ہم سنتے چلے آئے ہیں کہ رسیلے آم، مہکتے گلاب اور سانپوں کی طرح خواتین کی بھی بے شمار اقسام ہیں اور ان میں فرق صرف اتنا ہے کہ آم اور گلاب کی قسم صحیح اندازہ کاٹنے اور سونگھنے کے بعد ہو جاتا ہے اور اگر مارگزیدہ مر جائے تو سانپ کی قسم کا پتہ چلانا بھی چنداں دشوار نہیں لیکن آخر الذکر یعنی خواتین خالص مُشک کی طرح اپنی قسم کا خود اَعلان کر دیتی ہیں۔
ایک بزرگوارِ مشورہ خیز ، جو اپنی ساری عمر اور ساری کمائی (گُھڑ دوڑ کے میدان) ریس کورس اور ’’طوافِ کوئے ملامت‘‘ میں گنوا چکے ہیں , اکثر فرماتے ہیں کہ
”گھوڑے کی نسل اور عورت کی ذات کا اندازہ گھوڑے کی لات اور عورت بات سے کیا جاسکتا ہے۔“
لیکن اس قسم کے نامعقول مقولوں کی حیثیت ہارے ہوئے جواری کی لفظی پھلجھڑیوں سے زیادہ نہیں جو فضا کو روشن کریں یا نہ کریں، آنکھوں میں کچھ دیر کیلئے ضرور ایک چکاچوند پیدا کر دیتی ہیں۔ پھر اس کے بعد تاریکی کچھ اور زیادہ تاریک معلوم ہوتی ہے۔
دیکھئے گھوڑے اور سانپ کے خصائل کی تصدیق یا تردید کا حق ویسے تو سلوتریوں اور سپیروں کو پہنچتا ہے یا پھر ان حضرات کو جو کسی سانپ سے ڈسے جا چکے ہیں یا گھوڑے سے دولتی کھانے کا ذاتی تجربہ رکھتے ہیں۔ لیکن پھر بھی خواتین کے سلسلے میں ہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ یہ ثمرِ ممنوعہ اگر سانپ کے پھن پر بھی رکھا ہوتا تو وہاں بھی آدم کےحریص ہونٹ بے دھڑک اسے چوم لیتے۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ بات قسموں کی ہورہی تھی اور ہم کہنا یہ چاہتے تھے کہ آجکل عورتوں کو دو قسموں میں بانٹا جا سکتا ہے۔
” ایک وہ جو موٹی ہیں، دوسری وہ جو دبلی نہیں ہیں. “
اب آپ کہیں گے، ’’آخر ان دونوں میں فرق کیا ہوا؟ یہ تو وہی الف دو زبر ” اً “ اور الف نون زبر ” اَن “ والی بات ہوئی۔‘‘ مگر آپ یقین جانیئے کہ خواتین کی ان دونوں قسموں میں دبلے ہونے کی خواہش کے علاوہ اور کوئی بھی بات مشترک نہیں۔ ان کے حدود اربعہ، خط و خال اور نقوش جدا جدا ہیں اور اس سب میں کاتبِ تقدیر کی کسی املا کی غلطی کا قطعاً کوئی شائبہ نہیں.
اصل فرق یہ ہے کہ اول الذکر طبقہ (جو صحیح معنوں میں ایک فرقہ کی حیثیت رکھتا ہے) کھانے کے لئے زندہ رہنا چاہتا ہے۔ دوسرا طبقہ زندہ رہنے کیلئے کھاتا ہے۔ پہلا طبقہ دوا کو بھی غذا سمجھ کر کھاتا ہے اور دوسراطبقہ غذا کو بقدر دوا استعمال کرتا ہے۔ ایک کھانے پر جان دیتا ہے اور دوسرا کھانے کو دوڑ تا ہے۔ وعلیٰ ہذاالقیاس … فرق باریک ضرور ہے، لیکن اگر آپ نے کبھی فن برائے فن، زندگی برائے فن، فن برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی وغیرہ کی بحث سنی ہے تو یہ فرق بخوبی سمجھ میں آجائے گا۔ اس مضمون میں روئے سخن دوسرے طبقہ سے ہے جو دبلا نہیں ہے, مگر دبلا ہونا چاہتا ہے۔
زمانہ قدیم میں ایران میں نسوانی حسن کا معیار 40 چالیس صفات تھیں (اگر چہ ایک عورت میں ان سب کا یکجا ہونا ہمیشہ نقض امن کا باعث ہوتا ہے) اور یہ مشہور ہے کہفرہاد کے ہاتھ میں تیشہ تھمانے والی شیریں ان میں سے انتالیس 39 صفات رکھتی تھی, خواتین کی چالیسویں 40 صفت کے بارے میں مورخین متفقہ طور پر خاموش ہیں۔ لہذا گمان غالب ہے کہ اس کا تعلق چال چلن سے ہی ہوگا۔ اس زمانے میں ایک عورت میں عموماً ایک ہی صفت پائی جاتی تھی اور اسی لئے بعض بادشاہوں کو بدرجہء مجبوری اپنے حرم میں عورتوں کی تعداد بڑھانی پڑی.
ہر زمانے میں یہ صفات, زنانہ لباس کی طرح سکڑتی، سمٹتی اور گھٹتی رہیں۔ بالآخر صفات تو غائب ہو گئیں، صرف ذات باقی رہ گئی اور یہ بھی غنیمت ہی ہے کیونکہ ذات و صفات کی بحث سے قطع نظر یہی کیا کم ہے کہ عورت صرف عورت ہے۔ ورنہ وہ بھی رد ہو جاتی تو ہم اس کا کیا بگاڑ لیتے۔
آج کل کھاتے پیتے گھرانوں میں دبلے ہونے کی خواہش ہی ایک ایسی صفت ہے جو سب خوبصورت لڑکیوں میں مشترک ہے۔ اس خواہش کا محّرک دورِ جدید کی ایک جمالیاتی دریافت ہے، جس نے تندرستی کو ایک مرض قرار دے کر بدصورتی اوربدہیئتی سے تعبیر کیا اور مردوں کی اتنی بڑی اکثریت کو اس رائے سے اتفاق ہے کہ اس رائے کی صحت پر شبہ ہونے لگتا ہے. جہاں یرقان کا مرض حُسن کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہو جائے اور بدنِ بیمار و تنِ لاغر حسن کا معیار بن جائیں، وہاں لڑکیاں اپنے تندرست و توانا جسم سے شرمانے اور بدن چرا کر چلنے لگیں تو تعجب نہیں ہونا چاہئے.
یوں سمجھئے کہ حوا کی جیت کا راز آدم کی کمزوری میں نہیں بلکہ خود اس کی اپنی کمزوری میں مضمر ہے۔ اگر آپ کو یہ نچڑے ہوئے دھان پان سے بدن، سَتے ہوئے مضحمل چہرے اور سوکھی سوکھی بانہیں پسند نہیں تو آپ یقیناً ڈاکٹر ہی ہوں گے ورنہ اہل نظر تو اب چہرے کی شادابی کو ورم و سوجن ، فربہی کو جلندھر اور پنڈلی کے سڈول پن کو ’’فیل پا‘‘ جیسے امراض گردانتے ہیں۔
آج پھر فرہاد کے ہاتھ میں تیشہ ہے، مگر یہ تیشہء محمود ہے! یا یوں کہیئے کہ جب سے بت شکن نے بت پرستی اور بت تراشی اختیار کی، حسن کا معیار ایسا بدلا کہ جب تک قدیم یونانی مجسموں کے پیچ و خم اور ابھار کو رندے لگا لگا کر ”بلیرڈ یا اسنوکر “ کی میز کی طرح سپاٹ نہ کردیا جائے، وہ آنکھوں میں کھٹکتے رہتے ہیں۔ حد یہ کہ اَجنتا کی تصاویر اور مائیکل اَینجلو کے مجسمے بھی اسی سلوک یا بدسلوکی کے سزاوار ہیں، ان میں بھی ایک ایسے بھرپور بدن کے خطوط کو ابھارا گیا ہے, جو اپنے آپ سے شرمندہ نہیں لیکن جس کی تاب مضمحل بازو اور تھکے ہوئے اعصاب نہیں لا سکتے۔ اس پر عہد مغلیہ کے مشہور شاعر بہارؔی کا یہ دوہا صادق آتا ہے.
اپنے انگ کے جان کے، یوون نرپت پروین
ستن، من، نین، نتمب کو بڑوا جا پھاکین
یعنی اپنے روپ کا انگ جان کر جوانی کے ذہین بادشاہ نے سینہ، دل، آنکھوں اور کولہوں میں بڑا اضافہ کیا۔
دیکھا گیا ہے کہ جوانی کا ذہین بادشاہ بسا اوقات ان صنائع بدائع کے استعمال میں فیاضی سے کام لیتا ہے, جس کے باعث جمالِ خودرو کی قطع و برید لازم آتی ہے۔ شکر ہے کہ اب حسن خود کو بڑی حد تک ان حشو و زوائد سے پاک کر چکا ہے۔ اب عورت اَقلیدس کے خطِ مستقیم کی مانند ہے جس میں صرف طول ہے ,عرض نہیں۔ تاہم بعض رجعت پسندوں کے نزدیک اب بھی مثالی اور متناسب جسم وہ ہے جس میں مندرجہ بالا چار عناصر میں سے پہلے اور چوتھے کا محیط برابر ہو اور کمر کا ناپ ان دونوں سے پندرہ سولہ انچ کم مثلاً 37۔21۔37 انچ۔ کسی اداکارہ کے جسم کی اس سے بہتر کوئی تعریف نہیں ہوسکتی کہ اسے انگریزی کے 8 ہندسے سے تشبیہ دی جائے۔ یہ اور بات ہے کہ 24 سال کے عمر میں جو خاتون 8 کا ہندسہ نظر آتی ہیں وہ 42 سال کی عمر میں دو چشمی ھ بن جائیں!
اگلے وقتوں کے لوگوں کے قویٰ بالعموم ان کے ضمیر سے زیادہ قوی ہوتے تھے۔ اس زمانے میں یہ عقیدہ عام تھا کہ دانا مرد، عورتوں کو ’’ گِنا “ کرتے ہیں ” تولا “نہیں کرتے‘‘ اور صنفِ نازک کے باب میں ان کا نظریہ کم وبیش وہی تھا جو مرزا غالب کا آم کے متعلق یعنی یہ کہ ہوں اور بہت ہوں! لیکن اب حال یہ ہے کہ جب تک اچھی طرح ناپ تول نہ کر لی جائے کسی کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آتا۔ بدن کی ناپ تول کا حق پہلے صرف درزی اور گورکن کو حاصل تھا، مگر اب دنیا کی ہر خوبصورت عورت کا جغرافیہ جس میں وزن اور محرم کا سائز نمایاں ہیں معلومات عامہ کا جز بن گیا ہے اور بلاشبہ یہ وہ جُز ہے جو کُل پر بھاری ہے۔
وزن حسن کا دشمن ہے (یاد رکھیئے رائے کے علاوہ ہر وزنی چیز گھٹیا ہوتی ہے) اسی لئے ہر سمجھ دار عورت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنی چربی کی دبیز تہوں کے خول کو سانپ کی کینچلی کی طرح اتار کر اپنی عزیز سہیلیوں کو پہنا دے۔
” عقدِ نا گہنانی“ کے بعد کہ جس سے کسی کو مفّر نہیں، ہر لڑکی کا بیشتر وقت اپنے وزن اور شوہر سے جنگ کرنے میں گزرتا ہے۔ جہاں تک زن و شوہر کی جنگ کا تعلق ہے، ہم نہیں کہہ سکتے کہ شہید کون ہوتا ہے اور غازی کون لیکن زن اور وزن کی جنگ میں پلہ فریقِ اوّل ہی کا بھاری رہتا ہے، اس لئے جیت فریقِ ثانی کی ہوتی ہے۔
اکثر خواتین کا کہنا ہےکہ مٹاپے میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ تمام عمر کو گلے کا ہار ہو جاتا ہے اور بغور مشاہدہ کرنے پر عیاں ہوا ہے کہ بعض خواتین تو گھر کے اندیشوں اور ہمسایوں کی خوش حالی دیکھ دیکھ بھی دبلی نہیں ہوتیں.
