(Last Updated On: )
(جنرل عبد الوحید کاکڑ … سابق آرمی چیف)
12جنوری1993ء……..جنرل عبدالوحید کاکڑ 12 جنوری 1993ء تا 12 جنوری 1996 کے لئے آرمی چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ 20 مارچ 1937ء کو پشاور میں پیدا وئے اور انھوں نے 1959میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا۔چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر تعیناتی سے قبل جنرل عبدالوحید کاکڑ کور کمانڈر کوئٹہ کے عہدے پر تعینات تھے۔ انہوں نے 1965 میں سیالکوٹ میں چونڈہ کے محاذ اور 1971 میں سلیمانکی ہیڈ ورکس پر خدمات انجام دی تھیں۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ کی وفات کے وقت سنیارٹی لسٹ میں علی الترتیب لیفٹیننٹ جنرل رحم دل بھٹی، محمد اشرف، فرخ خان اور عارف بنگش شامل تھے، تاہم نواز شریف حکومت نے پانچویں جنرل عبدالوحید کاکڑ کو سپہ سالار منتخب کیا۔ شاید جنرل کاکڑ کے اپنے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ آرمی چیف مقرر کیے جائیں گے، جنر ل عبدالوحید کاکڑکا نام جی ایچ کیو کی جاری کردہ لیفٹیننٹ جنرلزکی اس فہرست میں شامل تھا جو اگست 1993میں ریٹائر ہونے والے تھے ان کی شہرت ایک پیشہ ور فوجی کی تھی۔آرمی چیف کا عہدہ سنبھالتے ہی جنرل وحید کے سامنے کئی معاملات تھے جن میں فروری 1993میں آرمی چیف کا مجوزہ دورہ امریکا، ملک کی سیاسی صورت حال شامل تھی۔امریکا میں نئی کلنٹن انتظامیہ نے اقتدار سنبھال لیا تھا، پاکستان کو امریکا نے دہشت گرد ریاست قرار نہیں دیا تھا مگر واچ لسٹ پر رکھا ہوا تھا۔ اس پس منظر میںنئی انتظامیہ کے آنے کے بعد کسی بھی ملک کے فوجی سربراہ کا یہ پہلا دورہ ہوتا، مگر جنرل وحید اس دورے کے لیے تیار نہ تھے اور ساتھ ہی ملک کی سیاسی صورت حال بھی اس کی اجازت نہیں دے رہی تھی، جنرل وحید نے اپنا دورہ امریکا ملتوی کر دیا۔اس التوا کا نقصان یہ ہوا کہ اگلے آٹھ سال تک کلنٹن انتظامیہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتری کی سطح تک نہ آسکے۔ جنر ل عبدالوحید کاکڑ کی تقرری پر صدر اور وزیر اعظم کے درمیان پیدا ہونے والا اختلاف بڑھتا ہی گیا، صدر اسحق خان نے 18 اپریل 1993 کو قومی اسمبلی توڑ کر نواز حکومت کو برطرف کر دیا۔ فوج نے صدر غلام اسحق خان کے فیصلے کا ساتھ دیا۔نواز حکومت کو سپریم کورٹ نے 26 مئی 1993 کو بحال کر دیا مگر مملکت کا انتظام رک گیا، چاروں صوبوں میں نواز مخالف حکومتیں قائم تھیں، پنجاب میں وفاقی حکومت نے رینجرز کے ذریعے اپنی رٹ قائم کرنے کی کوشش کی، جسے جنرل وحید کی طرف سے ناکام بنا دیا گیا۔ حزب اختلاف نے لانگ مارچ کا اعلان کردیا۔ ایسے میں جنرل وحید کاکڑ نے شٹل ڈپلومیسی کے ذریعے معاملات کو سیاسی طور پر حل کرنے میں مدد کی، گوکہ اس وقت کئی سیاست دانوں نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا جائے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا۔18 جولائی 1993 کو صدر اور وزیر اعظم نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ انتخابات کے بعد نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا اور بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں۔ ستمبر 1995میں ملٹری انٹیلی جنس نے فوج میں بغاوت کا ایک منصوبہ پکڑ لیا جس کی تیاری مکمل ہو چکی تھی۔40سے زائد فوجی افسران کے اس گروپ کا منصوبہ تھا کہ اعلیٰ ترین فوجی قیادت کو کور کمانڈرز کانفرنس کے دوران قتل کردیا جائے گا جب کہ وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کو قتل کر کے ملک میں اسلامی حکومت قائم کی جائے گی۔ میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی اس باغی گروپ کی سربراہی کر رہے تھے۔تمام افراد کو گرفتار کر کے کورٹ مارشل کر دیا گیا۔جنر ل عبدالوحید کاکڑکی مدت ملازمت مکمل ہونے والی تھی،حکومت کی طرف سے جنرل وحید کو توسیع کی پیش کش بھی کی گئی جسے جنرل وحید کاکڑ نے مسترد کر دیا اور 12 جنوری 1996 کو اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو گئے۔
