ادارہ ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
کی جانب کی پیشکش
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 193
بعنوان در صنعت سہل ممتنع
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری دورِ حاضر میں دنیا کا واحد ادارہ ہے جو اِس برقی ترقی یافتہ دَور میں شعراء, ادباء و مُصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے اور نئے نئے لسّانیاتی پروگرامز منعقد کرتا ہے… ادارۂ ھٰذا میں تمام تر پروگرامز برائے تنقید کئے جاتے ہیں… عالمی سطح پر کامیابی کے ساتھ ادبی تنقیدی پروگرامز کا انعقاد، یقیناً ادارۂ ھٰذا کی انفرادیت, مقبولیت مع کامیابی کا وثیقہ ہے…
کامیابی کے اس منفرد سفر کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ادارے کی جانب سے 193 واں عالمی تنقیدی پروگرام بنام "در صنعتِ سہلِ ممتنع" 9/فروری 2019 بروز ہفتہ, پاکستانی وقت شام 6:00 بجے، اور ہندوستانی وقت شام 6:30 بجے منعقد کیا گیا…
قارئینِ کرام…، مجھ کج فہم کی نظر میں…،
"سہلِ ممتنع" سے مراد، ایسا کلام جس میں تخلیق کار آسان ترین لفظیات کا استعمال کرتے ہوئے اپنی بات موزونیت کے ساتھ پیش کردے" مثلاً…، چچا غالب کا یہ شعر دیکھئے… فرماتے ہیں کہ….،
دلِ ناداں تجھے ہُوا کیا ہے
آخر اس دَرد کی دَوا کیا ہے
علاوہ ازیں کہ….
پہلے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
موت کا ایک دن معیّن ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
===========================
احباب گرامی…، یہ آنلائن صوتی محفل بانئ ادارہ ہر دل آویز شخصیت جناب محترم توصیف ترنل صاحب کی زیرِ سرپرستی منعقد کی گئی تھی…، اس پروگرام کی تجویز ادارے کے جنرل سیکریٹری محترم صابر جاذب لیہ پاکستان نے پیش کی تو بطور آرگنائزر پروگرام کا نظم و نسق ادارے کے ریسرچ سکالر محترم احمد منیب صاحب لاہور کے ذمّہ رہا…
اس یادگار محفل کا سہرۂ صدارت مشہور و معروف پاکستانی شاعرہ محترمہ ڈاکٹر صابرہ شاہین ڈیرہ غازی خان کے سر رہا تو مہمانانِ خصوصی میں بھارت سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف شاعر محترم مصطفیٰ دلکش صاحب ممبئی اور محترم طالب جھنگوی صاحب جھنگ پاکستان شامل رہے… نیز مہمانانِ اعزازی میں بھارت سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف شاعر محترم عبدالغفار واحد صاحب اور محترم اطہر حفیظ فراز صاحب پاکستان بھی شاملِ محفل رہے…
فرائضِ نظامت پاکستان سے تعلق رکھنے والے ناظم و شاعر محترم محمد احمر جان رحیم یار خان صاحب نے ادا کئے اور اپنے منفرد لب ولہجہ سے محفل میں مزید رعنائیاں بکھیر دی…
نیز معزّز ناقدین میں ، محترم مسعود حسّاس صاحب کویت، اور محترم غلام مصطفی صاحب اعوان دائم پاکستان شامل تھے…
============================
قارئینِ کرام….
محفل کا باقائدہ آغاز ربِّ ذوالجَلال کی پاک وشفّاف حَمد وثنا کے ساتھ بندۂ ناچیز نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی نے یوں کِیا…کہ
اعلٰی مَقام تیرا ، اَفضل کلام تیرا……
مِدحَت سَرا دو عالم وہ پاک نام تیرا
تَوبہ نفیسؔ کی تُو کر لے قبول یا رَب
آقا کا اُمّتی ہے ، بَندہ غُلام تیرا……….
نفیسؔ ناندوروی، مہاراشٹربھارت
*بعد از حمدیہ کلام، بارگاہِ رسالتﷺ میں، کشمیری شاعرہ محترمہ روبینہ میر راجوری صاحبہ نے گلہائے عقیدت یوں پیش کئے…کہ
دو جہاں کی لئے تاجداری گئے
کر کے گُلشن کی وہ آبیاری گئے
تنگدستی میں بھی وہ سخی ہی رہے
دَر سے خالی نہ ان کے بھکاری گئے
محترمہ روبینہ میر راجوری صاحبہ کشمیر
=============================
احباب گرامی محفل میں جلوہ افروز معزّز مہمانانِ خصوصی و مہمانانِ اعزازی کے کلام سے چند شعر آپ کی باذوق بصارتوں کے حوالے….
