٢٠٢٠ . پاؤں کے نیچے سے زمین غائب . آسمانی اشارے عذاب کے خوفناک راستوں کو دیکھتے ہوئے . وہ شامی بچہ تھا ،جس نے مرنے سے قبل کہا تھا ، عرش پر جب خدا سے ملونگا تو اس کو سب بتا دونگا . اس نے بتا دیا اور سحر گم ہو گیی . سورج سوا نیزے پر آ گیا . دریاؤں کا پانی اچھلا ، سمندر کی لہریں تیز ہوئیں . کنارے پر بزرگوں کی فوج . تھکے ہوئے ، سر جھکاے ، آسمانی دھند کو دیکھتے ہوئے ، کمزور اور لاچار . وائرس کی تیز لہر چیخی اور بزرگوں کو ساتھ بہا لے گیی . یہی تو اٹلی نے کہا .فرانس نے کہا ، ہسپانیہ نے کہا . بزرگ مرنے کے لئے ہوتے ہیں . چین نے بھی عمل کیا . گاڑیاں آتی تھیں ، لاشوں کو خدا جانے کہاں لے جاتی تھیں . ہزاروں تو بند دروازوں میں گیس سے ہلاک کر دیے گئے .کیا ان میں صرف بزرگ تھے ؟ وہ دو نوجوان آنکھیں جو ابھی ڈھنگ سے محبت کے گلاب راستوں پر چل بھی نہ پایی تھیں ، وہ معصوم بچہ جو آنکھیں کھولنے کے بعد قدرت کے سحر کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا ….ایسے ہزاروں بچے ..ہزاروں نہیں بلکہ اب لاکھوں نوجوان ، اور بوڑھے …بوڑھے جو مرنے کے لئے ہوتے ہیں .. خوفزدہ گھر کی چوکھٹ سے بندھے .. یہ پہلے سے ہی آیسولیٹ کر دیے گئے ہیں . اب انکے پاس وائرس کا نیا جانلیوا تحفہ ہے .
ہم باہر نہیں نکلیں گے ،کیونکہ باہر موت ہے . ہم گھر میں رہیں گے ، جہاں سے زہریلی گیسیں کبھی بھی ہمیں بیمار اور مردہ کر سکتی ہیں .
ہم ایک چمکدار صبح سے جھاگ بناییں گے . جھاگ کو ہتھیلیوں سے کہنی تک لے جاییں گے . ہم امید کی سبز شاخوں سے ماسک تیار کریں گے . اور اپنے چہرے کو خود سے بھی چھپا لیں گے . ہم اپنے بچوں کی طرف خوف زدہ نگاہوں سے دیکھیں گے . دروازہ بند کریں گے اور ان کے باہر نکلتے ہی خوف کے تابوت میں بند ہو جاییں گے . ہیضہ ، پلیگ ، ہر سو برس بعد یہ وائرس کس سیارے ، کس بلیک ہول سے برآمد ہو کر انسانوں کو خوفزدہ کرنے آ جاتا ہے ؟ ہم بند ہو جاییں گے .اس وقت بھی جب ڈیٹینشن کیمپ کے دروازے ہمارے لئے کھولے جاییں گے .
اہ ڈیٹینشن کیمپ .. کیا اس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہے . جب ایک وائرس گول گول گھومتا ہوا دنیا کے گلوب پر کھڑا ہو کر تانا شاہ اور حکمرانوں کا مذاق اڑاتا ہے ، ہم لاشیں گنتے ہیں . جب مال ، ایئر پورٹ سنسان ہو جاتے ہیں ، جب سڑکوں پر م شاہراہوں پر موت کی دھند کا بصرہ ہوتا ہے ، ہم کانچ کی کھڑکیوں کے اس پار سیاہ اور سرخ رنگ کا کولاز دیکھتے ہیں . سات سمندر یا لاشوں کا سمندر . جب بیلچے ، کدال اور بلڈوزر سے ، بے دردی سے انسانی جسم کے چیتھڑے اٹھاے جا رہے تھے ، ہم بے رحم حکمرانوں کے خلاف آزادی کا پرچم لئے کھڑے تھے .. اور اب ..جب لاشوں کے سمندر کی لہریں قریب آتی جا رہی ہیں ، ہم اب بھی حوصلے ، امیدوں کے سہارے شاہین باغ میں موجود ہیں .
وائرس تو این پی آر ، سی اے اے کی شکل میں معصوم مسلمانوں پر پہلے ہی مسلط کر دیا گیا تھا . وائرس زمانۂ قدیم سے انسانوں اور جانوروں کو متاثر کرتے رہے ہیں . صارف نے بھی اس مسئلے کا حل تلاش کرنا شروع کیا اور پھر اینٹی وائرس سافٹ ویئر ایجاد ہوا جو اپنے آپ میں ایک مکمل صنعت ہے۔ لیکن جیسے ہی اینٹی وائرس سافٹ ویئر تشکیل دیا گیا ، اسی رفتار سے نئے وائرس بھی بنائے گئے۔ جب اینٹی وائرس سافٹ ویئر انڈسٹری نے سمجھا کہ اب انہوں نے اس پر قابو پالیا ہے ، تب ہی میکرو وائرس ابھرا۔ عام وائرس نے قابل عمل فائلوں اور سسٹم کے علاقوں کو متاثر کیا . ہماری سافٹ ویر انڈسٹری سے انسانی آبادی تک ہر طرح کے وائرس قدم قدم پر ہمیں مشکلات میں ڈالتے رہی ہیں . مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان وائرس پر فتح حاصل کر لیتا ہے . مگر یہ نفرت وائرس ؟ جب شیر کے ناخنوں سے زیادہ تیز کیلیں ہمارے جسم میں چبھویی جاییں گی . ہم کورونا وائرس کے بعد بھی اس دھند میں ہونگے ، جہاں سے موت ہمیں دیکھ رہی ہوگی .اس لئے ..خدا کے واسطے …سمجھنے کی کوشش کیجئے .
این پی آر این آر سی کا بنیادی مرکز ہے۔ حکومت خود کئی بار اس کا اعلان کر چکی ہے۔ این پی آر ، گھر گھر جاکر تیار کردہ شہریوں کی فہرست کی جانچ پڑتال کے بعد ، اہلکار مشکوک شہریوں کی شناخت کریں گے۔ سبھی کو اس شناخت کی بنیاد پر شناختی کارڈ دیئے جائیں گے۔
اس کے بعد کیا ہوگا ، کیا بتانے کی ضرورت باقی ہے ؟
یہ سارا پروجیکٹ عین طور پر ہٹلر کے منصوبے کی ایک کاپی ہے جب ہٹلر نے یہودیوں کی نشاندہی کی اور 1939–45 کے درمیان یہودی بیج جاری کیا۔ یہودیوں پر پابندی تھی کہ وہ ہمیشہ جرمنی میں پیلے رنگ کے بیج پہنیں۔ یہاں NRC کے بعد ، نام نہاد مشکوک شہری اپنے مخصوص شناختی کارڈ رکھنے پر مجبور ہوجائیں گے۔جب ہٹلر نے یہودیوں کے قتل عام کی ہولوکاسٹ اسکیم کا آغاز کیا تو ، پیلے رنگ کے بیجوں والوں کو پکڑ لیا گیا اور انھیں کیمپوں میں رکھا گیا یا گیس چیمبر کے حوالے کیا گیا۔ انھیں حراستی کیمپوں میں بھیجنے میں کوئی وقت نہیں لگا۔
اہ وائرس .. ہم اب بھی کورونا کا رونا رو رہے ہیں .
اسی خطوط پر ہندوستان میں نظربند کیمپوں کی تعمیر کا آغاز ہوچکا ہے۔ ان کے منصوبے کے مطابق ، مشکوک شہریوں میں مسلم اور غیر مسلم کو الگ الگ ترتیب دیا جائے گا۔ ان میں سے ، غیر مسلموں کو شہریت ترمیمی ایکٹ کے تحت شہریت دی جائے گی اور مسلمانوں کو نظربند کیمپوں میں بھیجا جائے گا اور جہاں تک ممکن ہو گا ، غیر انسانی سلوک کیا جائے گا۔
مہذب دنیا کا یہ غیر انسانی عمل شروع ہو چکا ہے . مسلمان مارے جاییں گے .
دھند میں بستیاں ہیں ، انسانی چہرے ہیں .اور تا حد نظر ویرانیاں . راستہ ایک .شاہین باغ . ہم این پی آر کو تسلیم نہ کریں .
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...