٭
(جنرل جہانگیر کرامت … سابق آرمی چیف)
12جنوری 1996ء……..جنرل جہانگیر کرامت 12 جنوری 1996 کو آرمی چیف مقرر ہوئے اور وہ 07 اکتوبر 1998 تک چیف آف آرمی اسٹاف تعینات رہے۔ جنرل کاکڑ کی سبک دوشی کے وقت جنرل جہانگیر کرامت ہی سب سے سینیئر جنرل تھے چنانچہ انھیں اگلا سپہ سالار بنا دیا گیا۔ جنرل جہانگیر کرامت 20 جنوری 1941ء و سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور انھوں نے 1961ء میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 1965 میں انھوں نے اکھنور اور 1971ء میں شکر گڑھ کے محاذ پر خدمات انجام دیں۔ دورانِ ملازمت انھوں نے بین الاقوامی تعلقات اور وار اسٹڈیز میں ڈگریاں حاصل کیں۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں سٹرٹیجک سٹڈیز اور وار کالج میں ملٹری سائنس پڑھاتے رہے۔ 80 کی دہائی میں سعودی عرب میں فوجی مشیر بھی رہے۔ ان کی سپہ سالاری کے دوران صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو برطرف کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ممکنہ برطرفی کی سن گن ملتے ہی جنرل جہانگیر کرامت نے مبینہ طور پر سپیکر قومی اسمبلی یوسف رضا گیلانی کے ذریعے صدر اور وزیرِ اعظم کو پیغام بھیجا کہ باہمی اختلافات جتنی جلد دور کرلیں اتنا ہی جمہوریت کے لیے بہتر ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ اختلافات جب ذاتیات تک پہنچ جائیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو ہوا۔ عبوری حکومت کے تحت انتخابات ہوئے۔ نواز شریف کو دوسری بار وزیرِ اعظم بننے کا موقع ملا۔ پھر جہانگیر کرامت کو سپہ سالاری کے ساتھ ساتھ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ بھی تفویض کردیا گیا۔ جب نواز شریف کی چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ ٹھن گئی تو اس لڑائی میں جنرل جہانگیر کرامت نے غیر جانبداری برتی۔ انھی کے دور میں بھارت کے جوہری دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کیے۔ زندگی ٹھیک ہی چل رہی تھی کہ اکتوبر 1998 میں جنرل جہانگیر کرامت نے نیول وار کالج میں خطاب کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ ریاستی ڈھانچے کے استحکام کے لیے ترکی کی طرز پر نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نواز شریف حکومت اس تجویز سے یہ سمجھی کہ جنرل صاحب کے ارادے ٹھیک نہیں۔ چنانچہ7 اکتوبر 1998 کو ان سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ پھر وہ امریکہ چلے گئے اور سٹینفورڈ یونیورسٹی اور بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے علمی و تحقیقی کاموں سے خود کو منسلک کرلیا۔ جنرل مشرف کے دور میں لگ بھگ دو برس واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر رہے۔ بعد ازاں اپنا تھنک ٹینک سپئیر ہیڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کر لیا۔
٭
(قاضی حسین احمد … ممتاز سیاست دان ،امیر جماعتِ اسلامی)
12جنوری 1938ء……..قاضی حسین احمد12 جنوری 1938 ء میں ضلع نوشہرہ (صوبہ خیبر پختونخوا) کے گاؤں زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے۔ والد مولانا قاضی محمد عبدالرب صاحب ایک ممتازعالم دین تھے اوراپنے علمی رسوخ اور سیا سی بصیرت کے باعث جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے صدرچُنے گئے تھے۔ قاضی صاحب اپنے دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر عتیق الرحمٰن اور مرحوم قاضی عطاء الرحمٰن اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل تھے۔ قاضی حسین احمد بھی ان کے ہمراہ جمعیت کی سرگرمیوں میں شریک ہونے لگے۔ لٹریچر کا مطالعہ کیا اور یوں جمعیت طلباء سے وابستہ ہوئے۔
قاضی صاحب نے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنیوالد سے حاصل کی۔ پھر اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی۔ بعد ازتعلیم جہانزیب کالج سیدو شریف میں بحیثیت لیکچرارتعیناتی ہوئی اور وہاں تین برس تک پڑھاتے رہے۔ جماعتی سرگرمیوں اور اپنے فطری رحجان کے باعث ملازمت جاری نہ رکھ سکے اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کردیا۔ جہاں سرحد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے۔
دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان میں شامل رہنے کے بعد آپ 1970ء میں جماعت اسلامی کیرکن بنے،پھرجماعت اسلامی پشاورشہر اور ضلع پشاورکے علاوہ صوبہ سرحد کی امارت کی ذمہ داری بھی ادا کی گئی۔ 1978ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل بنے اور 1987ء میں جماعت اسلامی پاکستان امیر منتخب کر لیے گئے۔ تب سے وہ چارمرتبہ (1999ء،1994ء،1992ء، 2004ء) امیرمنتخب ہو ئے۔
قاضی حسین احمد 1985ء میں چھ سال کے لیے سینیٹ آف پاکستان کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1992ء میں وہ دوبارہ سینیٹرمنتخب ہوئے،تاہم انہوں نیحکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے بعد ازاں سینٹ سے استعفا دے دیا۔ 2002 ء کے عام انتخابات میں قاضی صاحب دو حلقوں سے قومی اسمبلی کیرکن منتخب ہوئے۔ نورانی صاحب کی وفات کے بعد تمام مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے یعنی متحدہ مجلس عمل کے صدر منتخب ہوئے۔ ایم ایم اے میں فضل رحمان کے برعکس قاضی صاحب کا نقطٔ نظر ہمیشہ سے سخت گیر رہا ہے۔ حقوق نسواں بل کی منظوری کے بعد استعفا کی بات بھی ان کی طرف سے ہوئی تھی۔ اور قاضی صاحب نے پارٹی قیادت پر کافی دباؤ بھی ڈالا لیکن جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ فضل الرحمان کے سامنے ان کی ایک نہ چل سکی۔ جولائی2007ء میں لال مسجد واقعے کے بعد اسمبلی سے استعفا دینے کا اعلان کر دیا۔قاضی صاحب کی زندگی کی دو بڑی غلطیاں تھیں۔پہلی اسلامی جمہوری اتحاد میں شمولیت اور دوسری مولانا فضل الرحمن پہ اعتبار۔
3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے بعد آپ کو اپنے گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ 14 نومبر 2007 کو عمران خان کو پولیس کے حوالے کرنے کا واقعہ ہوا۔ دو ہی روز بعد 16 نومبر 2007 کو حکومت نے قاضی صاحب اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی نظربندی ختم کر دی۔
قاضی حسین احمد کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ جو والدہ سمیت جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں۔ قاضی صاحب منصورہ میں دو کمروں کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ قاضی صاحب کو اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ اردو،انگریزی،عربی اور فارسی پر عبور حاصل تھا۔ وہ شاعرِ اسلام علامہ محمد اقبال کے بہت بڑے خوشہ چین تھے، انہیں فارسی و اردو میں ان کااکثر کلام زبانی یاد تھا اور وہ اپنی تقاریر و گفتگو میں اس سے استفادہ کرتے تھے۔6 جنوری 2013ء کو دل کے عارضہ سے اسلام آباد میں انتقال ہوا، اُن کو ان کے آبائی علاقے نوشہرہ میں دفن کیا گیا۔
٭
(تصدق حسین خالد … اُردو نظم کے ممتاز شاعر)
12جنوری 1901ء……..اُردو آزاد نظم کے بانیوں میں شامل ممتاز شاعر اور نامور قانون دان تصدق حسین خالد 12 جنوری 1901ء کو پشاور میں پیدا ہوئے ۔ انہیں قانون کی پریکٹس کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی دلچسپی تھی اور وہ 1935ء سے 1937ء تک پنجاب مسلم لیگ کے پبلسٹی سیکریٹری بھی رہے تھے۔ ڈاکٹر تصدق حسین خالد کے شعری مجموعے سروونو اور لامکاں نا لامکاں کے نام سے شائع ہوئے۔ 13 مارچ 1971ء کو تصدق حسین خالد لاہور میں وفات پاگئے۔ وہ لاہور میں دارالعلوم اسلامیہ، شادمان لنک روڈ میں آسودۂ خاک ہیں۔
٭
(احمد فراز … مقبول ترین شاعر)
12جنوری1931ء…….. احمد فراز، پاکستان کے نامور شاعر احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ء کو نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سید محمد شاہ برق کوہاٹی فارسی کے ممتاز شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ احمد فراز نے اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور ریڈیو پاکستان سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بعدازاں وہ پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرار منسلک ہوگئے۔ وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فائونڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔ احمد فراز عہد حاضر کے مقبول ترین شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ انہیں بالعموم رومان کا شاعر کہا جاتا ہے مگر وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہر دور میں احتجاج کا پرچم بلند کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں بھی جھیلنی پڑیں اور جلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔ احمد فراز کے مجموعہ ہائے کلام میں تنہا تنہا، درد آشوب، نایافت، شب خون، مرے خواب ریزہ ریزہ، جاناں جاناں، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، سب آوازیں میری ہیں، پس انداز موسم، بودلک، غزل بہانہ کروں اور اے عشق جنوں پیشہ کے نام شامل ہیں۔ ان کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ احمد فراز کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارہ? امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔ ہلال امتیاز کا اعزاز انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی تھی۔ 25 اگست 2008ء کو احمد فراز اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ احمد فراز اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ? خاک ہیں۔
٭
(اگاتھا گرسٹی …جاسوسی ناول نگا ر )
12جنوری 1976ء……..اگاتھا کرسٹی جس کا پورا نام: اگاتھا میری کلیریسا ملر تھا جاسوسی کہانیاں لکھنے والی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ، انہیں جاسوسی کہانیاں لکھنے والیتاریخ کی عظیم ترین مصنفہ سمجھا جاتا ہے، اس بات کا انداہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گنیز بک آف ریکارڈ کے مطابق دنیابھر میں شیکسپئیر کے بعد یہ واحد مصنفہ ہیں جن کی کتابیں سب سے زیادہ تعداد میں فروخت ہوئی ہیں۔ 2006ء کے اعدادوشمار کے مطابق ان کی لکھی ہوئی کہانیوں کے ایک ارب سے زائد نسخے فروخت ہوئے تھے۔ آگاتھا 15 ستمبر 1890ء میں انگلینڈ کے علاقے ٹارکی میں پیدا ہوئیں، اور1976ء میں آکسفورڈ شائر، انگلینڈ میں وفات ہائی۔ اگاتھا نے کل 66 جاسوسی ناولزاور 153مختصر کہانیوں کے 14 مجموعے لکھے جو اب تک سو سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔ یوں تو آگاتھا کرسٹی جرائم اور سراغ رساں پر مبنی جاسوسی کہانیوں کے لئے جانی جاتی ہیں، لیکن آپ نے میری ویسٹماکوٹ کے قلمی نام سے رومانوی ناول بھی لکھے اور کئی پراسرار، سنسنی خیز اور ماورائی کہانیاں بھی تحریر کیں۔
٭
حوالہ جات :
1 ۔https://en.wikipedia.org/wiki/Abdul_Waheed_Kakar
2 ۔https://en.wikipedia.org/wiki/Jehangir_Karamat
3۔http://www.tareekhepakistan.com/detail?title_id=478&dtd_id=607
4۔عزیز ِ جہاں ،قاضی حسین احمد
5۔ The Complete Christie: An Agatha Christie Encyclopedia
٭٭٭