انفعالیت و اضمحلال بے وجہ نہیں ہوتے
دیار روسیا سے آئے تین ماہ پورے ہوئے۔ پہلا ڈیڑھ ماہ تو شدید گرمی سے جھوجھتے کٹا۔ باقی کا ڈیڑھ ماہ آدھا انفعالیت میں اور آدھے کے دوران ذہن پر اضمحلال آکاس بیل کی طرح چھانے لگا، مزید جکڑتا چلا جا رہا ہے۔
سوچا تھا یہاں جاؤں گا وہاں جاؤں گا۔ شناسا لوگوں سے ملوں گا، دوستیاں تو لگتا ہے عرصہ ہوا عنقا ہو چکیں۔ پچیس برس کچھ کم عرصہ تو نہیں ہوتا۔ کوئی پانچ سال پہلے کی بات ہے کہ اسلام آباد میں ساجد منصور قیصرانی سے ملنے گیا اس کے گھر پہنچا تھا۔ دوستی کا تو ہم دونوں کو دعوٰی نہیں البتہ شناسائی سے دونوں منکر نہیں۔ بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے، کہنے لگا "ٹکّر کھا کے ونجاہے" ( کھانا تناول فرما کر جائیے گا) میں نے ہنس کر پوچھا " ٹکّن دا نہ آکھسو" ( قیام سے متعلق نہیں کہیں گے ) بولا، اب رہنے سے متعلق پوچھنے کے زمانے گئے۔ ایک وقت تھا کہ اگر ٹکّر کے ساتھ ٹکّن کا نہ پوچھا جاتا تو بے ادبی سمجھی جاتی تھی، مہمان نوازی کے آداب سے اغماض خیال کیا جاتا تھا۔
قیصرانی پر کیا بس ہے، وہ جنہیں طرح طرح کے دعاوی ہیں وہ سب اپنی اپنی گپھاؤں میں مطمئن ہیں۔ فون بھی انہیں کیا جاتا ہے جن سے کوئی کام ہو یا کسی خاص موقع کے لیے ملنا مقصود ہو۔ ایسا نہیں کہ روسیا ( جہاں سے میں آیا ہوں ) میں ایسا نہ ہوتا ہو لیکن وہاں سبھوں کے سبھی پیچ و خم سے آگاہی ہے۔ اتنا طویل عرصہ بیت جانے کے بعد کچھ نے تو " مستقل تو نہیں آ گئے ؟" یوں پوچھا جیسے خدا نخواستہ میں ان پر بوجھ بننے آیا ہوں۔
پھر کچھ پوسٹ ریٹائرمنٹ ڈیپریسیو نیوروسس بھی ہے کہ بیکار کیسے رہا جائے؟ بیکار رہتے ہوئے بھی بیکار رہنا نہیں آ پا رہا۔ جب کام کرتا تھا اور پاکستان سے دور تھا تو دوستوں کو میری تحریریں اور آراء اخبارات، پیجز، بی بی سی، سوشل میڈیا سب پر ہی اکثر و بیشتر دکھائی دے جایا کرتی تھیں۔ اب تو میر صاحب ہیں بس تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔ کمرہ ہے، کمپیوٹر ہے، سمارٹ فون ہے، ملازمہ ہے، چائے مل جاتی ہے، کھانا ہے، مریدکے جہاں فرزند کے ہاں قیام ہے، سے لاہور بھی جانا ہو جاتا ہے اگرچہ وجوہ کی بنا پر شام ڈھلے۔ رات گئے لوٹنے سے نیند نہیں آتی، فشار خون بلند ہوتا ہے۔ میل ملاقات جتنی کرنی تھی کرلی۔ اب نہ کسی کا ملنے کو جی چاہتا ہے نہ میرا۔ اپنے ہم عمر شناسا و دوست ریٹائر ہو چکے۔ خود سے کم عمر لوگوں کی مصروفیت ملاقات میں حارج ہے۔ لے دے کر ایک لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ علی شمس القمر ہے یا بیوہ تنہا بہن جن کے ہاں جا کر وہی کہی سنی باتیں کر لی جاتی ہیں۔
سابقہ اہلیہ کہتی ہے کہ "کلینک" شروع کر دو دل لگ جائے گا لیکن جس کا چھوڑا گاؤں اس کا کیا لینا ناؤں۔ بھائی کہتے ہیں گاؤں آ جاؤ، اگر لاہورکے نزدیک ہو کر اکتاہٹ کا یہ عالم ہے تو ملتان سے دور علی پور میں رہ کر تو ناک میں دم آ جائے گا۔ ایک یار غار تھا سو چل بسا، دو اور یار ہیں لیکن اپنے بچوں پوتوں میں مشغول۔
اگر اسلام آباد جاؤں تو چند روز بعد اکتا کر لوٹ آؤں گا۔ اگر کراچی جاؤں تو ہفتہ عشرہ لوگوں سے ملاقاتیں رہیں گی پھر وہی اندھیری رات ہوگی۔ اپنی تو زندگی بیت گئی مگر کبھی کسی "سیٹھ" کی ملازمت نہیں کی، اپنے خرچ یا خود اٹھائے ہیں یا حکومتوں نے بانٹے ہیں پاکستان، ایران اور روس کی حکومتوں نے۔ ویسے بھی میڈیا کے سیٹھ میری منت کرنے کے لیے نہیں بیٹھے اور میں نے تو ویسے ہی منت کرنا نہیں سیکھا۔ روس میں پاکستان کے سفارت کار نالاں رہے کہ "مرزا مغرور ہے"۔ مرزا کبھی مغرور نہیں رہا لیکن رعونت دکھانے والے کو طاغوت جانتا ہے۔
آمدند، نشستند، گفتند، رفتند قسم کی زندگی گذارنا بھلا کیا زندگی ہوئی۔ وسائل کے بارے میں نہ کبھی سوچا نہ جمع کیے۔ ہوگا کیا؟ سردی کا بہانہ ہے، لوٹ جاؤں گا مگر وہاں بھی کیا بھاڑ پھوڑوں گا؟ اینگلز نے کہیں کا نہ چھوڑا، اس کی کتاب "ریاست، شخصی جائیداد اور خاندان کا منبع" کیا پڑھی تھی کہ سرمایہ داری کو لاکھ سمجھا مگر اس پر عمل پیرا نہ ہو سکے تو جناب انفعالیت و اضمحلال بلاوجہ تو نہیں ہیں ناں۔ سوشلزم لا نہیں سکے، جائداد بنا نہیں سکے، خاندان سے جڑ نہیں پائے تو ایسے میں پنجابی زبان والے نیشکر ویشکر "چوسنے" کی بات کرتے ہیں گویا۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1642868812405889
“