(Last Updated On: )
تبدیلی سرکار اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ مسند اقتدار پر جلوہ گر ہے۔نئے پاکستان کی تعمیر کے جنون میں مبتلا کپتان اور اس کےکھلاڑی اپنے کام میں اس قدر مگن ہیں کہ ان کو گردوپیش کی خبر تک نہیں ہے ۔ایک شور ہے جو بڑھتا جارہا ہے اور شور تخریب کاہوتا ہے تعمیر کا نہیں ہوتا ۔یہ شور اس عوام کا ہے جس کے لیے نیا پاکستان تعمیر کیا جارہا ہے ۔کم نصیب ہیں جو شور مچا رہے ہیں اور بضد ہیں کہ پرانا پاکستان چاہیے ۔ان کو لگتا ہے کہ پرانے پاکستان میں وہ زیادہ آسودہ حال تھے خوش وخرم تھے ۔نئے پاکستان سے خائف ایسی عوام کا اب کیا کیا جائے جن کو ترقی پسند نہیں ہے جن کوشق 62 اور 63 پر پورا اترنے والی نیک نام قیادت نہیں بلکہ کپتان کے مطابق ماضی کی کرپٹ سیاسی اشرافیہ چاہیئے ۔
وہ سیاسی اشرافیہ جو شاہی انداز میں حکمرانی کرتی تھی نسل در نسل حکمرانی ان کے اپنے گھر میں ہی چلی آرہی تھی ۔جس نے اربوں کھربوں کی مبینہ کرپشن کی اور ملکی وسائل اور دولت کو انگریزوں کے بعد انتہائی بے دردی سے لوٹا ۔ہٹو بچو کا شور اور میلوں تک پھیلے ہوئے پروٹوکول کے ساتھ چلنے والے حکمران کب عوام دوست ہوسکتے ہیں ۔عوام دوست تو صرف وہ ہوسکتا ہے جس کو عوام کا درد ہو عوام کی تکالیف کا احساس ہو۔جو شاہی کروفر سے آزاد ہو ،درویش منش ہو اور سادہ اتنا کہ قمیض بھی وہ پہنے جس میں دو موریاں ہوں۔مذہب سے اس قدر لگاوہوکہ جب بھی عوام کی بھوک کا زکر ہونے لگے وہ وہاں پر خیر وشر ، جنت و دوزخ کے قصے سنانے شروع کردے۔اخلاقیات پر لیکچر دینا شروع کردے۔
جب وجد میں آئے تو جرمنی کو جاپان سے ملا دے ۔اب ہوش والوں کو کیا خبر کہ بے خودی کیا چیز ہے ۔معصوم اس قدر کہ قریبی حلقہ احباب میں چینی، آٹے اور ادویات اسکینڈل کے گنہ گاروں کو نہیں پہچان سکا۔جب بتایا گیا کہ سائیں کا بھمبھور لٹ گیا ہے تو خبر ہوئی مگر تب تک عوام بے چاری کو ٹیکہ لگ چکا تھا ۔ مگر میرے سادہ لوح کپتان نے ہمت نہیں ہاری اور خودکشی کرنے کی بجائے کی مالیاتی اداروں کے پاس گیا اور جتنا قرضہ مل سکتا تھا لیا اور ملک کی تقدیر سنوارنے میں جت گیا۔دن رات ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرنے والے کپتان کو بدقسمتی سے عوام اچھی نہیں ملی
گزشتہ 8 سال سے خیبرپختون خواہ کی عوام کی خدمت میں مصروف عمل تبدیلی سرکار کی خدمات کو بلدیاتی انتخابات میں سراہا نہیں گیا۔قدر نہیں کی گئی بلدیاتی نتائج سامنے آنے پر خداجانے کیوں لائی بے قدراں نال یاری تے ٹٹ گئی تڑک کرکے گنگنانے کو دل چاہا۔ یہی حال ملک کے باقی حصوں کا ہے کہ جہاں بھی ضمنی انتخابات ہوئے وہاں پر تبدیلی سے نالاں سابقہ بوسیدہ نظام کی خواہش مند عوام نے تبدیلی اور ترقی کا ساتھ نہیں دیا۔پے درپے ضمنی الیکشن ہارنے کے باوجود کپتان کا حوصلہ کم نہیں ہوا اس ضمن میں کپتان کے لیئے داد تو بنتی ہےکہ ان حالات میں بھی کپتان ڈٹ کےکھڑا ہوا ہے