’’تن‘‘ کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
دراصل گرہستی زندگی کی آب و ہوا ہی ایسی معتدل ہے کہ مولسری spanish cherry کا پھول دو تین سال میں گوبھی کا پھول بن جائے تو عجب نہیں۔ (مولسری درخت کے ننھے پھولوں کی بھینی بھینی مہک برسات کے دنوں میں عجب عالم دکھاتی ہے). مٹاپا عام ہو یا نہ ہو، مگر خواتین میں دبلے ہونے کی خواہش جتنی عام ہے اتنی ہی شدید بھی۔ آئینے کی جگہ اب وزن کم کرنے کی مشین نے لے لی ہے۔ بعض نئی مشینیں تو ٹکٹ پر وزن کے ساتھ قسمت کا حال بھی بتاتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ عورتوں کی قسمت کے خانے میں صرف ان کا وزن ہی لکھا ہوتا ہے۔
عورتوں کو وزن کم کرنے کی دواؤں سے اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی ادھیڑ عمر مرد حضرات کو قوتِ باہ بڑھانے والی یونانی دواؤں کے اشتہاروں سے اور اگر یہ دلچسپی ختم ہو جائے تو یونانی دواؤں کے کارخانوں کے ساتھ ساتھ بلکہ ان سے کچھ پہلے وہ اخبارات بھی بند ہو جائیں جن میں یہ اشتہارات آئے دن چھپتے ہیں۔
اگر آپ کو آسکر وائلڈ کی رائے سے اتفاق ہے کہ آرٹ کا اصل مقصد قدرت کی خام کاریوں کی اصلاح اور فطرت سے فی سبیل اللہ جہاد ہے، تو لازمی طور پر یہ مانناپڑے گا کہ ہر بدصورت عورت ایک آرٹسٹ ہے وہ اسلئے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد اس کی ساری تگ و دو کا منشا سیاہ کو سفید کر دکھانا، وزن گھٹانا اور ہر سالگرہ پر ایک موم بتی کم کرنا ہے۔
عمر کی تصدیق تو شاید بلدیہ کے ’’رجسٹر پیدائش و اموات‘‘ سے کی جا سکتی ہے لیکن ایک دوسرے کے وزن کے متعلق بھاری سے بھاری بہتان آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ رائی کا پہاڑ اور گرمی دانے کا مسّا بنانا لتری یا چغل خور خواتین کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ وہ خاتون جسے خود اپنی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے نظر نہیں آتے، دوسرے کی جھائیوں پر بےجھجک اپنی بڑھے ہوئے ناخن والی انگلی اٹھاتے وقت یہ بھول جاتی ہے کہ ہر گُل کے ساتھ خَار اور ہر منہ پر مہاسا ہوتا ہی ہے۔
عورتیں فطرتاً بہت راسخ العقیدہ ہوتی ہیں اور اپنے بنیادی عقائد کی خاطر عمر بھر سب کچھ ہنسی خوشی برداشت کر لیتی ہیں۔ مثلاً اپنے سات نمبر کے پاؤں میں پانچ نمبر کا جوتا۔ وزن کم کرنے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کرتیں۔ غسلِ آفتابی، جاپانی مالش، یونانی جَلاب، انگریزی کھانا، چہل قدمی، ورزش و فاقہ…….., پہلے چہل قدمی کو ہی لیجئے کہ اَمّرت دھارا کی طرح یہ ہر مرض کی دوا ہے۔ سوکھے ساکھے مرد اپنا وزن بڑھانے اور عورتیں اپنا وزن گھٹانے کے لئے ٹہلتی ہیں۔ جس طرح چائے گرمی میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں اور سردی میں حِدّت، اسی طرح چہل قدمی دبلے کو موٹا اور موٹے کو دبلا کرتی ہے۔
اگر ہماری طرح آپ کو بھی الفنسٹن اسٹریٹ پر ٹہلنے کا شوق ہے تو آپ نے بعض میاں بیوی کو ان مختلف بلکہ متضاد عزائم کے ساتھ پابندی سے ’’ہوا خوری‘‘ کرتے دیکھا ہوگا۔ خواتین کا انجام تو ہمیں معلوم نہیں لیکن یہ ضرور دیکھا ہے کہ بہت سے ہوا خور مرد رفتہ رفتہ ’’حوا خور‘‘ ہو جاتے ہیں۔
جو عورتیں دواؤں سے پرہیز کرتی ہیں، وہ صرف ورزش سے خود کو ’’سلِمslim‘‘ رکھ سکتی ہیں۔ ’’سلِمنگ‘‘ کے موضوع پر عورتوں کی رہبری کیلئے بے شمار باتصویر کتب ملتی ہیں جن کے مضامین عورتیں پڑھتی ہیں اور تصویروں سے مرد حضرات اپنا جی بہلاتے ہیں۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ مرد تو ایک کاٹھ کے پتلے کی مانند ہے، لیکن عورت موم کی طرح نرم ہے۔ چنانچہ وہ ایک مرد کو ہر سانچے میں ڈھال سکتی ہے۔ پھر اسکے اپنے گوشت پوست میں قدرت نے وہ لوچ و لچک رکھی ہے کہ،
سِمٹے تو دلِ عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے
چنانچہ بدن کے ہر عضو کے لئے ایک علیحدہ علیحدہ ورزش ہوتی ہے۔ مثلاً دوہری ٹھوڑی double chin کو اکہری کرنے کی ورزش, 51 انچ کو 15 انچ بنانے کی کسرت, ہاتھ پاؤں کو ہلائے بغیر غذا ہضم کرنے کی ترکیب۔ شرعی عیوب کا ہپناٹزم سے علاج وغیرہ وغیرہ….. توند کیلئے ماہرینِ توند کا خیال ہے کہ یہ ایک سیاست داں کے ضمیر کی مانند ہے۔ اس کی لچک کو ذہن نشین کرانے کی غرض سے وہ اکثر اسے مولوی اسماعیل میرٹھی کے بیان کردہ ’وقت ‘ سے تشبیہ دیتے ہیں, جس کے متعلق وہ کہہ گئے ہیں کہ؛
”وقت“ میں تنگی فراخی دونوں ہیں جیسے ربڑ
کھینچنے سے کھنچتی ہے،چھوڑے سے جاتی ہے سکڑ
حقیقت تو اب یہ ہے کہ جدید سائنس نے اس قدر ترقی کر لی ہے کہ آپ اپنے دماغ کے علاوہ جسم کا ہر حصہ حسبِ منشا گھٹا اور بڑھا سکتے ہیں. ویسے کچھ حال عورتوں میں مقبول رسالوں کا یہ ہے کہ ان کے (رسالوں کے) تین ٹکڑے کئے جا سکتے ہیں۔
اول؛ آزادیٔ اطفال اور شوہر کی تربیت و نگہداشت۔
دوم؛ کھانا پکانے کی ترکیبیں۔
سوم؛ کھانا نہ کھانے کی ترکیبیں۔
ان مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ تشخیص سب کی ایک ہی ہے۔ بس نسخے مختلف ہیں۔ پرہیز بہر صورت یکساں! اس امر پر سب متفق ہیں کہ افزائشِ حسن کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ایسی غذا کھائی جائے جس سے خونِ صالح نہ پیدا ہو اور جو جزوبدن نہ بن سکے۔ ہماری رائے میں کسی پڑھی لکھی عورت کے لئے اس سے سخت اور کونسی سزا ہو سکتی ہے کہ اسے چالیس دن تک اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھلایاجائے۔ دبلے ہونے کا اس سے بہتر اور زوداثر طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
رسالوں کے ایک حصے میں تاریخی ناولوں کا چٹخارہ اور یونانی طب کی چاشنی ہوتی ہے، اس لئے نہایت شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ ان میں سے چند عنوانات اور مشہور ٹوٹکے بطور نمونہ پیش کئے جارہے ہیں .
؎ زلیخا حضرت یوسف کے پیچھے دوڑنے کی وجہ سے دوبارہ جوان ہونے میں کامیاب ہوئی !
؎ قلو پطرہ کے نازک اندام ہونے کا راز یہ ہے کہ وہ نہار منہ مصری تربوز کا پانی اور اپنی رعیت کا خون پیتی تھی۔
؎ ملکہ الزبتھ اسلئے دبلی تھی کہ میری آف اسکاٹ نے اس کا موم کا پتلا بنا رکھا تھا جس میں وہ چاندنی رات میں سوئیاں چبھویا کرتی تھی۔
؎ کیتھرین، ملکہ روس کے’سلِم‘ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ رات کو روغنِ قاز مل کر سوتی تھی۔
؎ ملکہ نور جہاں بیگن پر جان دیتی تھی۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ بیگن کے سر پر بھی تاج ہوتا ہے، بلکہ اس میں کوئی پروٹین نہیں ہوتی۔
؎ ملکہ ممتاز محل اور تاج محل کی خوبصورتی کا راز ایک ہی ہے۔ سفید رنگ!
؎ ایکٹرس آڈرے ہیپ برن اسلئے موٹی نہیں ہوتی کہ وہ ناشتے میں نشاستے سے پرہیز کرتی ہے اور پھیکی چائے پیتی ہے جس سے چربی پگھلتی ہے۔ تو ”چائے کی پتی سے گھٹ سکتا ہے عورت کا شکم“
”دبلے آدمی کینہ پرور، سازشی اور دغا باز ہوتے ہیں“
یہ جملہ کہ دبلے آدمی کینہ پرور،سازشی اور دغا بازہوتے ہیں ہماری نہیں بلکہ جولیس سیزر کی رائے ہے جس نے ایک مریل سے اپنے درباری بروٹس کے ہاتھوں قتل ہو کر اپنے اس قول کو سچا کر دکھایا۔ گو کہ ہمارے موزے کا سائز صرف گیارہ اور بنیان کا چونتیس34 ہے. ہمیں بھی جولیس سیزر اس نظریہء کمینگی سے کُلی اتفاق ہے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ ”موٹی عورتیں فطرتاً بے حد ملنسار، ہنس مکھ اور صلح پسند ہوتی ہیں۔ وہ نہ خودلڑتی ہیں اور نہ ہی مرد ان کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف تلوار اٹھاتے ہیں, ممکن ہے کوئی صاحب اس کا یہ جواز پیش کریں کہ چونکہ ایسی گج گامنی کی نقل و حرکت بغیر جرثقیل کے ممکن نہیں لہذا وہ نہ ڈٹ کر لڑ سکتی ہے اور نہ میدان چھوڑ کر بھاگ سکتی ہے, لیکن تاریخ اس بات کی شاہد یے کہ آج تک کسی فربہ خاتون کی وجہ سے کوئی جنگ نہیں ہوئی.
خدا نخواستہ اس بیان کا یہ ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم حسن میں ہارس پاور کے متلاشی ہیں اور اکھاڑے کی رونق کو چھپرکھٹ کی زینت بنانے کی سفارش کر رہے ہیں۔ ہمارے ذہن میں حسنِ بےپروا کا یہ سراپا نہیں کہ ہر خطِ بدن ایک دائرہ سا بنا رہا ہے۔ پیٹ پر ٹائر بندھا ہوا ہے۔ چہرے سے معلوم ہوتا ہو کہ ابھی ابھی بھڑوں نے کاٹا ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے کہ اس بچاری کا سینہ ارمانوں کا مدفن ہے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ مرحومین کی تعداد کچھ زیادہ ہی تھی۔ کھلے ہوئے گلے کے بلاؤز کا یہ عالم کہ کوئی شیرخوار بچہ دیکھ پائے توبھوک سے بلبلا اٹھے……تنگ پوشی کا یہ حال کہ کوزے میں دریا بلکہ پہاڑ بند……ٹانگیں جیسے بوڑھے ہاتھی کی سونڈ, جن پر غرارہ بھی چوڑی دار پاجامہ معلوم ہوتا ہے۔
ایسی ہی ایک چوڑی چکلی خاتون کا لطیفہ ہے کہ انہوں نے بس ڈرائیور سے بڑی لجاجت سے کہا،
’’بھیا! ذرا مجھے بس سے اتروا دے۔‘‘ ڈرائیور نے مڑ کر دیکھا تو اس کا چہرہ فرشتوں کی طرح تمتما اٹھا۔ ان فرشتوں کی طرح جنہوں نے بار خلافت اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔
پھر وہ خود ہی بولیں،
’’میری عادت ہے کہ دروازے سے الٹی اترتی ہوں مگر تمہارا الٹی کھوپڑی کا کنڈکٹر سمجھتا ہے کہ چڑھ رہی ہوں اور ہر دفعہ زبر دستی اندر دھکیل دیتا ہے۔ ایسے ہی کرتے تین اسٹاپ نکل گئے ہیں.‘‘
ہم یہاں یہ پرچار نہیں کر رہے کہ حسن اور وزن میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس لئے اب خود اس مثالی رشتے کے بند ٹوٹ چکے ہیں بلکہ ہم تو صرف قارئین کرام کو اطمینان دلانا چاہتے ہیں کہ تندرستی کوئی لاعلاج نسوانی مرض نہیں ہے۔ ہمیں بھی کمزوری میں جب تک وہ اخلاقی نہ ہو، بظاہر کوئی دلکشی نظر نہیں آتی۔ اس طور فاقہ کشی بھی صرف دو صورتوں میں جائز سمجھتے ہیں کہ وہ کسی شرعی ضرورت یا بطور ستیہ گرہ ہی ہو , لیکن وزن گھٹانے کی غرض سے جو فاقہ کشی کی جاتی ہے اس کا محرک کوئی روحانی حاجت یا سیاسی مصلحت نہیں بلکہ خدائے مجازی کی پسند ہے۔ اس پیکرِ تصویر کے خطوط کی بےکیف سادگی اور پھیکا پن مرد کے عجز تصور کے فریادی ہیں.
یہ کہنا تو زیادتی ہوگی کہ حسنِ بیمار کے پیچھے ایک چھکے چھکائے تھکے ہوئے حسن پرست کی جنسی اکتاہٹ کار فرما ہے, لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مرد کی پسند وہ پل صراط ہے جس پر کوئی موٹی عورت چل ہی نہیں سکتی۔
(تمام شد)