روحانیت کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی مذہب کی تاریخ ہے۔ روحانیت کی کوئی حتمی اور متعین تعریف کرنا تو بہت مشکل ہے مگر عام طور پر اس سے مراد مقدس ہستیوں یا تصورات سے وابستگی، عقل اور حواس سے ماوریٰ روحانی تجربات و مشاہدات، مراقبہ، ترکِ دنیا، زہد و ریاضت اور ضبطِ نفس پر مبنی زندگی رہی ہے۔ زمانہ قدیم میں روحانیت مذہب اور تصوف کے ملاپ سے وجود میں آتی تھی۔ یہودیت، مسیحیت اور اسلام جیسے سامی (آسمانی) مذاہب کے علاوہ ہندو مت، بدھ مت اور جین مت جیسے مذاہب میں اس ملاپ سے پیدا ہونے والی روحانیت کی اساس بہت مضبوط رہی ہیں۔ ان مذاہب کے روحانی لوگوں کی مشترکہ اقدار وہی ہوتی تھیں جو اوپر بیان ہوئی ہیں، البتہ اپنے اپنے مذاہب کے زیر اثر مقدس شخصیات، زہد و عبادت کے طریقے اور روحانی تجربات کی نوعیت میں کچھ تبدیلی ہوتی رہتی تھی۔ مگر ہر ایک کا مقصود مذہب کے قانونی پہلووں اور ظاہری مراسم سے بلند ہو کر اپنی ذات میں ڈوب کر دل کا سکون تلاش کرنا ہوتا تھا۔ تاہم دورِ جدید میں جب مذہب اور عقیدے کو انسان کی زندگی میں مرکزی مقام حاصل نہیں رہا ہے، روحانیت کی ایک نئی قسم عام ہو چکی ہے جسے غیر مذہبی روحانیت یا Non-Religious Spirituality کہا جاتا ہے۔ ایک پہلو سے یہ دورِ جدید کے انسان کا نیا مذہب ہے جو مذہبی عقیدے، ظاہری شناخت، مراسمِ عبودیت سے ہٹ کر انسانیت کی اعلی اقدار جیسے محبت، ہمدردی، رحم، درگزر اور باطنی اور ظاہری پہلووں سے انسان کو سکون اور آرام پہنچانے کا نام ہے۔ یہ رنگ و نسل سے بلند ہو کر کائناتی اور آفاقی انسانوں کی تشکیل پر مبنی مذہب ہے۔(1)
باہم رواداری اور مروت کے ساتھ زندہ رہو اور زندہ رہنے دو، یہ زندگی کا قانون ہے، یہ سبق میں نے قرآن،انجیل، زند اوستا، اور گیتا سے سیکھا ہے۔(2)
مذہب کے لغوی معنی ہیں راہ یا راستہ جس کو دوسرے لفظوں میں مشرب، طریق، نظریہ اور دین بھی کہا جاتا ہے۔
جب ہم عالمی مذاہب کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں زندگی جینے کے وہ طریقے جو ایک خاص نظریہ کے تحت ہم کو سکھائے گئے ان کا اجتمائی تصور۔ عالمی مذاہب میں عام طور پر ہم صرف ایسے چند ایک مشارب کو ہی شمار کرتے ہیں، کیوں کہ پوری دنیا میں عقائد و نظریات کی جتنی بہتات ہے، اس کے پیش نظر اگر دنیا بھر کے مذاہب کا شمار عالمی مذاہب کی فہرست میں کیا جانے لگے تو یہ سلسلہ بہت طول پکڑ جائے گا۔ ان چند ایک میں عام طور سے عیسائیت، اسلام، ہندو ازم، یہودیت، بدھ مت اور جین مت وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔ اس کے بالمقابل یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہو گا کہ دنیا جہان میں پائے جانے والے ان عظیم مذاہب کے علاوہ مشارب کو ماننے والوں کی بھی کچھ کمی نہیں ہے۔ امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں ہی ایسے سیکڑوں نظریات و عقائد ہیں جن کو مختلف مقامات پر عوام الناس میں کافی مقبولیت نصیب ہے۔ ان چند ایک مذاہب، جن کا ذکر میں نے اوپر کیا، ان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ وہ مذاہب ہیں جن سے دنیا بھر کے مذاہب کے عقائد کسی نہ کسی طور جڑے ہوئے ہیں، ساتھ ہی یہ تمام مذاہب اتنے قدیم ہیں کہ ان کی رسومات و رورایات سے دنیا کے مختلف مذاہب نے اکتسابِ فیض کیا ہے۔ ہندو دھرم، یہودیت اور عیسائیت ان مذاہب کی جڑین دنیا کی قدیم تہذیبوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہندو دھرم کی بعض روایات جن میں مورتی پوجا، تصورِ بھگوان اور مختلف طاقتوں کے Supreme ہونے کا نظریہ وغیرہ اتنے قدیم ہیں کہ مصر، بابل و نینوا وغیرہ میں بھی پائے جاتے ہیں۔ حالاں کہ یہ بات کسی طور نہیں کہی جا سکتی کہ Egyptian یا Mesopotamian مذاہب نے ہندو دھرم سے کسی طور استفادہ کیا تھا، یہ تصور اس لئے خام ہے کیوں کہ متذکرہ بالا دونوں علاقوں کی مذہبی تاریخ ہندو دھرم سے قدیم ہے، لہذا اس جملے کے معنی یہ ہیں کہ ہندو دھرم میں ان قدیم مذاہب کی رسومات و روایات کی وہ جھلکیاں اب تک محفوظ ہیں جو اب یکسر معدوم ہو چکی ہیں۔ اسی طرح یہودیت اور عیسائیت کا معاملہ ہے کہ اسلام جیسے عظیم مذہب کی تعلیمات ان سے مشتق ہیں۔ یہ اور اسی نوع کی کئی وجوہات ہیں جن کی بنا پر ان مذاہب کو عالمی مذاہب میں شمار کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر کے مذاہب میں تصوف یا صوفی ازم کے رجحان کی بات کرنے سے قبل یہ بات بھی جان لینا اشد ضروری ہے کہ آخر کار تصوف سے ہم یہاں کیا کچھ مراد لے رہے ہیں۔ یہ لفظ تصوف جیسے انگریزی میں mysticism یا spiritualism کہتے ہیں، اپنے آپ میں اتنا متنازعہ ہے کہ اس کے یک رخی معنی پر اکتفا کر لینا اس کے وسعت کی تحدید کر دینے کے مترادف ہے۔ یہ لفظ یک مذہبی اور یک نظری نہ ہوتے ہوئے کثیر مذہبی اور کثیر مشربی ہے۔ لہذا اس کی تعریف بھی وسعتِ نظر کی متقاضی ہے۔ اس لفظ کے متعلق کسی ایک مذہب کے ایسے کسی بھی ماننے والے کی کوئی تعریف قابلِ قبول نہیں ہو سکتی جو اپنے مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کی تعلیمات کو قدر و منزل کی نگاہ سے نہ دیکھتا ہو۔ پھر خواہ وہ اپنے مذہب کی تعلیمات میں کتنا ہی زیادہ ماہر کیوں نہ ہو۔ اس کی تعریف اس مذہب کے ماننے والوں کے لئے تو قابل قبول ہو سکتی ہے، پر بین المذاہبی سطح پر اس کو کچھ خاص اہمیت حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کے چند علما کا یہ خیال ہے کہ ”شریعتِ محمدی ہی طریقہ تصوف ہے۔” لہذا اس کو ماننے میں کوئی عذر نہیں، پر یہ صرف مسلمانوں کی جماعت کے لئے قابل قبول ہو سکتا ہے نہ کہ عالمی مذاہب میں اس کی قبولیت کو وہ درجہ حاصل ہو گا جو امتِ مسلمہ کے مابین حاصل ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس تصوف کی یہ تعریف ملاحظہ کریں:
اقوامِ عالم کے صوفیانہ ادب اور صوفیوں کے اقوال کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہے کہ اپنی ماہئیت کے اعتبار سے تصوف اس اشتیاق کا نام ہے جو ایک صوفی کے دل و دماغ میں خدا سے ملنے کے لئے اس شدت کے ساتھ موجزن ہوتا ہے کہ اس کی پوری عقلی اور جذباتی زندگی پر غالب آ جاتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صوفی اسی (خدا) کو اپنا مقصودِ حیات بنا لیتا ہے، گفتگو کرتا ہے تو اسی کی، خیال کرتا ہے تو اسی کا، یاد کرتا ہے تو اسی کو، کلمہ پڑھتا ہے تو اسی کا، شفق کی سرخی میں، دریا کی روانی میں، پھولوں کی مہک میں، بلبل کی آواز میں، تاروں کی چمک میں، صحرا کی وسعت میں، باغ کی شادابی میں غرض دنیا کے تمام مظاہرِ فطرت اور مناظرِ قدرت میں اسے خدا ہی کا جلوہ نظر آتا ہے۔ (3)
یہ تعریف ایسی ہے جس کو ایک حد تک تمام وہ مذاہب، جن میں خدا کا ایک واضح تصور پایا جاتا ہے، ان میں قبول عام حاصل ہو سکتی ہے۔ لہذا ایسی ہی تعریفات کو عالمی مذاہب میں اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حالاں کہ تصوف صرف خدا کا اثبات، پند و نصائح، اخلاق و کردار اور خدمت خلق نہیں ہے بلکہ اس کو ایک ایسا لازمہ زندگی قرار دیا جا سکتا ہے جس میں ان تمام امور کو ایک خاص طریقہء حیات کے تحت قبولیت نصیب ہوتی ہے۔ اس لئے تصوف صرف ان میں سے کچھ ایک ہونے کے بجائے ان تمام افعال کا آمیزہ قرار دیا جا سکتا ہے، جس کی بنیاد اخلاص پر استوار ہے۔
تصوف کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے اثرات نہایت قدیم ہیں۔ یونانیوں کے یہاں تصوف کا رجحان موجود تھا، اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ انگریزی لفظ Mysticism یونانی زبان سے ہی آیا ہے۔ اس کا تذکرہ ڈاکٹر ہریندر چندر پال نے اپنی کتاب Jalal-ul-deen Roomi and Tasawwuf کے Sufism and its Exponents کے باب کی ابتدا میں کیا ہے۔ وہ تصوف کی تعریف بیان کرتے ہوئے psychology of religious mysticism کے حوالے سے لکھتے ہیں:
The term ‘mysticism’ comes from Greek word which designated those who had been initiated into the esoteric rite of the Greek religion. The following definitions, selected from a large number of the same tenor, indicate that this use of the term is in substantial agreement with the generally accepted understanding of it in Protestantism: ‘Mysticism is deification of man’: it is ‘a merging of the individual with the Universal will’; ‘a consciousness of immediate relation with the Divine’: and an intuitive certainty of contact with the super sensual world’: etc.(4)
باطنیت اور روحانیت سے متعلق نظریات کی ایک لمبی تاریخ ہے، جس زمانے میں یونانی، روحانیت کے مختلف النوع نظریات کی اختراع کر رہے تھے، اس عہد میں مصری تصوف اور چینی تصوف کی جڑیں تقریبا” مضبوط ہو چکی تھیں اور بعد کے عہد میں ہندوستان، روم اور عرب میں بھی اس کے اثرات مختلف انداز میں مرتب ہوئے۔ الہیات سے متعلق جتنے نظریات قدیم دنیا میں پائے جاتے ہیں، ان سب میں اگر کوئی ایک مشترک پہلو نظر آتا ہے تو وہ تصوف اور احسان ہی ہے۔ ورنہ ان تمام مذاہب کی رسومات ایک دوسرے سے یکسر جدا ہیں۔ بقول پروفیسر یوسف سلیم چشتی:
ہر مذہب، ہر قوم، ہر ملک اور ہر دور کا تصوف کا طریقہ کار ایک ہی رہا ہے۔یعنی عشق، اگر خدا محبوب ہے اور انسان محِبّ ہے تو لا محالہ محبوب کے حصول کا طریقہ محبت (عشق) ہی قرار پا سکتا ہے۔ دوسرا کوئی طریقہ نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ (الخ)۔
تصوف کے اصول اور مبادی ہر قوم میں یکساں رہے ہیں۔ ہر صوفی دراصل عاشق ہوتا ہے۔ اس لئے ہر قوم اور ہر ملک کے تصوف کا دار و مدار عشق و محبت ہی پر ہے۔ فرق جو کچھ نظر آتا ہے وہ صرف ظاہری اوضاع و روسوم میں ہے۔ مثلا ً جب عید کے دن کسی شہر کے مسلمان عید گاہ کی طرف جاتے ہیں تو ایک آدمی پیدل عید گاہ جاتا ہے تو دوسرا بیل گاڑی میں، تیسرا فٹن میں، چوتھا موٹر میں۔ ان کی وضع ظاہری اور رفتار میں تو فرق نظر آتا ہے مگر منزلِ مقصود چاروں کی ایک ہی ہے اور جذبہ محرکہ (داعیہ باطنی) ایک ہی ہے۔ (5)
یہاں یہ دو بنیادی سوال قائم ہوتے ہیں کہ آخر یہ عشق کیا ہے؟ اور ظاہری اوضاع سے عالمی مذاہب کے تناظر میں کیا کچھ مراد لیا جا سکتا ہے۔ اول الذکر کے تعلق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ عشق سے مراد یہاں دنیا اور مالکِ دنیا سے ہر طرح کی وابستگی عشق کے مترادف ہے۔ خدمتِ خلق میں خود کو اس حد تک وقف کر دینا کہ کسی نوع کے اختلاف کی گنجائش باقی نہ رہے اور راہِ خدا میں اتنا مگن ہو جانا کہ راہوں کی تفریق کا خیال مٹ جائے، یہ دونوں باتیں عشق کے ذیل میں آتی ہیں۔ ظاہری اوضاع سے مراد وہ تمام ثقافتی علامتیں ہیں جو انسانی تاریخ نے کسی ایک مذہب سے وابستہ کر دی ہیں، جن میں رہنے سہنے، اوڑھنے، پہننے، کھانے پینے اور عبادت کرنے کے طریقوں وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں تصوف کے تناظر میں ایسا کوئی اصول نہیں، جس سے عشق کے تقاضوں کی تحدید کی جا سکے۔ خدا اور بندہء خدا سے محبت ایک ایسا لازمہ ہے جس پر ایک صوفی کا مشرب قائم ہوتا ہے، لہذا کفر و ایمان کی کوئی بحث اپنے، (جو کہ ہر معاشرے میں اپنے معروف معنوں کے ساتھ رائج ہے) اس کا یہاں کچھ گزر نہیں۔