غم کے غار ، چهپائے پهرنا
خوشیوں میں ، بولائے پهرنا
اب بهی یاد ہمیں آتا ہے
ساون میں ، سنولائے پهرنا
محترمہ ڈاکٹر صابرہ شاہین، ڈیرہ غازی خان پاکستان
آئنہ دل کا صاف کر پہلے
جھوٹ سے اختلاف کر پہلے
بعد میں اس کو تم برا کہنا
یار…. اپنا طواف کر پہلے
محترم مصطفیٰ دلکش، ممبئی بھارت
کبھی تخت پر تُو بِٹھا دیا
کبھی خاک پر تُو سُلا دیا
کبھی قحط خوشیوں کا ڈال کر
کبھی غم کا دریا بہا دیا…
*محترم طالب جھنگوی، جھنگ پاکستان
ایک دوجے کا ساتھ دیتیں ہیں
غم خوشی اور زندگی اکثر
*محترم عبدالغفار واحد گجرات بھارت
جب بھی دھڑکن شدید ہوتی ہے
ایک وحشت مزید ہوتی ہے
اس کی نظروں کے وار ہوتے ہیں
دل کی نگری شہید ہوتی ہے
*محترم اطہر حفیظ فراز، فیصل آباد پاکستان
=============================
علاوہ ازیں محفل میں جلوہ افروز دیگر معزّز شعرائے کرام کا نمونۂ کلام….
میں بنجارا
غم کا مارا
ہر اک بندہ
ایک شمارا
محترم احمد منیب، لاہور پاکستان
یوں ہی دل پر اثر نہیں ہوتا
شعر میں اختصار رکھتے ہیں
ان کو ہم پر یقیں نہیں اصغر
پھر بھی ہم اعتبار رکھتے ہیں
محترم اصغر شمیم، کولکاتا، انڈیا
نکتہ چینی کے امر میں واعظ…
اچّھی غزلوں میں لایا سَنّاٹا…
آئنہ جب دِکھایا ہَم نے اُسے…
بِن جَلے تَلمَلایا سَنّاٹا…
بندۂ ناچیز…،
نفیسؔ ناندوروی، مہاراشٹر انڈیا
موج در موج درد کی چیخیں
غم کا دریا رواں دواں مجھ میں
دیکھتا ہوں تو کچھ نہیں شیداّ
سوچتا ہوں زماں مکاں مجھ میں
محترم علی شیدا کشمیر
اشک پِیے ہیں چُپکے چُپکے
زخم سِیے ہیں چُپکے چُپکے
جینے کی صورت تو نہیں تھی
پھر بھی جِیے ہیں چُپکے چُپکے
محترمہ روبینہ میر راجوری کشمیر
قدم یہ بھی اٹھانا پڑ گیا تھا
اُسے دل سے بُھلانا پڑ گیا تھا
لگی تھی بھوک اتنی شہرِ جاں میں
تمہارا درد کھانا پڑ گیا تھا
محترم امین اوڈیرائی، سندھ پاکستان
اک امید پہ جینا ہے
موت کا پیالہ پینا ہے
عامرؔ کی یہ خواہش ہے
زخموں کو بس سینا ہے
محترم عامرؔ حسنی ملائیشیا
میں ہی نہیں یہ زمانہ بھی
ٹیڑھا میڑھا چلتا ہے
آدمی ہے وہ بڑا لیکن
باتیں چھوٹی کرتا ہے
محترم جابِر ایاز سہارنپور بھارت
روح نے جسم کہاں چھوڑ دیا
اک کرائے کا مکاں چھوڑ دیا
میں نے پوچھا ثبات ہستی کا
اس نے سگرٹ کا دھواں چھوڑ دیا
محترم صابر جاذب لیہ پاکستان
جیسی آتی تھی ماں کے آنچل میں
ایسی نیندے بھی اب نہیں آتی
نیند آتی تھی لوری سن سن کر
اب وہ آنچل کہاں تلاش کروں
*محترم جعفر بڈھانوی بھارت
اشک اب داؤ پر لگاؤ گی…
تم مری ہار چاہتی ہو کیا….
یہ ملاقات کیوں ضروری ہے…
آخری بار چاہتی ہو کیا…….
