مشرف عالم ذوقی سے میری ملاقات تقریباً پندرہ سال پہلے فون پرہوئ تھی جب ڈاکٹر صادقہ نے اپنا ناول کوئی کہانی سناؤ متاشا مجھے اور انھیں بھیجا تھا۔ ڈاکٹر صادقہ نے مجھ سے فون پر کہا تھا معلوم کرلیجۓ۔ کہ ناول مل گیا ان سے رسمی سے بات ہوئی انھوں نے مجھے گھر آنے کی دعوت دی میں نہیں جاسکا بیچ میں ایک لمبا عرصہ، گذر گیا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ پھر وہ راشٹریہ سہارا کے مدیر ہوگئے اور سہارا کے سیٹ اپ میں نمایاں تبدیلی اگئی۔ خاص طور سے ہر جمعرات کو ادب اطفال کا صفحہ جس کی تزئین وترتیب مشرف عالم ذوقی نے اپنےذوق اور نظریہ سے کرائی جو بہت کامیاب رہی اور سہارا کا سرکیولیشن ایک دم بوسٹ کرگیا۔ میں چوں کہ بچوں کا ادیب پہلے ہوں اس لئے مجھے بڑی خوشی تھی میں نے ذوقی صاحب کو فون کرکے مبارکباد دی بہت خوش ہوۓ چالیس منٹ بات چلتی رہی بہت سی باتیں ہوئیں۔ مجھ سے کہنے لگے کسی دن آئیے سراج صاحب میں چاہتا ہوں ادب اطفال کے تعلق سے کچھ کیا جائے۔ بچوں کا ادب بے ربطگی کا شکار ہوگیا ہے اس وقت بہت غیر معیاری ادب اطفال لکھا جارہا ہمارے یہاں وہی فرسودہ چیزیں چل رہی ہیں ہم زمانے سے بہت پیچھے چل رہے ہیں۔ ہمیں کچھ نیا کرنا چاہئے تاکہ بچے اس میں دلچسپی لیں اپ لوگ جو کہتے بچے کتاب سے دور ہوتے جارہے ہیں تو مجھے بتائیے آپ کیا لکھ رہے ہیں اپ جو لکھ رہے ہیں بچہ اس سے دور بھاگتا ہے تو یقینی ہے کتاب کہاں سے پڑھے گا آج کے دور کا لکھئے بچہ کے دلچسپی کا سامان ہوگا تو خود بخود کتاب پڑھے گا اپنا دوش بچے کو مت دیجئے۔ بہرحال ایک پھر آفس آنے کے وعدے کے ساتھ سلسلہ پھر منقطع ہوگیا۔ پھر کئی سال کوئی ملاقات نہیں۔ جے این یو۔ میں لینگوئجیز ڈیپارٹمنٹ میں اردو شعبہ کی طرف سے کبیر لیکچر منعقد جو غالباَ عصر حاضر میں ناول کے اوپر تھا۔ پروفیسر انور پاشا صدر شعبہ تھے مجھے خصوصی دعوت دی۔ میں لکچرمیں پہنچا اگلی صف میں تھا انور پاشا صاحب نے اپنی تقریر میں ادب اطفال کے حوالےسے میرے کام کو سراہتے ہوئے کئی بار ذکر کیا۔ ذوقی صاحب نے مجھے اسٹیج سے ہی سلام کیا۔
جب ذوقی صاحب نے اپنا لیکچر شروع کیا تو اور باتوں کے ساتھ یہ بھی کہا کہ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ یہاں ادب عالیہ کے لوگ تو ہیں ہی ادب اطفال کی بھی قابل قدر شخصیات یہاں موجود ہیں۔ اس کے بعد ذوقی صاحب سے پہلی بار بالمشافہ ملاقات ہوئی میں نے لیکچر کی تعریف کی تو کہنے لگے ارے بھئی ہم کچھ نہیں کام تو اپ کر رہے ہیں اردو اور ادب کو پڑھنے والے تیار کر رہے ہیں۔ اس کے بعد واہٹس ایپ پر کبھی کبھار بات چیت ہوتی۔ اس کے بعد حقانی القاسمی کی بچی کی تدفین کے وقت قبرستان میں میں ان کو دیکھ نہیں پایا تو انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ سن اٹھارہ میں ہم نے گل بوٹے کی جانب سے دہلی میں بچوں کے ادب پر چار روزہ سیمینار کیا تب ان سے اخری ملاقات ہوئی تھی۔ اتنے بڑے پیمانے پر بچوں کے ادب پر دہلی کی تینوں یونیورسٹیوں میں سیمینار کے انعقاد پر بہت خوش ہوئے مجھ سے کہا آپ نے اردو ادب تاریخ رقم کردی
بہرحال بہت بولڈ سچا فنکار ادب کی دنیا میں ایک خلاء پیدا کر گیا ﷲ مغفرت فرمائے آمین