں :
” بچے اگر مر گئے ہیں تو مائیں اور بچے پیدا کر لیں “ ۔ ۔ ۔ ”عورت موٹر وے پر رات کے وقت اکیلی گئی کیوں؟“ ۔ ۔ ۔ ” لوگ مری میں برفباری دیکھنے گئے ہی کیوں؟ “
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...