عالمی مذاہب میں تصوف کی بحث کے تحت ایک سب سے بڑا مسئلہ مقدس کتابوں کے اثبات کا ہے کہ مختلف مذاہب کی جو مقدس کتابیں پوری دنیا کے مختلف النوع مذاہب کے ماننے والوں کے پاس موجود ہیں، ان کی حقیقت کو کیوں کر تسلیم کیا جائے۔ ایک صوفی کا یہ تشخص ہے کہ وہ مذہب سے متعلق تمام آسمانی کتب کا اعتراف کرتا ہے اور اس کی تعلیمات کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ کسی ایک مذہب کو ماننا یہ عدمِ صوفی ہونے کی علامت نہیں ہے، بلکہ کسی بھی مذہب کا انکار کرنا غیر صوفی ہونے کی نشانی ہے۔ مرزا مظہر جانِ جاناں نے اپنے ایک خط میں ہندو مذہب کی تعلیمات کا جس طور اثبات کیا ہے، اس سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے۔ بہر کیف عالمی مذاہب میں ایسے بہت سے رجحانات ہیں جو تصوف کی سطح پر آ کر ایک ایسا نظامِ زندگی مرتب کرتے ہیں جہاں دوئی کے جھگڑے کی یکسر تکذیب ہوتی ہے۔ میں یہاں چند ایک مقدس کتابوں کے حوالے سے مختلف مذاہب کی تعلیمات کی ایک جھلک پیش کر رہی ہوں، جس سے عالمی مذاہب میں تصوف کے رجحانات کا علم ہوتا ہے کہ کس طرح تصوف کے علمی اور عملی کردار سے کئی ایک پیمانوں پر الگ الگ مذاہب کے ماننے والے ایک سطح پر نظر آتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی کرتی چلوں کہ دنیا بھر کے مذاہب کو عام طور پر دو خانوں میں بانٹا جاتا ہے۔ ایک سامی مذاہب اور دوسرا غیر سامی مذاہب۔ سامی مذاہب میں یہودیت، عیسائیت اور اسلام کا شمار ہوتا ہے اور غیر سامی مذاہب میں ہندو دھرم، زرتشتیت، بدھ مت، جین مت اور سکھ مت وغیرہ شامل ہیں۔
غیر سامی مذاہب:
یہ بات اظہر من شمس ہے کہ ہندو دھرم کی مقدس کتابوں میں وید کو بڑی اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس مذہب کی بنیادیں ویدوں کی تعلیمات پر ہی استوار ہیں۔ ہر وید کو ہندو دھرم کے بڑے گیانیوں، پنڈتوں اور اچاریوں نے بنیادی طور پر چار خانوں (سمہتا، برہمن، آرنیکا اور اپنشد) میں بانٹا ہے۔ جس کا سب سے آخری حصہ اپنشد کہلاتا ہے۔ اپنشد کو ہندوستان کے قدیم تعلیمی نظام کا ایک بڑا ماخذ بھی تصور کیا جاتا ہے، لہذا اس کی تعلیمات سے کوئی وہ شخص صرفِ نظر نہیں کر سکتا جو قدیم ہندوستانی تاریخ کے مطالعے کا ذوق رکھتا ہو۔ اپنشدوں میں تصوف کی تعلیمات بھری پڑی ہیں، اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی نظر آتی ہے کہ یہ اپنشد جس عہد میں ہندوستان میں رقم کئے گئے، اس زمانے میں یہاں مذہبی تعلیمات کا بڑا زور تھا اور تصوف چونکہ رواداری اور انکساری کے ساتھ فروغِ دین کا کام انجام دیتا ہے، اس لئے اس طریق کو گیانیوں، پنڈتوں اور ناتھ پنتھیوں نے ہمیشہ سے بہت اہمیت دی ہے۔ اپنشدوں میں ویسے تو بہت سی اور مختلف النوع تعلیماتِ تصوف ملتی ہیں، لیکن سب سے زیادہ جس قسم کی تعلیمات کا زور اس میں نظر آتا ہے وہ بے ثباتیء دہر کی تعلیم ہے۔ دنیا اور آخرت کی تعلیم کا بہت واضح تصور اس میں پیش کیا گیا ہے اور تصوف کی خاص اصطلاحات کے ذریعہ عوام الناس میں تصورِ ترکِ دنیا کو عام کیا گیا ہے۔ لیکن اس کی ایک خاص بات یہ بھی نظر آتی ہے کہ تارک الدنیا ہونے سے اپنشد نے جو مراد لیا ہے وہ اس قول کے مترادف ہے کہ ”دنیا ایسے کماو کہ ہاتھ تک آئے، دل تک نہ پہنچے۔” لہذا اس کی تعلیمات اس حوالے اور زیادہ قابلِ قبول گردانی گئیں۔ اپنشدوں کو مسلم صوفیہ نے بھی بہت قدر و منزل کی نگاہ سے دیکھا، اس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ ارونگ زیب کے بڑے بھائی داراشکوہ، جنہوں مغل دورِ حکومت کے عہدِ عروج میں تصوف کے کارہائے نمایاں انجام دئے اور سیر الاولیا جیسی تصوف کی معرکۃ الآرا کتاب تصنیف کی، انہوں نے 56 اپنشدوں کا اس عہد میں فارسی زبان میں سرِّ اکبر کے نام سے ترجمہ کیا اور اس کی تعلیمات کا اثبات کرتے ہوئے اس کی ہر حوالے سے تشہیر کی۔ بہر کیف یہاں میں اپنشدوں کی انہی تعلیماتِ تصوف میں سے چند ایک کو یہاں پیش کر رہی ہوں، جس سے اپنشدوں کی تعلیمات کے صوفیانہ مزاج کا علم ہوتا ہے۔
اپنشدوں کی صوفیانہ تعلیمات:
1۔ دنیا میں رہو مگر اس سے دل مت لگاو۔ ویراگ (تبتل یا انقطاع عن ماسو ی اللہ) بہترین طرز حیات ہے۔
2۔ دنیا کی نعمتوں سے تمتع جائز ہے۔ مگر انہیں مقصودِ حیات بنانا ناجائز ہے، کیوں کہ جو شخص فانی چیزوں سے دل لگاتا ہے وہ خود بھی فنا ہو جاتا ہے۔
3۔ انسان کے حقیقی دشمن باہر نہیں ہیں، بلکہ اندر ہیں اور وہ حسب ذیل ہیں۔
• کام (شہوت)
• کرودھ (غضب)
• موہ (حرص)
• لوبھ (طمع)
• اہنکار (عجب / تکبر)
4۔ جب تک ان دشمنوں (جو کہ نفسِ امارہ اور اس کی خواہشات کے مجموعے کا نام ہے۔) کو مغلوب نہیں کرو گے۔ عرفان (برہم گیان) حاصل نہیں ہو سکتا۔
5۔ جب انسان عارف ہو جاتا ہے تو اس میں یہ چار صفات پیدا ہو جاتی ہے۔
• اطمنان
• ہمت
• طاعت
• خدمت خلق
پھر وہ دسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے جیتا ہے۔
6۔ ایشور صرف انہیں کو درشن دیتا ہے جو اس کے دیدار کے لئے بیتاب ہیں، اور اسے حاصل کرنے کے لئے سراپا جستجو ہیں۔ اس کو پانے کی شرائط حسب ذیل ہیں:
• دم (ضبطِ نفس)
• دان (ایثار)
• دیّا (شفقت)
• جاپ (ذکر)
• تپ (مجاہدہ)
• دھیان (مراقبہ)
7۔ فانی سے دل لگانا سب سے بڑی نادانی ہے۔
8۔ حق تعالی متحرک بھی ہے، غیر متحرک بھی ہے۔ چلتا بھی ہے، ساکن بھی ہے، دور بھی ہے، قریب بھی ہے۔ اندر بھی ہے، باہر بھی ہے۔(6)
اپنشدوں کی مانند ہندو دھرم میں شری مد بھگوت گیتا کو بھی بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ کتاب بھگوان کرشن کے ان احکامات پر مبنی ہے جو انہوں نے ارجن کو دیئے تھے۔ اس میں کل اٹھارہ ادھیائے ہیں اور ان اٹھارہ ادھیاوں میں بھگوان کرشن نے ارجن کو حق و باطل کی جو تعلم دی ہے، اس سے تصوف کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ حالاں کہ گیتا ہندو دھرم کی آسمانی کتاب کبھی تصور نہیں گئی اور ویدوں کی طرح ہندو دھرم کے اعلی تعلیم یافتہ طبقے میں اسے وہ مقام نہیں حاصل ہو سکا جو اپنشدوں کا حاصل ہے، پر یہ کتاب ویدوں سے کہیں زیادہ عوام و خواص میں مقبول رہی ہے۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ البیرونی نے آج سے ایک ہزار برس پہلے جب ہندوستان کا سفر کیا تھا اور اس سفر کی داستان کتاب الہند کے نام سے لکھی تھی تو اس میں انہوں نے گیتا کے حوالے سے یہ جملے رقم کئے تھے کہ ”یہاں کے باشندے ایک کتاب کو بہت زیادہ اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جو ان کی مذہبی مقدس کتب میں شمار ہوتی ہے اور اس کتاب کا نام گیتا ہے۔” گیتا میری ناقص رائے میں تصوف کی بہت اہم کتاب متصور کی جا سکتی ہے، اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اس میں زندگی کو جس طرح جینے اور اس کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کا سبق دیا گیا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ کرشن ایک مرشدِ کامل کی مانند اپنے مرید (ارجن) کو راہِ سلوک کی منازل طے کرنے کا طریق سکھا رہے ہیں۔ اس میں اتنا زیادہ تصوف ہے کہ اس کے کسی ایک ادھیائے کے ایک اقتباس پیش کرنے سے اس کی مکمل عکاسی ممکن نہیں، بہرکیف میں یہاں اس کے دو، ایک اقتباس پیش کر رہی ہوں تاکہ ان تعلیمات کی ایک جھلک نظر آ جائے۔
شری مد بھگوت گیتا میں تصوف:
بھگوت گیتا جو کہ برہم ودّیا یعنی فلسفہ بھی ہے اور یوگ شاستر یعنی تصوف بھی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ اور یہ بھی بتایا ہے کہ انسان اس تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ خدا تک پہنچے کے تین راستے بتائے ہیں:
• جنان مارگ (طریقِ علم)
• بھگتی مارگ (طریقِ عشق)
• کرم مارگ (طریقِ عمل)۔ (الخ)
گیتا میں ویدانتی تصوف (اپنشدوں میں بیان کردہ تصوف) کے تمام اسرار و رموز بالوضاحت بیان کر دئے گئے ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے:
• خدا کو اپنا مقصود بناو۔
• اس سے محبت کرو تاکہ اسے حاصل کر سکو۔
• خدا اپنے عاشقوں کے دلوں میں رہتا ہے۔
• جو اسے چاہتا ہے وہ اسے ضرور درشن دیتا ہے۔
• ساری زندگی اس کے لئے بسر کرو۔
• نیک اعمال بجا لاو، مگر نیت یہ ہو کہ خدا مجھ سے خوش ہو۔
• سب انسانوں سے محبت کرو۔
• یہ دنیا خدا کی جلوہ گاہ ہے۔ ہر شئے مظہرِ خدا ہے۔
یہی تصوف کی روح اور یہ ہی گیتا کا اپدیش ہے۔(7)
بدھ مت اور تصوف:
گوتم بدھ ایک صوفی تھے۔ ایک کامل صوفی۔ جنہوں نے پوری زندگی زہد و تقوی اور عبادت و ریاضت میں گزار دی۔ حالاں کہ ان کے نام سے ساتھ لفظ صوفی استعمال کرنے پر کافی تنازعہ ہوا ہے۔ لیکن اگر ہم بدھ مت کی تعلیمات اور گوتھ بدھ کی زندگی حالات و واقعات کا مطالعہ کریں تو علم ہوتا ہے کہ ان کے لئے لفظ صوفی سے زیادہ بہتر کوئی لفظ نہیں۔ نِروان اور ترکِ دنیا کی تعلیمات جس عہد میں انہوں نے عام کیں، اس عہد میں عوام میں اس کا کوئی واضح تصور موجود نہ تھا۔ صوفیانہ تعلیمات میں بعد کے عہد میں جو کچھ تصرفات ہوئے ان میں گوتم بدھ کی تعلیمات کا خاصہ حصہ پایا جاتا ہے۔ گوتم بدھ کی تیس سالہ زندگی چونکہ عام انسانی زندگی ہے اور بچپن سے لے کر عنفوانِ شباب تک کے حالات کچھ بہت زیادہ متاثر کن نہیں ہیں۔ پھر بھی تیس سال کی عمر کے بعد ان کی ذہنی بیداری کو محسوس کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ وہ جس عہد میں پیدا ہوئے تھے، اس عہد کی ایک مشہور بزرگ ہستی نے ان کو دیکھتے ہوئے اس بات کا افسوس ظاہر کیا تھا کہ ان کی پیغمبرانہ اور صوفیانہ تعلیمات سے دنیا بیدار ہو گی لیکن میں اس کو دیکھنے کے لئے زندہ نہ رہوں گا۔ گوتم بدھ کی ذات وہ واحد ذات ہے جو ایک صوفی نما ہوتے ہوئے کسی کرامت کا مظاہرہ کرتی نظر نہیں آتی ہے۔ ان کی کرامت ان کی اپنی تعلیمات ہیں، جس سے دنیا و آخرت کا ادراک حاصل ہوتا ہے۔ ان کی صوفیانہ ذات کا اعتراف ان تعلیمات سے ہوتا ہے جو بدھ مت کی مذہبی کتب میں درج ہیں، لہذا اس سے تصوف کی قدامت اور بالا دستی کا احساس بھی قوی ہوتا ہے کہ دنیا کے کتنے عظیم رہ نماوں نے اس طریق کو اپنا کر اس دنیا میں امن و آتشی، انسان دوستی اور خدا ترسی کا سبق عام کیا۔ میں یہاں ان کی صوفیانہ تعلیمات کا ایک نمونہ پیش کر رہی ہوں جس سے بدھ مت کی صوفیانہ مزاجی کا علم ہوتا ہے۔
