بچپن میں ایک لوک داستان سنتے تھے شیریں فرہاد کہ فرہاد نے شیریں کی محبت میں پہاڑ کاٹ کر پانی کی نہر نکالی تھی یہ کہانی بہت متاثر کرتی تھی کہ اگر لگن سچی ہو تو انسان پہاڑوں جیسی مشکلات سے بھی نبردآزما ہو سکتا ہے لیکن پھرجب شعور کی منازل طے کیں تو احساس ہوا کہ یہ ایک فرضی لوک داستان ہے اور ایسا کس طرح ممکن ہے کہ بنا کسی افرادی قوت اور وسائل کہ کوئی پہاڑ کاٹ دے وقت گزرتا گیا کہ وقت نے گزر ہی جانا تھا اور ہم فکر معاش میں مبتلا ہوگئے
سرکاری چینل کی اجارہ داری ختم ہوئی اور بہت سے نیوز چینلز کا آغاز ہوا اور لوگوں میں خبریں دیکھنے،حالات حاضرہ جاننے کا رواج ہوگیا مجھے یاد ہے کہ دوستوں کی باہمی گفتگو میں زیادہ تر حوالہ جات انھی چینلز کی مہیا کی گئی معلومات پر ہوتے تھے انھی دنوں عاصمہ جہانگیر کو سکرین پر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔کیونکہ ہمارا تعلق اُس نسل سے تھا جو ضیاء کے دور میں پیدا ہوکر بڑی ہوئی اور تعلیم پر بھی ضیاء کے اثرات تھے تو لا محالہ سوچ بھی متاثر تھی اس لیے عاصمہ آپا کو ایک آزاد خیال مغرب سے متاثر خاتون سمجھتے تھے جو کہ مغرب سے پیسہ وصول کرکے پاکستانی معاشرے کو مغربی طرز پر بے راہ روا بنانا چاہتی ہے لیکن جب بھی وہ کسی سیاسی یا سماجی معاملہ پر بات کرتیں تو اُن کی دلیل بڑی وزنی ہوتی اور جب تھوڑا غور کرتا تو اُنھیں درست سمت کھڑے دیکھتا چاہے یہ فیصلہ عوامی سطح پر کتنا ہی غیر مقبول ہوتا مجھے اس بات کا احساس ہوگیا کہ یہ عورت ذہنی پختگی کے لحاظ سےاُس وقت سیاسی اور سماجی منظر پر موجود مردوں سے بدرجہ بہتر ہے لیکن ساتھ میں یہ بھی سوچتا رہتا کہ ایک انسان کے درست ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے جبکہ سماج میں ہر طرح کی بد دیانتی بدرجہ اتم موجود ہو وقت کا دھارا بہتا رہا اور ایک دن وہ خاموشی سے ہمیں چھوڑ گئیں اُن کے جانے کے بعد ایک خلاء سا پیدا ہوگیا ایسا لگا جیسے اپوزیشن ختم ہوگئی ہے
جب جدید طرز کے موبائل آئے تو ہمیں بھی کمپنی کی طرف سے انٹرنیٹ پیکج کے ساتھ موبائل دئیے گئے کہ موقعہ سے ہی جاری کام کی تصاویر اور معلومات بذریعہ ای میل فراہم کی جائیں وہ کیا کہتے ہیں کہ جب حسن ہو تو نزاکت آہی جاتی ہے کے مصداق ہم نے بھی جدید شوشل میڈیا سے آشنائی حاصل کرلی یوٹیوب چینلز اور ٹویٹر پر معلومات جلدی اور اپنی پسند کے مطابق ملتی تھیں انھی دنوں ایک شخص تیمور رحمان کو یوٹیوب پر دیکھا جو یونانی فلسفہ کے متعلق معلومات انتہائی اختصار مگر جامعہ عام فہم انداز میں دیتا تھا تھوڑی معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ یہ پروگرام سرکاری چینل پر بھی قسط وار آن ائیر ہوچکے ہیں کیونکہ کام کے سلسلہ میں سفر کرتا رہتا تھا تو یہ شخص میرا ہمسفر بن گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ محسوس کیا کہ دوسرے دوستوں کے مقابلہ میں میری سوچ میں نسبتاً پختگی آگئی ہے اور میں سیاسی سماجی مسائل کو جدید فلاسفہ کے نظریات کی روشنی میں بہتر انداز میں سمجھنے کے قابل ہوتا جارہا ہوں تو ایک اچھا احساس ہوا اور اس ہمسفر سے دوستی اور زیادہ ہوگئی لیکن مسلئہ یہ تھا کہ اس کا حوالہ دوستوں کی محفل میں نہی دیا جاسکتا تھا کیونکہ اس کے نظریات کو الحادی کہ کر مسترد کردیا جاتا تو اس کا حل یہ نکالا کہ ان کے بیان کردہ نظریات پر تھوڑی اور معلومات حاصل کرلیتا اگر کسی کتاب کا حوالہ دیتے تو وہ ڈائون لوڈ کرکے تھوڑا بہت مطالعہ کرلیتا اور بڑے حکیمانہ انداز سے دوستوں میں سیاسی سماجی رائے زنی کرتا ۔شروع میں تو دوستوں نے کچھ حوصلہ افزاء ریمارکس دئیے لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ تاثر بننے لگا کہ کتابیں پڑھنے سے اس کا دماغ خراب ہوتا جارہا ہے اب بات شروع ہونے سے پہلے ہی پاگل کہ کر بات سنی ان سنی کردی جاتی جس کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہوگیا لیکن ان سے تعلق نہی چھوڑا اس تنہائی کو اپنے نو سالہ بیٹے اور بیوی سے گفتگو کرکے دور کرنا شروع کردیا جس کے نتائج حیران کن تھے کہ بیوی اور بیٹا سماجی اور سیاسی مسائل پر مجھ سے زیادہ بہتر انداز سے گفتگو کرنے لگے ہیں
ایک دن وقت گزارنے کی غرض سے انڈین فلم تلاش کررہا تھا کہ ایک فلم “دی ماؤنٹین مین” ملی جیسے جیسے فلم دیکھتا گیا برسوں پہلے سنی شیریں فرہاد کی کہانی یاد آگئی اور یہ بھی یقین ہوگیا کہ اگر لگن سچی اور مقصد بلند ہوتو ایک تنہا انسان بھی پہاڑ کا سینہ کاٹ سکتا ہے اس فلم میں تو مانجھی نامی حقیقی کردار نے بیوی کی محبت میں پہاڑ کاٹ کر گاؤں سے ہسپتال کا راستہ نکالا کہ آئندہ کسی کو اپنی محبت نہ گنوانی پڑے ۔
لیکن کچھ جہالت کے پہاڑ ہمارے سماج میں سالوں سے قائم ہیں جو مظلوم عوام کو مانجھی کی بیوی کی طرح تڑپ تڑپ کے مرنے پر مجبور کررہے ہیں ہم سب ان پہاڑوں کو دیکھتے ہیں اور قدرت کی طرف سے امتحان سمجھ کر ہم نے ان کے وجود کو قبول کرلیا ہے لیکن ایک دن میں نے تصوراتی آنکھ سے دیکھا تو مجھے ایک شخص تن تنہا کدال سے یہ پہاڑ توڑ تا نظر آیا غور کیا تو گرد میں چھپا چہرہ جانا پہچانا (تیمور رحمان ) تھا ساتھ ایک تربت تھی جس کے کتبے پر جلی حروف میں “شہید حق پرست رانی عاصمہ “لکھا تھا