رہی بات پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کی اور گورنر ہاوسز اور وزرائے ہاوسز کو یونیورسٹیاں بنانے کی تو ابھی ڈیڑھ سال باقی ہے کپتان اپنا ہر وعدہ وفا کرئے گا ۔ سستی تعلیم کی فراہمی کپتان کا خواب ہے اور یہ ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا۔عوام تھوڑا جلد بازی سے کام لے رہی ہے یہ پراجیکٹ پانچ سالہ نہیں ہے بلکہ عمران پراجیکٹ جب لانچ کیا گیا تو یہ دس سالہ منصوبہ تھا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ماضی کے پانچ سالہ منصوبے کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔لہذا پہلے پانچ سال میں معاشی اعدادوشمار کو بہتر کیا جارہا ہے ڈالر کو نکیل ڈال دی گئی ہے اب آئندہ پانچ سالوں میں وعدے وفا کیئے جائیں گے
مگر یہ عوام عجیب وغریب سوچ کی حامل ہے اور کہتی ہے کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے ۔گویا ان کو اپنے کپتان کے وعدوں پر اعتماد نہیں ہے ویسے بے اعتباری کی حد ہے ۔بے اعتبار تو کپتان کا کھلاڑی نور عالم خان بھی ہوگیا ہے اور کہتا ہے کہ کپتان کے ساتھیوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں ۔شاید کہیں بے اعتبار وہ بھی ہوگئے ہیں جو اس دس سالہ عمران پراجیکٹ کے ماسٹر مائنڈ تھے ۔حامد میر کے مطابق مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ سر سے ہاتھ اٹھ گیا ہے ۔مطلب یہ کہ سرپر ہاتھ رکھنے والے نیوٹرل ہوگئے ہیں ۔اگرواقعی ایسا ہے تو پھر پیپلزپارٹی 27 فروری سے اور پی ڈی ایم یکم مارچ سے لانگ مارچ شروع کررہے ہیں تو حکومت کا کیا بنے گا؟
حکومت کا کچھ ہو نا ہو مگر اس بے چاری عوام کا کیا بنے گا۔اور خاص طورپر اس مظلوم کاشتکار کا کیا ہوگا جو دس ہزار روپے کی ڈی اے پی اور پچیس سو سے تین ہزار کی یوریا لائن میں دھکے کھا کر خرید رہا ہے ۔اور اس دیہاڑی دار مزدور کا کیا بنے گا جس کو ایک بلب جلانے کی عیاشی بھی مہنگی پڑرہی ہے ۔دو وقت کی روٹی کو ترستی عوام کو پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے ۔اب کپتان نظام ہی بدلنے کا پلان بنا رہا ہے اور صدارتی نظام جو اسلام کے بھی قریب ہے سے عوام کے مسائل حل ہوجائیں گے ۔مافیاز کا خاتمہ ہوجائے گا۔ خاندانی سیاست تباہ ہوجائے گی ۔کرپٹ سیاسی اشرافیہ اپنی موت آپ مرجائے گی۔
گزشتہ روز ہی میں صدارتی نظام کی خوبیاں گنوا رہا تھا کہ ایک ستم ظریف نے پوچھ لیا کہ پھر صدر کون بنے گا میں نے جواب دیا کہ کپتان سے زیادہ موزوں اور کون ہوسکتا ہے ۔گستاخ کہنے لگا کہ یہ تو کنویں سے دس ڈول پانی نکالنے والی بات ہوگئی اس سے پانی تو پاک نہیں ہوگا ۔ جب سے یہ سنا ہے پریشان ہوں کہ اگر نظام بدلنے سے بھی حالات بہتر نہیں ہوئے تو پھر کیا ہوگا۔مگر یہ سوچ کر ڈھارس بندھ رہی ہے کہ ایسی صورت میں میرے عزیز ہم وطنوں کا اسم اعظم کام کرجائے گا۔