"ارے بیٹا !! شنو ! زرا فرج میں سے میری پانی کی بوتل نکال لا ہری والی ڈیو کی بوتل ہے فریزر میں رکھی ہے بڑی پیاس لگی ہے" اس نے کمرے سے بیٹی کو آواز دیتے ہوئے کہا
بیٹی پانی کی بوتل باپ کو دیتے ہوئے ہنستے ہوئے بولی" ممی پاپا نے یہ بڑھیا کام کیا اپنی پانی کی بوتل فرج میں خود بھر کر رکھ دی اور یہ تو دیکھو پہچان بھی خوب ہری بوتل" اس نے زور کا ٹھٹھا ماراپ
"ارے ہاں ! بیٹا روز کی چخ چخ بک بک کوئ کہتا ہے میں نے ساری بوتلیں بھری تھیں میری پیاس ایک بوند نہیں ملتی کوئ کہ ہمیں ہر وقت بھرتے رہیں سب نے نوکر سمجھ لیا ہے کوئ کہہ رہا ہے ٹھنڈا پانی پینے کے لئے سب ہیں بھرنے کے لئے کوئ اس بھرے پرے گھر میں ہر آدمی اپنی اہمیت جتاتا ہوا اور دل میں بغض بھرے ہوئے ملے گا" اس نے بیٹی کو جواب دیا
"چلو! اچھا ہے اب کان ٹھنڈے رہیں گے یہ بھی پتہ رہےگا کون کتنا پانی پی رہا ہے دن رات کا یہی قضیہ" اس کی بیوی نے بھگار لگایا
"ارے ہاں روز کا ڈرامہ میں کہاں روز الٹی سیدھی سنوں میرے بس کی بات نہیں" اس نے بڑے طنزیہ انداز میں کہا
یہ باتیں ان کے گھر ائ ان کی رشتہ کی خالہ سن رہی تھیں بولیں
" ہاں بھیا اب بڑا برا دور اگیا ہے اپنا اپنو کو ہی چھیلے پھیکے دے رہا ہے"
" ارے انٹی دس از کامن ناوءاے ڈیز"اس کا بیٹا بولا
"کیا کہہ رہا ہے" انھوں نے استفسار کیا
"ارے خالہ کہہ رہا ہے یہ عام ہوگیا ہے" اس نے جواب دیا
" اے ہے!!بچے ہٹ تو، ہمارے زمانے میں یہ نہیں تھا سب ایک دسترخوان پر کھانہ کھاتے تھے اگر گھر کا کوئ فرد نہیں ہوتا تو انتظار کیا جاتا دسترخوان پر کوئ پوری روٹی ہاتھ میں لیکر نہیں بیٹھتا تھا،بلکہ ایک روٹی کے چار ٹکڑے کئے جاتے تھے اور مل بانٹ کر کھایا جاتا تھا خیروبرکت بھی ہوتی تھی اور محبت بھی برقرار رہتی تھی جانتے ہو کیوں وہ چار ٹکڑے جوالگ الگ سب کے پیٹ مین جاتے تھے اپنی اصل کی چاہت رکھتے تھے اب تو اپا دھاپی کا دور نہ چھوٹے بڑے کی عزت وقعت نہ محبت اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ" وہ افسردہ لہجے میں بولیں
"وہاٹ آنٹی اٹ ازجسٹ متھ ، دس اس ٹرانزیشن پیریڈ فار دی ورلڈ اولڈ ویلیوز ار ناٹ ورتھ فار نیو ٹرینڈ وی ار ٹرازیشننگ ان دی نیو ورلڈ ارڈر" اسکے بیٹے نے فراٹے دار انگلش بولتے ہوئے ناگواری سے کہا آنٹی کچھ سمجھ نہیں پائیں مگر لڑکے کے چہرے کے تاثرات سے ناگواری کے احساس کو بھانپ گئیں اور ان کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا