نثری نظم کا تخلیقی جواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نثری نظم کے شجرہ نسب کی جڑیں دنیا کے قدیم ادب سے ملتی ہیں۔ بہت سی دیومالائیں، لوک داستانیں اور قبل مسیح کے طویل رزمیے اپنے شاعرانہ آہنگ، ہیئت اور اسلوب میں نثری نظم کے قریب تر ہیں۔ قدیم ویدوں اور سنسکرت ادب سے بھی اس کے ڈانڈے ملائے جاتے ہیں۔ مغرب میں نثری نظم کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا۔ ابتداْ فرانس میں اور بعدہ امریکہ میں اسے بہت فروغ حاصل ہوا۔ اردو میں مختلف ہیئتوں اور ناموں سے نثری نظم کی مثالیں بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ تاہم ایک ادبی تحریک کے طور پر اس کا باقاعدہ آغاز ساٹھ کی دہائی سے ہوا۔ لیکن لگ بھگ تین دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی نثری شاعری کا یہ تجربہ اردو شعریات میں کسی واضح قبولیت کے مقام تک نہ پہنچ سکا اور ماسوا چند تخلیق کاروں کی ذاتی کاوشوں کے نثری نظم کا " دور اول " بالعموم کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکا۔ اس کی بڑی وجہ غالبْا سکہ بند قسم کی ادبی تحریکوں کے خلاف ردعمل اور اردو کی شعری روایات سے یک دم اور یکسر بغاوت تھی۔ اس کے علاوہ اُس دور کے نثری نظم نگاروں کی ضرورت سے زیادہ جدت و تجردپسندی اور شعری کیفیات و تجربات کو داخلی صاف گری کے عمل سے گزارے بغیر خام شکل میں پیش کر دینے والا تلخ رویہ بھی اس صنف کی ابتدائی ناکامی کا سبب بنا۔ یہ بات اردو قارئین کے لیےدلچسپی کا باعث ہو گی کہ نثری شاعری، جس کا آغاز انیسویں صدی کے اوائل میں فرانس سے ہوا اور صدی کے آخر تک دیگر مغربی ممالک میں، وہاں بیسویں صدی کی پانچویں اور چھٹی دہائی تک آتے آتے اس کا دم خم ٹوٹ چکا تھا تا وقتیکہ نمایاں امریکی شاعروں نے اسے نئی زندگی دی اور اسے دنیا بھر میں قبولیت ملی۔ جبکہ اردو میں عین اُس وقت اِس کا آغاز ہو رہا تھا۔ اوکتاویو پاز نے اس فارم کو ہسپانوی زبان میں استعمال کیا۔ روس اور جاپان میں بھی اس صنف میں خاصا کام ہوا۔ اینے ماریا رلکے، فرانز کافکا، جارج لوئیس بورخیس، پابلو نیرودا، اوکتاویو پاز، ولیم کارلوس ولیم ان سب نامور لکھاریوں نے نثری نظم کی فارم کو نہ صرف اپنایا بلکہ اپنے اپنے انداز میں اس کی توضیح و توصیف کی اور اس کی ہیئت اور دکشن میں خاطر خواہ اضافے بھی کیے۔ اسی (۸۰) کی دہائی کے آخر سے دنیا بھر میں، بشمول اردو، اس صنف کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے اور اب یہ بڑی حد تک رد و قبول کے مرحلے سے آگے نکل آئی ہے۔ امریکہ میں تو نثری نظم کو یہاں تک فروغ حاصل ہے کہ بعض یونیورسٹیوں میں ادب کے طلبا کو رائم لکھنے سے منع کیا جاتا ہے۔
گزشتہ پچیس تیس برسوں سے اردو نثری نظم ایک نئے فنامنا سے گزر رہی ہے۔ اسے نثری نظم کا " دور ثانی " بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس بار میدان قرطاس میں زیادہ تر وہ شعرا ہیں جو جدید تر شعری حسیات اور عصری ادبی شعور رکھنے کے ساتھ ساتھ اردو کی کلاسیکی شعری روایات سے بھی مربوط و منسلک ہیں اور فن شعر گوئی یعنی اوزان و بحور پر بھی گرفت رکھتے ہیں۔ نثری نظم نگاروں کی اس کھیپ کی شعری ترجیحات و ترغیبات کسی خاص ادبی تحریک کے تابع یا خلاف نہیں بلکہ ادب کے ان جدید اور پس جدید متنوع تخلیقی رویوں سے عبارت ہیں جو اس صنف میں نت نئے اسالیب اور موضوعات کے اضافے کا باعث ہیں۔ بلاشبہ اس زمرے میں وہ شعرا اور نارسیدہ و ناپختہ کار خامہ فرسا شامل نہیں کیے جا سکتے جو اردو کی شعری و عروضی روایات سے آگاہی حاصل کیے بغیر الٹی سیدھی سطروں میں سطحی اور خام شعری مواد کو نثری نظم یا نظم کے نام سے پیش کر دیتے ہیں۔
احساسات و خیالات کے بہاؤ کو محض شعوری طور پر کسی مخصوص سانچے میں ڈھالنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسا کرنے سے تخلیق کی خوبصورتی، بے ساختگی اور نظم میں بین السطور بہنے والی اداسی اور آگہی کی رو متاثر ہوتی ہے۔ دراصل ہر نظم اپنی ہیئت یا ساخت خود لے کر آتی ہے۔ تخلیق کے بعد اس کی تراش خراش تو کی جا سکتی ہے لیکن تخلیقی عمل کے دوران اسے زبردستی "نظم" یا "نثری نظم" نہیں بنایا جا سکتا۔ نثری نظم کہنا ایسا آسان بھی نہیں جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں اور نہ نثری نظم کے نام پر شائع ہونے والی چھوٹی بڑی چند سطروں پر مشتمل ہر تخلیق کو نثری نظم کہا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے گہرے تہزیبی شعور، آگہی، عرفان ذات، جدید طرز احساس، عمیق مطالعے، مشاہدے، تخلیقی مزاج کی موزونیت اور علامتوں، استعاروں، تشبیہوں اور پیکروں کے پیچیدہ مگر قابل فہم نظام کے علاوہ شعری عناصر، نامیاتی وحدت اور پس الفاظ اور بین السطور ایک اندرونی آہنگ جیسے لوازمات کا ہونا ضروری ہے۔