گوتم بدھ کی صوفیانہ تعلیمات:
اس شخص کی تنہائی کس قدر پر مسرت ہے جو مکمل خوشی سے بہریاب ہے، جس کو حق کی معرفت حاصل ہو چکی ہے۔ جو حق کا مشاہدہ کر رہا ہے جو کہ باعثِ مسرت ہے۔ بغض و نفرت سے چھٹکارا پا لینا اور تمام مخلوقات کے سلسلے میں ضبظ نفس کا حامل ہونا باعثِ خوشی ہے، نفس پروری سے رہائی حاصل کر لینا، تمام خواہشات کے پار ہو جانا۔ اس تکبر کو “جو میں ہوں” کے تصور سے پیدا ہوتا ہے، ایک طرف اٹھا کے رکھ دینا، یہ ہی اعلی ترین مسرت ہے۔
میں نے نِروان حاصل کر کے تمام دشمنوں پر فتح پا لی ہے۔ میں دانا ترین، ہر صورت میں عیب سے پاک ہوں۔ میں ہر چیز کو ترک کر چکا ہوں اور خواہشات کو فنا کر کے نجات حاصل کر چکا ہوں۔ خود اپنی کوشش سے معرفت حاصل کرنے کے بعد۔ اب میں کس کو اپنا استاد کہوں۔ کوئی میرا ہم پلہ نہیں انسانوں میں اور دیوتاوں میں کوئی میرا جنس نہیں۔ اس دنیا میں میں ہی مقدس ترین ہوں۔ میں ہی عظیم ترین استاد ہوں اور اکیلا میں ہی عارفِ مطلق ہوں۔ میں نے جذبات اور خواہشات کی آگ بجھا کر ٹھنڈک پا لی ہے اور نروان حاصل کر لیا ہے۔ (8)
جین مت اور تصوف:
بدھ مت کی طرح جین مت میں بھی تصوف کی تعلیمات کے اثرات بڑے پیمانے پر دیکھنے کو ملتے ہیں:
جین مت میں چونکہ نجات کا دار و مدار کسی غیبی طاقت کے فیصلے یا دیوتاوں کی مرضی کے برخلاف سر تا سر انسان کے ذاتی سعی و کوشش پہ مبنی ہے، اس لئے اس مذہب میں اس مقصد کے لئے ایک بہت تفصیلی لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف نوعیت کے قوانین، اصولوں اور ضابطوں کی متعدد فہرستیں ہیں جو جین مت کے مطابق ہر نجات کے خواہش مند کے لئے لازمی ہیں۔ یہ اصول و ضوابط تعداد میں اتنے زیادہ اور ہمہ گیر ہیں کہ فرد کی ذاتی و سماجی زندگی کا کوئی گوشہ ان کے دائرے سے باہر نہیں رہ گیا ہے۔ (9)
مندرجہ ذیل اقتباسات جین مت کی صوفیانہ تعلیمات پر مبنی ہیں۔ اس سے جین مت میں تصوف کس نوع سے اپنی شناخت قائم کرتا ہے اس کو بحسن و خوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
جین دھرم کی تعلیماتِ تصوف:
نجات حاصل کرنے کے لائحہ عمل کو جین مت میب تین بڑے حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ جو جین مت میں تری رتن (جواہرِ ثلاثہ کہلاتے ہیں)۔ جین مت کے یہ جواہر ثلاثہ مندرجہ ذیل ہیں:
• سُمیک درشن (صحیح عقیدہ)
• سُمیک گیان(صحیح علم)
• سُمیک چرتر(صحیح عمل)
جین مت کی اخلاقی تعلیمات میں سب سے بنیادی اہمیت ان پانچ ورتوں (واحد: ورت) کو حاصل ہے، جن پر ہر جینی کو تا زندگی عمل کرنے کا عہد کرنا پڑتا ہے اور وہ بنیادی عہد یہ ہیں:
• اہنسا (عدمِ تشدد)
• ستیہ (راست گفتاری)
• استیہ (چوری نہ کرنا)
• برہم چاریہ (پاک بازی)
• اپری گرہ (دنیا سے بے رغبتی )۔(الخ)
ان پانچ بنیادی عہدوں کے علاوہ جو کہ تمام جینیوں کے لئے لازم ہیں، گرہست جینیوں کو سات مزید فروعی عہد کرنے ہوتے ہیں جو کہ جین مت کے تصور میں ان کو بنیادی عہدوں پر آنے جانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ فروعی عہد اس طرح ہیں:
• دگ ورت
• دیش ورت
• انرتھ ڈنڈ ورت
• سامائکا
• پردشادھو پادسا
• اپابھوگ، پری بھوگ، پری مان
• اتی سمو بھاگ
مندرجہ بالا قوانین اور ان جیسے اور دوسرے اعمال کے علاوہ جو کہ جین مت میں گرہست جینیوں کی روحانی ترقی کے لئے تجویز کئے گئے ہیں۔ گرہست جینیوں کے روحانی ارتقا اور موکش سے ان کی درجہ بدرجہ قربت کو ایک اور اسکیم کے ذریعہ متعین کیا گیا ہے، جو کہ گیارہ پریتمائیں یا روحانی زندگی کے گیارہ مدارج کہلاتے ہیں۔ ان پریتماوں کے ذریعہ گرہست درجہ بدرجہ روحانی ترقی کرتا ہوا وہی فوائد حاصل کر سکتا ہے جو کہ ایک جین سادھو کو اپنے سنیاس کے درجہ کمال میں حاصل ہوتے ہیں۔(10)
زرتشت مت اور تصوف:
زرتشتیت کی مقدس کتاب اوستا مختلف طرح کی تحریرات پر مشتمل ہے۔ (الخ)۔ یہ امیشا اسپنٹا (نورانی ابدی ہستیاں) پر اعتقاد رکھتا ہے، وہ یہ ہیں: وہومنا (نیک خیال)، آشا وہشتا (راستی، الوہی قانون)، خشتراویرہ (سلطان الہی)، آرامیتی (عقیدت یا جذبہ الہی)، ہوروتیات (کمال اور بے عیبی)، امیرتیات (بقائے دوام) اور ہیں۔ دوسری طرف گاتھاوں میں انسان کے لئے برائی اور بھلائی میں انتخاب کی آزادی کے ساتھ ساتھ اخلاقی ذمہ داری کا تصور بھی بہت پر زور دار طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔(11)
زرتشیت کی تعلیمات تصوف:
• وہی تجھ سے مل سکتے ہیں اے اہورا! جو اپنے اعمال راستی اور نیک خیال کے الفاظ اور زبان کے ذریعہ جس کا کہ تو اولین رہ نما ہے، اے مزد! تیرے آقا ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔
• محنت کش انسان جس کا عمل انصاف پر مبنی ہوتا ہے۔ جو دانائی اور روحانی حکمت سے بھرا ہوا لیکن خاک سار ہوتا ہے۔ جو بلند کردار پیغمبر کا وفا دار ہے، وہی چستی یعنی اپنی معرفت و حکمت کے سبب دنیا کا بادشاہ ہو جائے گا۔
• کائنات کی بنیادی حقیقت یہ دو ہیں۔ ایک خدائے خیر ایک خدائے شر، کائنات کی حکومت ان دونوں میں تقسیم ہے اور دونوں ایک ازلی لڑائی میں مصروف ہیں۔ ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ خدائے خیر کے ساتھ تعاون کریں جس کو بالآخر فتح ہونا ہے۔(12)
سامی مذاہب:
یہودیت، عیسائیت، اسلام اور تصوف:
یہودیت، عیسائیت اور اسلام ان تینوں مذاہب کی چونکہ اساس ایک ہے، اس لئے ان تینوں مذاہب کی صوفیانہ تعلیمات بھی تقریباً ایک جیسی ہیں۔ لیکن خالص مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو علم ہوتا ہے کہ چونکہ ان تینوں مذاہب کا شرعی نظام مختلف ہے اور اس کے ادوار میں بھی خاصہ بعد ہے اس لئے تعلیماتِ تصوف میں بھی یک گنا تبدّل نظر آتا ہے۔ اسلام میں تصوف کی روایت خود عہدِ محمد ﷺ سے ایک صدی بعد مستحکم ہونا شروع ہوئی، لہذا عیسائیت اور یہودیت میں اس کی جڑیں ویسی کیوں کر نظر آ سکتی ہیں جیسا کہ بعد از اسلام کے تصوف میں نظر آتی ہیں۔ عیسا ئیت میں جس نوع کی صوفیانہ روایت پائی جاتی ہے اس سے ہمارے عہد کے بڑے محققین کو یہ گمان گزرا ہے کہ تصوف کی اصل و بنیاد مذہبِ عیسوی ہی ہے۔ لیکن یہ خیال خالص مستشرقین کا ہے، جبکہ اگر بہ نظرِ غائر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی اور عیسائی تصوف میں شرعی بعد کی وجہ سے خاصہ فرق پایا جاتا ہے۔ بہر کیف یہ خالص علمی بحث ہے کہ دینِ عیسوی میں علمِ لطائف اور اذکار وظائف، مراقبہ و مشاہدہ اور وجودِ باری تعالی کے وہ مباحث کیوں کر نظر نہیں آتے جو کہ اسلامی تصوف کے عروج کے بعد زیر بحث آئے۔ خود توحید کی جس بحث کو احمد بن روئم کے عہد میں چھیڑا گیا اور توحید کے نقطہ کمال تک تصوف کے کاملین نے اعلی نوع کے مباحث قائم کئے وہ عیسائیت کے کسی بھی دور میں نظر نہیں آتا۔ عیسائیت میں روح القدس کا تصور ایسا ہے جس کو عیسی ؑ کے ایک سو پچاس برس بعد زیر بحث لایا گیا اور اس پر ان عیسوی علما نے جم کے بحثیں کیں جن کو بعد از اسلام کے صوفیہ سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یوحنا کے ترتیبِ انجیل کے بعد ان مباحث میں مزید اضافہ ہوا۔ بہر کیف یہودیت کا معاملہ اس سے ذرا مختلف ہے۔ مثلا ً زبور اور عہد نامہ قدیم یا توریت کا ظہور جب ہوا اس زمانے میں توحید کے صوفیانہ مباحث کا رواج نہیں تھا۔ اسی طرح تصوف کے وہ زیادہ تر رجحانات اس عہد میں اس مقام پر مفقود تھے جہاں زبور یا توریت نازل ہوئی۔ پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اذکار و اوراد کے پیش نظر زبور کی اچھی خاصی آیات کا مزاج قران سے میل کھاتا ہے۔ سورۃ فاتحہ جس کو اسلامی تصوف کو فروغ دینے والے عظیم صوفیہ نے بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا اور اذکار میں اس کی اہمیت کے بہت فضائل بیان کئے ہیں، اس قسم کی آیات زبور میں بھی نظر آتی ہیں۔ اس سے تصوف کا برائے راست یہ تعلق ہے کہ وہ ایک سالک کے لئے ان راست بازیوں کا سامان مہیا کرتا ہے جس سے سلوک کی منازل طے کرنے میں سالک کو معاونت حاصل ہوتی ہے۔ صراطِ مستقیم کی خواہش اور اس پر جمے رہنے کے توسط سے سورۃ فاتحہ میں جو کلمات موجود ہیں اس کی شرح سے بعض شارحین نے تصوف کے پورے نظام کا لائحہ عمل ترتیب دیا ہے۔اس میں ایک صوفی کا ذکر نہیں کہ دمشق، روم، ایران، ایراق، اصفہان، شیراز، بخارا، بلخ، چِشت، مازندان، عرب، آذر بائیجان اور ہندوستان کے بعض قدیم صوفیا تک اس میں شمار ہوتے ہیں۔ میں زبور کی ایک دعا کو یہاں پیش کر رہی ہوں جس سے اس کا علم ہوتا ہے کہ قران اور زبور کی تعلیمات کا مزاج کتنا ملتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ سے مشابہ آیات کا نزول قبل از اسلام بھی ہوتا رہا جس سے یہودیت اور عیسائیت کے نظامِ معاشرت میں خدا ترسی، راست راہی، اخلاق اورامن وآتشی کی روایت قائم ہوئی۔
اے خدا میرا انصاف کر کیوں کہ میں راستی سے چلتا رہا ہوں۔
اور میں نے خداوند پر بے لغزش توکّل کیا ہے۔
اے خداوند مجھے جانچ اور آزما۔
میرے دل و دماغ کو پرکھ۔
کیونکہ تیری شفقت میری آنکھوں کے سامنے ہے۔
اور میں تیری سچائی کی راہ پر چلتا رہا ہوں۔
میں بیہودہ لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھا۔
میں ریا کاروں کے ساتھ کہیں نہیں جاوں گا۔
بد کرداروں کی جماعت سے مجھے نفرت ہے۔
میں شریروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔
میں بے گناہی میں اپنے ہاتھ دھووں گا۔
اور اے خداوند ! میں تیرے مذبح کا طواف کروں گا
تاکہ شکر گزاری کی آواز بلند کروں
اور تیرے سب عجیب کاموں کو بیان کروں۔
اے خداوند ! میں تیری سکونت گاہ
اور تیرے جلال کے خیمہ کو عزیز رکھتا ہوں۔
میری جان کو گنہگاروں کے ساتھ اور میری زندگی کو خونی آدمیوں کے ساتھ نہ ملا۔(13)
یہ وہ دعا ہے جس میں ایسی صوفیانہ بوقلمونی پائی جاتی ہے جس میں خلوص دل سے اپنے خدا سے وابستگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ حالاں کہ براہ راست تو ان دعاوں میں کوئی بڑی بات نظر نہیں آتی مگر علم الطائف اور اذکار و اوراد کی نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اصل اہمیت کیا ہے۔ ایک صوفی جس کی پوری زندگی علمِ ادراک میں صرف ہوتی ہے اور جس کو دیدارِ خداوندی میں تگ ودو کرنا، عرفانِ ذات سے عرفانِ خدا تک پہنچا، سب سے زیادہ معنی خیز معلوم ہوتا ہے وہ صفائے قلب کے لئے ان دعاوں کا کل وقتی ورد کرتے ہیں۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی عالمی سطح پر تصوف کے حوالے سے ایک سب سے الگ شناخت یہ بھی ہے کہ اس میں دعاوں کا ایک ایسا نظام ہے جو غیر سامی مباحث میں کہیں نظر نہیں آتا۔ اس کو ہم صوفیانہ ارتقا سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں مثلا قدیم غیر سامی مذاہب کی دعاوں سے اگر ہم یہود و نصاری کی دعاوں کا تقابل کریں تو اس کا علم ہمیں بخوبی ہو جاتا ہے۔ مثلا ً بابل و نینوا کی تہذیب کے قدیم مذاہب میں ایک دعا رائج تھی جو کہ دانت کے درد کی تھی۔ اس دعا کو ملاحظہ کیجیے:
انو نے سب نے پہلے آسمان پیدا کیا
تب آسمان نے زمین کو پیدا کیا
اور زمین نے دریاوں کو پیدا کیا
اور دریاوں نے نہروں کو پیدا کیا
اور نہروں نے دلدل کو پیدا کیا
اور دلدل نے کیڑوں کو پیدا کیا (14)
یہ انو بھگوان کے لئے ہے جو آسمان کا دیوتا تھا۔ اس دعا کو اس عہد میں کچھ بھی اہمیت حاصل رہی ہو، پر اس کا اس عہد میب دانت کے درد سے کوئی واسطہ معلوم نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا کوئی منطقی جواز نظر آتا ہے، جبکہ زبور کی مندرجہ بالا دعا یا قرآن کی سورۃ فاتحہ ایسی دعائیں ہیں جن کا منطقی جواز ہزاروں سال سے موجود ہے اور جن کی منطقی تحلیل بھی بہت آسانی سے ہوتی نظر آتی ہے۔ اسی لئے سامی مذاہب کے صوفیہ کے اوراد و وظائف کو غیر سامی مذاہب کے ماننے والوں سے زیادہ اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
عیسائیت اور اسلام تک آتے آتے تصوف کی تعلیمات بہت زیادہ واضح اور کثیر ہوتی نظر آتی ہیں۔ عیسائی مذہب کی بنیادی کتاب بائبل ہے جبکہ مسلمانوں کا سرچشمہء مذہب قرآن ہے۔ بائبل کی تعلیمات سے تصوف کے جو سوتے تھوٹتے ہیں اس کے تعلق سے کچھ کہنے سے قبل میں یہ بتا دوں کہ بائبل جس کو اردو میں کلامِ مقدس کہا جاتا ہے کہ بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے جس میں سے ایک کو عہد نامہ قدیم کہا جاتا ہے اور دوسرے کو عہد نامہ جدید۔ بائبل کوئی آسمانی لفظ نہیں ہے بلکہ یہ یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہوتے ہیں مجموعہ کتب، اس کو اسی لئے بائبل کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ بنیادی طور پر کئی کتب کا مجموعہ ہے۔ اس میں عہد نامہ قدیم میں یہودیوں کے نزدیک چوبیس، پروٹسٹنٹ کے نزدیک انتالیس کتابیں ہیں اور کیتھولک کے نزدیک چھیالیس کتابیں ہیں، ان میں بھی سات کتب ایسی ہیں جن پر پروٹسٹینٹ اور کیتھولکس میں یہ بحث ہے کہ یہ الہامی ہیں یا الحاقی۔اس کے بر عکس قرآن مکمل الہامی کتاب ہے جس میں تیس پارے ہیں اور اس میں کسی بھی نوع یہ الہامی یا الحاقی بحث کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس مختصر سی معلومات کو یہاں درج کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تصوف کی جو تعلیمات بائبل کے حوالے سے ہم تک پہنچتی ہیں ان پر خواہ عالمی مذہبی الہام کے تناظر میں کسی طرح کی بحث ہو مگر قرآن میں احسان کا جو تصور ہے پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا اور ایک خاص زمانی بعد کے لحاظ سے عیسائیت سے زیادہ احسان کا ایک واضح تصور یہاں نظر آتا ہے۔ عیسی ؑ کی زندگی اور ان کی تعلیمات میں ایثار و قر بانی کا جو رویہ نظر آتا ہے وہ تصوف کی بنیادی تعلیم ہے۔ یہ کہنا کچھ غلط نہ ہو گا کہ صوفی ازم کی بہت سے شقیں ایسی ہیں جن کو عیسائی مذہب سے جِلا ملی ہے۔ ایک مشہور قول عیسی ؑ جس کی تشہیر ہندوستان میں مہاتما گاندھی نے ایک عرصے تک کی، وہ یہ ہے کہ ”کوئی اگر تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو تم اس کے سامنے دوسرا گال پیش کر دو۔” امن و آتشی، تحمل، عدم تشدد، ایثار اور خداترسی کی ایسی مثال ہے جس کی نظیر دنیا کے کسی بھی مذہب میں ملنا مشکل ہے۔ تصوف کے جو توحیدی مباحث ہے، جن کو اسلامی تصوف نے بہت زیادہ عروج تک پہنچایا اور وحدت الوجود اور وحدت الشہود جیسے مباحث نے یہاں سر ابھارا، اگر ہم ان کو نظر انداز کر دیں تو عیسائیت کی اس نوع کی تعلیمات سے تصوف کو سب سے زیادہ قوی ہوتا پائیں گے۔ تصوف جس طرزِ زندگی کا نام ہے، اس طرزِ زندگی میں عیسوی Life style کو ایک مکمل اسلوبِ زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ ان کی عدمِ تشدد کی تعلیمات ہیں۔ تصوف اگر عیسوی نقطہ نظر سے کہیں مجروح ہوتا دکھائی دیتا ہے تو وہ صرف عیسائیت کا وہ نقطہ توحید ہے جو ایک مثلث کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔ ذات باری تعالی، حضرت عیسی اور روح القدس کے تصور کو عالمی پیمانے پر جو مقبولیت حاصل ہے اس سے قطع نظر تصوف کا جو ایک توحیدی نظام ہے اور جو سن عیسوی کے بعد ایک نوع کی منطق کے تحت قابل قبول گردانا گیا، اس کے پیش نظر اس تثلیث نے عیسوی تعلیمات تصوف کو مجروح کیا۔
تصوف کے تناظر میں یہ کوئی اتنا غیر اہم مسئلہ نہیں کہ ایثار و قربانی تو زندگی کے ہر شعبہ میں بہت اہم رہی ہے اور جس طرح کی انسانی ترقی نے دنیا کے عظیم معرکوں کو فتح کیا ہے اس میں وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت جیسے صوفیانہ مباحث کو بہت قدر و منزل کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ بائبل کی وہ تعلیمات جن میں تصوف کے بنیادی مباحث کی جھلکیاں ملتی ہیں وہ اگر اقتباس اندر اقتباس یہاں پیش کی جائیں تو ان کا ڈھیر لگ جائے گا۔ کیوں کہ عیسی ؑ کی زندگی کا ہر ہر لمحہ نمونہ تصوف کی بازیافت کرتا نظر آتا ہے۔ لہذا تصوف کے حوالے سے عیسائی مذہب کا جو کمزور ترین پہلو ہے میں نے اس پر یہاں زور دینا زیادہ اہم سمجھا۔ اس کمزور پہلو کو نئے زمانی نظام کے تحت اسلامی تھیوری سے مزید تقویت اس طرح ملتی ہے کہ ہم توحید کے نقطہ عروج کی ایک جھلک اسلامی تصوف کے تناظر میں دیکھیں، لہذا میں یہاں اس نقطہ توحید کی ایک جھلک کے طور پر اسلامی تصوف سے متعلق ایک بڑے صوفی کا اقتباس پیش کر رہی ہوں، جس سے توحید کے نقطہ عروج کا علم ہوتا ہے۔
توحید کی تعریف:
”توحید یہ ہے کہ جس نے خدا کے بارے میں کوئی تصور باندھا، مشاہدہ معانی کیا، علم الاسماء پر عبور حاصل کیا، اسماء الہیٰ کی اللہ کی طرف نسبت کی اور صفات کو اس سے منسوب کیا، اس نے توحید کی بو تک بھی نہیں سونگھی، مگر جس نے یہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی اسے منفی کر دیا، وہی موحد ہے مگر رسمی طور پر، حقیقتاً نہیں۔” (15)
اسلامی تصوف کی یہ ہی وہ خاصیت ہے جس نے علمی سطح سے بلند ہو کر تصوف علمی مباحث نے اتنا زیادہ عروج حاصل کیا کہ اس سے قبل اس تصور بھی کہیں نظر نہیں آتا تھا۔
اسلامی تصوف کی ابتدا تو رسول اکرم ﷺ سے ہی ہو جاتی ہے، لیکن اس کو مسلم صوفیانہ سلسلوں نے نبی کے بعد حضرت علی اور ابوبکر صدیق ان دو صحابہ کے حوالے سے زیادہ اعتبار بخشا ہے۔ ان دونوں صحابہ کی صوفیانہ تعلیمات اور طرز زندگی سے استفادہ کرتے ہوئے بعد کے صوفیہ نے اسلامی تصوف کا ایک پختہ لائحہ عمل ترتیب دیا۔ اسلام میں تصوف کی روایت حالاں کہ پندرہ سو سال پرانی ہے، لیکن پہلے صوفی کا اطلاق ابو ہاشم پر ہوتا ہے جو کہ 763 عیسوی میں فوت ہوئے۔ اسی طرح تصوف کی پہلی کتاب ابو نصر السراج علیہ رحمہ کی کتاب اللمع کہی جاتی ہے۔ اسلام میں تصوف کے کئی ایک سلاسل ہیں۔ جن میں قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ وغیرہ کو برصغیر میں زیادہ اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان تمام سلاسل کے صوفیہ نے تزکیہ نفس، تزکیہ باطن اور صفائے قلب کی تعلیم کو پوری زندگی عام کیا۔ امام جنید بغدادی، منصور حلاج، شیخ عبدالقادر جیلانی، خواجہ بہاوالدین نقشبندی، خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ نظام الدین اولیا، شیخ احمد سرہندی، عبدالحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ اور شاہ وارث علی وغیرہ چند ایک مشہور و معروف صوفیہ ہیں۔ اس کے علاوہ بھی صوفیہ کی تعداد ہزاروں میں ہے جن سے دنیا بھر میں سلوک و معرفت کی تعلیمات عام ہوئی ہیں۔
اسلامی تصوف کیا ہے اس کی مثال سب سے بہتر انداز میں اس اقتباس سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ :
تصوف ابن آدم کی سرشت کا گراں مایہ رازِ سربستہ ہے جس کا حصول مادیت اور ظاہری چکا چوند کو شکست دینے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی سائنس و فلسفہ نہیں ہے جس کی تعبیریں اور مفہوم زمانے کے نشیب و فراز کے ساتھ بدلتے رہیں۔ محسنِ انسانیت، انسانِ کامل محمد ﷺ کے عہدِ مبارک میں بھی اس کی وہی تعریف تھی، جو آج ہے، وہ ایک مکمل طرزِ حیات اور ناقابلِ تردید حقیقت ہے، جس سے ہمارے قول و فعل کا تضاد ختم ہوتا ہے اور ہم جیسے ہوتے ہیں ویسے نظر آتے ہیں۔ وہ سراپا صدق و حقیقت اور سعی و عمل نیز سر تاپا جدوجہد ہے۔(16)
اسلامی تصوف کی اس سے بہتر کوئی تعریف ممکن نہیں۔ واقعتاً یہ انسانی زندگی میں فکر و عمل کے تضاد کو ختم کرنے کے لئے سب سے بہتر طرزِ عمل ہے۔ جو ہزاروں برس کی مسافت طے کرتا ہوا، اسلامی تعلیمات سے جِلا پا کر اس صورت میں ڈھلا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
1۔ جدید روحانیت اور اجنبی اسلام، ابو یحیی، انظار ڈاٹ اورگ
2۔ ص: 13، مذہب اور دھرم، مہاتما گاندھی، انجمن ترقی اور، علی گڑھ
3۔ ص: 21، مقدمہ، تاریخ تصوف، پروفیسر یوسف سلیم چشتی، اریب پبلیکیشنز
4.Psychology of religious mysticism (Ref by) P. 102, Harenrdchandr paul, Jalal-ud-deen Roomi and Tasawwuf, M.I.G Housing Estate.
5۔ ص: 29، مقدمہ، تاریخ تصوف، پروفیسر یوسف سلیم چشتی، اریب پبلیکیشنز
6۔ ص:39، 40، 41، 46، اپنشدوں کی تعلیمات، تاریخ تصوف،پروفیسر یوسف سلیم چشتی، اریب پبلیکیشنز
7۔ ص:72، 77، 78، شری مد بھگوت گیتا میں تصوف، تاریخ تصوف، پروفیسر یوسف سلیم چشتی، اریب پبلیکیشنز
8۔ ص: 377، 378، بدھ مذہب کی مقدس کتابوں سے اقتباس، دنیا کے بڑے مذہب، عماد الحسن آزاد فاروقی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی
9۔ ص: 132، اخلاقی تعلیمات، جین مت، دنیا کے بڑے مذہب، عماد الحسن آزاد فاروقی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی
10۔ ص: 136، 137، 138، اخلاقی تعلیمات، جین مت، دنیا کے بڑے مذہب، عماد الحسن آزاد فاروقی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی
11۔ ص: 383، زرتشتیت کی تعلیمات، جین مت، دنیا کے بڑے مذہب، عماد الحسن آزاد فاروقی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی
12۔ ص: 384، 385، زرتشتیت کی تعلیمات، جین مت، دنیا کے بڑے مذہب، عماد الحسن آزاد فاروقی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی
13۔ زبور، پہلی کتاب، داود کا مزمور 26
14۔ ص: 109، سبط حسن، ماضی کے مزار، سہمت پبلیکشنز
15۔ ص: 108، احمد بن رویم، حیات و تعلیمات، العرفان پبلیکیشنز
16۔ ص: 21، موجودہ دور میں تصوف اور خانقاہوں کی ضرورت، پروفیسر مسعود انور علوی، اکیسویں صدی میں تصوف: عالمی بحران کے حل کی تلاش
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...