لوگ کیوں کہتے ہیں،"قبضہ کر لیں گے"
تقریب اپنے عروج پر تھی۔ وردی والے افسر بھی تھے اور بن وردی کے ماتحت بھی۔ ادارے میں فوجیوں کی نسبتا" زیادہ تعداد (نفری؟) دیکھ کر میں نے جنرل سے پوچھا،"آپ لوگوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ہو گئی؟" جنرل جواب میں مسکرایا تو میں نے ترنت مزاح کرتے ہوئے پوچھ لیا،" کہیں قبضہ تو نہیں کرنے لگے؟" ۔۔۔ جنرل نے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے چہرے سے اپنی مسکراہٹ کو پوری طرح معدوم نہیں ہونے دیا اور سوال داغا،" ایسا کیوں ہے کہ ہم دو بھی اکٹھے دکھائی دے جائیں تو لوگ قبضہ کرنے کی بات کرنے لگتے ہیں؟" جواب میں میں نے کہا کہ جناب ایسا ہوتا رہا ہے تبھی لوگ کہتے ہیں۔ جنرل صاحب، "بہرحال، تاریخ تو ایسا نہیں بتاتی البتہ لوگوں کو کہنے کی عادت ہو گئی ہے" کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
انہوں نے فیصلہ دے دیا تھا کہ قصور "بلڈی سویلینز" کا ہے ورنہ تاریخ اس بارے میں چپ پے۔ رکے نہیں، رکتے تو میں گن گن کے تاریخ کی تاریخیں یاد دلاتا مگر مجھے معلوم ہے کہ جواب یہی ہوتا " مارشل لاء لگائے جانے پر سیاست دانوں کی نااہلی مجبور کرتی رہی"۔ جس ادارے کے مدارالمہام اپنی سوچ کو ایک مخصوص انداز میں جامد کر لیں تو آپ ان کی سوچ نہیں بدل سکتے۔ ہماری فوج میں آج جو کپتان کے عہدے تک ہیں، اگر آئندہ دس سال کوئی کندہ ناتراش جنرل برسر اقتدار آنے کی سعی نہ کر بیٹھا تو شاید ان کی سوچ میں کوئی جاگزیں تبدیلی وقوع پذیر ہو جائے ویسے تو آج کے جرنیل تو جرنیل میجروں کی اکثریت نے بھی کم از کم پرویز مشرف کا مارشل لاء دیکھا ہوا ہے جسے مارشل لاء نام نہیں دیا گیا تھا۔
اور آج؟ بھئی آج تو بات اور نرالی ہو چکی ہے۔ چند روز پہلے متحرک عدلیہ کی عدالت عظمٰی کے سربراہ نے کسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے ہوتے ہوئے عدلیہ کے اندر سے یا باہر سے مارشل لاء نہیں آئے گا، اتنا تیقن ہونے پر چیف جسٹس، جوائینٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین لگے ہیں جیسے فوج نے ساری ذمہ داریاں انہیں سونپ دی ہوں۔ یہ بات انہوں نے بقول نصرت جاوید بقراط عصر شیخ رشید کے اس مطالبے کے جواب میں کہی کہ ملک میں تین ماہ کے لیے "جوڈیشل مارشل لاء" لگا دینا چاہیے۔ جوڈیشل لاء تو ملک میں ہے ہی بس شیخ صاحب اس کا مارشل لاء سے نکاح پڑھانے کی بات کر رہے تھے مگر چیف صاحب نے اس تعلق کو بے نکاح رکھنے کا عندیہ دیا ورنہ وہ کیسے کہتے کہ ان کے ہوتے ہوئے عدلیہ کے باہر سے بھی مارشل لاء نہیں آئے گا۔
بات چلی تھی اس سے کہ "لوگ ہم دو کو بھی اکٹھے دیکھ لیں تو قبضہ کیے جانے کے خدشے کی بات کیوں کرنے لگتے ہیں؟"۔۔۔ ہم بھی آپ جرنیلوں کی طرح یہی چاہتے ہیں کہ لوگ اہسی کوئی بات نہ کریں۔ مگر جہاں شیخ رشید اور ان کو جواب دینے والوں جیسے موجود ہوں گے وہاں لوگ ایسی بات کرتے رہیں گے۔ یہ فوج کا کام ہی نہیں بلکہ فرض ہے وہ لوگوں کے ذہنوں سے ایسا احتمال مندمل کرے۔ اپنی روش سے، جس میں عمل کے علاوہ بیان بھی شامل ہوتا ہے، ثابت کرے کہ ان کے خیال سے ملک سنوارنے کا خناس نکل چکا ہے۔
دوسرے ملکوں میں چاہے وہ ہندوستان، ایران اور تو اور افغانستان جیسا ملک ہی کیوں نہ ہو، دور کے روس، وسط ایشیا کے ملکوں ایسے ہمسائے ہوں یا دور پار کے دیگر ملک برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ بلکہ عرب کے شاہی نظام والے ملک ہی کیوں نہ ہوں، وہاں پر لوگ ایسی بات کیوں نہیں کرتے؟ اس لیے کہ ظاہر ہے وہاں جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰی خان، جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف جیسے طالع آزما برسراقتدار نہیں رہے جن سب نے پہلے سیاسددانوں کو سیدھا کرنے کی بات کی، بدعنوانی تمام کرنے کے دعاوی کیے اور پھر خود سالہا سال مسند اقتدار پر براجمان اپنی من مرضی کرتے رہے۔
کوئی غدار ہی اپنے ملک کی فوج کا مخالف ہو سکتا ہے مگر جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰی خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف کے خلاف لاکھوں لوگوں نے تب احتجاج کیے تھے جب وہ وردی پوش تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ لاکھوں عوام غدار ہیں اور اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ وہ احتجاج اور نفرت محض ایک شخص کے خلاف تھی بلکہ لوگ آئین سے ہٹ کر اختیارات کو قابو میں لیے جانے کی بنا پر اس ادارے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، جس کے زعماء یہ کھیل رچاتے رہے ہیں۔ ممکن ہے نفرت اس ایک شخص کئے خلاف رہی ہو جو اپنے اپنے طور پر آمر بن بیٹھا تھا۔ نفرت ہوتے ہوتے ہوتی ہے، اب شاید اس حد تک بات جا چکی ہے کہ لوگ قبضہ کیے جانے کی بات کرتے ہوئے گھبراتے نہیں بلکہ منہ سکیڑ لیتے ہیں تبھی بار بار " چھوڑ کے مت جانا" اور "ویلکم" کے بینر لگوانے پڑتے ہیں۔ ایسے بینر گذشتہ سال میں نے لاہور کے ایک علاقے میں مقامی ایس ایچ او کے حق میں بھی لگے دیکھے ہیں کہ تیرے جانے کے بعد جرائم عام ہو جائیں گے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“