اردو نثری نظم پر اب تک بے شمار مباحثے و مکالمے ہو چکے ہیں اور طویل مضامین رقم کیے گئے ہیں جن میں اس کے نام، پس منظر، مزاج، آہنگ، علامتی و استعاراتی نظام، فنی و فکری جواز اور شناخت پر تفصیل دار بحث کی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک اہم سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ بعض شعرا اظہار کے مختلف سانچوں مثلاْ غزل، پابند نظم، معری نظم، آزاد نظم اور دیگر اصناف سخن پر قدرت رکھتے ہوئے بھی نثری نظم کب اور کیوں کہتے ہیں۔ دراصل نثری نظم اس وقت سرزد ہوتی ہے جب تخلیقی اداسی اور آگہی انسانی بس سے باہر ہو کر وجود کی حدیں پار کرنے لگتی ہے اور شاعری کے مروج پیمانے یا سانچے اس کے اظہار کے لئے ناکافی ہو جاتے ہیں۔ شاید انسان کی ازلی و ابدی تنہائی اور فکری اپج کسی ایسے شعری نظام اور لسانی آہنگ کی متقاضی و متلاشی ہے جسے ابھی تک دریافت نہیں کیا جا سکا یا جسے ابھی تک کوئی نام نہیں دیا جا سکا۔ شاید نثری نظم اظہار کی اسی بے بسی کا غیر مرئی تخلیقی جواز ہے۔
نثری نظم کو پاک و ہند کے مختلف مکاتب فکر نثری نظم، نثر لطیف، نثرین، نثم، نثر پارے، نثرانے، نثم، نثمانے، نظم کہانی، نظمیے، امکانات، نظم نو، غیر عروضی نظم وغیرہ وغیرہ کے نام سے قبول کرتے اور اپنے اپنے رسائل میں شائع کرتے ہیں۔ بیشتر اسے ’نثری نظم‘ کے نام سے الگ شائع کرتے ہیں یا نظم کے خانے ہی میں رکھتے ہیں۔ گویا اس صنف میں اظہار پر تو کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے نام کا مسئلہ درپیش ہے۔ کچھ مکاتب فکر ایسے بھی ہیں جو اپنے افکار و نظریات میں جامد یا بہت زیادہ قدامت پسند ہونے کے باعث اس صنف کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے۔ یہ رویہ بھی ادبی اعتبار سے قابل تحسین نہیں۔ تاہم یہ احتیاط برحق ہے کہ نئی نسل کی شعری تربیت اور نصابی ضرورت کے تحت نثری نظم کو معری اور آزاد نظم سے الگ رکھا جائے۔
شعر و ادب کا ماخذ چاہے کسی بھی زبان سے نسبت رکھتا ہو، حتمی تخلیقی معیار کی قدرِ تعین کے لئے اسے با لآخر اسی زبان کے حوالے سے دیکھا اور پرکھا جانا چاہیئے جس میں وہ تخلیق کیا گیا ہو۔ چنانچہ اردو نثری نظم کو بھی سنسکرت، ہندی، فرانسیسی اور انگریزی زبان و ادب کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے، اردو زبان کی کٹھالی میں پگھلا کر، اسے اپنے سانچوں میں ڈھال کر دیکھنا ضروری ہے۔ اردو نثری نظم ساٹھ اور ستر کی دہائیوں پہ مشتمل عبوری دورانیے (دور اول ) سے گزر کر اب اس مقام پر ہے جہاں اس کے ماخذات اور اس میں اولیت جیسے نزاعی معاملات ضمنی نوعیت کے رہ جاتے ہیں اور تخلیقیت زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ با لخصوص بیسویں صدی کی آخری دہائی اور اس کے بعد میں تخلیق ہونے والی اردو نثری نظم اپنی ہیئت، اسلوب، موضوعات، زبان و بیان، لفظیات، کثیر معنویت، حساسیت اور عصر آفرینی کے اعتبار سے ارتقا اور خود انحصاری کی روشن دلیل ہے۔ جو لوگ اسے کلیتہْ رد کرتے ہیں وہ دراصل اپنی شعر و ادبی نارسائی کا اظہار کرتے ہیں۔ یقیناْ دیگر اصناف ادب کی طرح اس میں بھی رطب و یابس اور ناشاعری در آئی ہے لیکن اہل نقد و نظر کو چاہیئے کہ وہ ژرف نگاہی سے کام لیتے ہوئے اس کی چھان پھٹک کریں اور اس کی صحیح شعریات ترتیب دیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وسیع تر تخلیقی امکانات کی حامل اس صنف سخن پر کوئی سنجیدہ اور متفقہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے، اس کی ارتقائی پیش رفت کو تسلیم کرتے ہوئے برسوں پہلے کے عبوری خیالات و نظریات پر نظر ثانی کی جائے اور اسے برزخ کے عالم سے نکالا جائے۔
(نصیر احمد ناصر، اداریہ تسطیر، جنوری ۱۹۹۸ ، بہ ترمیم )
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“