محترم عاطف جاوید عاطف، لاہور پاکستان
آ کبھی روبرو
ہے یہی آرزو
زیر کرلے سدا
دلنشیں گفتگو
محترم منوّر پاشاہ ساحل تماپوری عرب
یہ حقیقت ہے، ہجر جاناں میں
میری آنکھوں سے ہیں بہی ندیاں
اک عجب کیفیت ہوئی دل کی
جس گھڑی آپ سے لڑیں انکھیاں
*محترم شاہ رخ ساحل، تلسی پور،لکھنوبھارت
زندگی نے کچل دیا تھا ہمیں
ملزمه موت کو بنایا گیا
محترمہ ماورا سیّد، کراچی پاکستان
کہکشاں کھوجنے سے پہلے ہم
اِس زمیں کی بھی گفتگو کرلیں
خود سنور جائے گا جہاں ارشاد
پہلے عقبیٰ کی جستجو کرلیں
محترم ڈاکٹر ارشاد خان،ممبرا مہاراشٹرانڈیا
تانا بانا تلاش کرتے ہیں
ہم زمانہ تلاش کرتے ہیں
دل نیا بن سکے جہاں انجم
کارخانہ تلاش کرتے ہیں
محترمہ غزالہ انجم بورے والا پاکستان
دل کی الجھن مجھے جتاتی ہے
چاندنی اب تو من جلاتی ہے
غم کا پہلے علاج تھا ہنسنا
اب تو ہنسنے سے جان جاتی ہے
محترم اخلادالحسن اخلاد،جھنگ پاکستان
زندگی کو عذاب رہنے دے
اپنی آنکھوں میں خواب رہنے دے
اس کی انگڑائیاں ہی کافی ہیں
ساقیا…! اب شراب رہنے دے
محترم اشرف علی اشرف،سندھ پاکستان
محترم عندلیب صدیقی آسٹرلیا
ہیں فسردہ شکست کھا کر ہم
جیت کر شرمسار وہ بھی ہیں
جن کا مذہب خزاں پرستی ہے
مستفیضِ بہار وہ بھی ہیں
محترم محمد زبیر، گجرات پاکستان
نظر پستی ، بلندی پر جمائے
رضائے حق پہ حیراں ہو رہی ہے
قبا پہنے ہوئے شب "آنسوؤں کی"
گو شبنم کی ادا میں رو رہی ہے
محترمہ ساجدہ انور، کراچی پاکستان
سر پہ دُنیا اُنہیں بِٹھاتی ہے
کام جو بے مثال کرتے ہیں
آپ کی سادگی کے کیا کہنے
زخم دے کر سوال کرتے ہیں
محترم پردیپ سنگھ موج،ڈوڈہ بھارت
جب سے اس نے کہا کہ ملتے ہیں
تب سے امید چھوڑ دی میں نے
کیوں معالے اداس بیٹھے ہو
کیا ہوا، کی جو دل لگی میں نے
محترم بی ایم خان معالے،اچل پوری بھارت
ہجر کی اندھی بہری راتیں
تن من پیاسا بھیگی راتیں
شفق کے سوچ نگر میں ٹھہریں
دھند میں لپٹی کیسی راتیں
محترمہ نئیر رانی شفق ڈیرہ غازی خان پاکستان
سچ تو یہ ہے کہ کربلا ہے عشق
حق و باطل کا تجزیہ ہے عشق
میرا ایمان ہے خدا "مینا"
میری کشتی کا ناخدا ہے عشق
محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی،مرادآبادبھارت
جب تمنّا جوان ہوتی ہے
ہُو بہ ہُو آسمان ہوتی ہے
اپنا اپنا سبھی کا لہجہ ہے
اپنی اپنی زبان ہوتی ہے
محترم ڈاکٹر نبیل احمد نبیل،لاہورپاکستان
ہنستے ہنستے رویا مت کر
آنکھوں کو تو دریا مت کر
دھوکا ہیں سب رشتے گوہر
کسی کو اتنا چاہا مت کر
محترمہ سیما گوہر، رام پور بھارت
=============================
احباب…، اس طرح تمامی معزّز شعرائے کرام نے یکے بعد دیگرے اپنے عمدہ کلام مع تفکّرات اور منفرد طرزِ سُخن سے اِس ادبی محفل میں چار چاند لگادیئے… پروگرام کا لطف تَدمَزید دوبالا ہوگیا جب ایک جانب شرکائے مجلس نے تمامی شعراۓ کرام کو داد و تحسین سے نوازہ تو دوسری جانب ماہرینِ علم و فن محترم ڈاکٹر شفاعت فہیم صاحب بھارت، محترم مسعود حسّاس صاحب کویت، محترم شہزاد نیّر صاحب پاکستان اور محترم مصطفیٰ دائم صاحب پاکستان نے یکے بعد دیگرے شعرائے عالم کی تخلیقات پر نہایت باریک بینی, چابک دستی اور غیر جانبدارانہ طریقے سے تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے رہنمائی فرمائی… جسے شعرائے عالم نے خندہ پیشانی سے قبول کِیا…
قارئینِ کرام…، اسی کے ساتھ محفل ھٰذا کی صدر، مشہور و معروف پاکستانی شاعرہ محترمہ ڈاکٹر صابرہ شاہین، ڈیرہ غازی خان نے خطبۂ صدارت پیش کِیا اور محترم توصیف ترنل صاحب کے اظہارِ تشکر پر اس کامیاب محفل کا اختتام ہوا…
اس تاریخی آنلائن طرحی مشاعرے میں شریک معزّز موصوفیانِ اردو ادب اور تمامی رفقائے بزم کو ادارے کی جانب سے مبارکباد… ساتھ ہی ادارۂ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری گروپ کی انتظاميہ، بالخصوص ادارے کے بانی و چئیرمن محترم توصيف ترنل صاحب کو خدمتِ اردو ادب کیلئے قلبی تہنیت پیش کرتا ہوں…