آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے سربراہ جناب سکندر خان کی خدمت میں یہ اطلاع نہایت ادب سے پیش کی جاتی ہے کہ خالد کو جب شکنجے میں کسا گیا تو پہلے یہ اس کے پائوں کو ڈالا گیا، پائوں کی ہڈیاں تڑا تڑ ٹوٹ گئیں، پھر آہستہ آہستہ شکنجے کو اوپر سرکایا جاتا رہا، ہڈیاں ٹوٹتی گئیں، تڑ تڑ تڑ، ہڈیاں ٹوٹنے کی آوازیں وہ لوگ سن رہے تھے جو اس زمانے میں غلے کے ایک ایک دانے کو ترس گئے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ شکنجہ خالد کے سر تک پہنچ گیا اور اس کا دم نکل گیا!
فرشتے آسمانوں پر حیران ہیں کہ جب چینی کے کارخانوں کے مالکوں کی طرف سے جناب سکندر خان مسابقتی کمشن میں پیش ہوئے اور نرم برتائو کی درخواست کی تو انہیں یہ حکم کیوں نہیں دیا جا رہا تھاکہ آسمان سے پتھر برسائیں! غضب خدا کا! چینی کی فیکٹریوں کے مالکان نے پہلے گٹھ جوڑ کیا اور کارٹل بنایا۔ کارٹل انگریزی میں اس مجرمانہ اکٹھ کو کہتے ہیں جو کارخانوں کے مالک بے بس صارفین کو اذیت پہنچانے کے لئے کرتے ہیں۔ ان کارخانہ داروں نے سب کچھ کیا۔ ذخیرہ اندوزی کی حالانکہ اللہ کے آخری رسولؐ نے صاف صاف حکم دیا تھا کہ ’’جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ پھر انہوں نے قیمتیں بڑھائیں یہاں تک کہ خدا کی مخلوق چیخ اٹھی۔ میں یہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا جب ایک بڑھیا جو قطار میں کھڑی کھڑی نڈھال ہو رہی تھی اور گرنے کے قریب تھی، آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کارخانہ داروں کو بددعا دے رہی تھی، میں نے اوپر دیکھا، ایک بدلی فضا میں اٹکی ہوئی تھی اس کے قریب سے ایک پرندہ اڑ رہا تھا، کارٹل …؟ ایک کارٹل…؟ ایک ہزار… ایک کروڑ… ایک کھرب کارٹل…؟ بددعا کو فضا میں اٹکی ہوئی بدلی کے اوپر جانے سے کوئی کارٹل نہیں روک سکتا!
غضب خدا کا! ان کارخانہ داروں نے کارٹل بنا کر ہر وہ کام کیا جس سے صارفین کی زندگی جہنم بنی اور اب یہ کارخانہ دار مسابقتی کمشن کی خدمت میں یہ درخواست دے رہے ہیں کہ آرڈیننس کی شق 39 کی رو سے ان سے نرمی برتی جائے! یہ کیسا ملک ہے جس میں سب کے لئے قانون کوئی نہ کوئی نرمی ڈھونڈ لیتا ہے، کبھی این آر او کی شکل میں کبھی آمروں کیلئے نظریۂ ضرورت کی صورت میں اور اب اربوں کھربوں کی لوٹ مار کرنے والے مسابقتی کمشن سے نرمی کی درخواست کر رہے ہیں۔ یہ صرف عوام ہیں جن کے لئے کوئی این آر او ہے نہ کوئی نرمی!
چینی کے بحران کے ذمہ دار مشرف کی کابینہ میں تھے یا جناب یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں بیٹھے ہیں، قاف لیگ کے تخت پر متمکن ہیں یا نواز لیگ کے اقتدار کا حصہ ہیں یا پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر بادشاہی کے مزے لوٹ رہے ہیں، وہ جو بھی ہیں اور جہاں بھی ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خالد کو جب شکنجے میں کسا گیا تو اس کی ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آوازیں وہ لوگ سن رہے تھے جو غلے کے ایک ایک دانے کو ترس گئے تھے۔ یہ خالد بن عبداللہ تھا جسے اموی خلیفہ ہشام بن عبدالمالک نے کوفہ کا گورنر بنایا اور پھر یہ پورے پندرہ سال 105 ہجری سے 120ھ تک عراق کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ اس کی ماں یورپ کی عیسائی عورت تھی اس لئے اسے ابن النصرانیہ بھی کہا جاتا تھا۔ اس نے مسجدوں کے مینار منہدم کرا دیئے اور سبب یہ بتایا کہ موذن ان پر چڑھ کر لوگوں کے گھروں میں جھانکتے ہیں اور عورتوں سے تانک جھانک کرتے ہیں لیکن یہ وہ بات نہیں جو ہم خالد بن عبداللہ کے بارے میں بیان کرنا چاہتے ہیں۔
مخلوق کو اذیت میں مبتلا کر کے دولت مند بننے والے حکمران پہلی بار نہیںظاہر ہوئے، ایسے عاقبت نااندیش پہلے بھی ہو گزرے ہیں لیکن ان کے انجام سے سبق کوئی نہیں سیکھتا۔ خالد کے حکمران ہشام بن عبدالملک نے پایۂ تخت دمشق سے خالد کو خفیہ پیغام بھیجا کہ جب تک خلیفہ کا غلہ فروخت نہ ہو جائے کسی دوسرے کو غلہ فروخت کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ خالد نے غلہ یچنے پر پابندی عائد کر دی۔ گرانی پھوٹ پڑی، لوگ قطاروں میں کھڑے ہوگئے، غلے کی قیمت آسمان پر جا پہنچی۔ آج جناب سکندر خان لاکھوں کروڑوں عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں، کاش وہ آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ساتھیوں کو جمع کر کے انہیں یہ بتاتے کہ ایک نظام اور بھی ہے جو اس کائنات میں جاری و ساری ہے اور جو اس نظام کی پرواہ نہیں کرتے ان کا انجام وہی ہوتا ہے جو خالد بن عبداللہ کا ہوا تھا!
عربی کے مشہور شاعر فرزدق نے اس کی ہجو میں کیا ہی زبردست شعر کہا
’’ارے اللہ اس سواری کی پشت کا برا کرے جو دمشق سے لڑ کھڑاتے ہوئے خالد کو ہمارے پاس لائی!‘‘
آج پیپلز پارٹی کے وزیر اپنے صاحبزادوں کی شادیوں پر کُنڈے لگا کر بجلی غصب کرتے ہیں اور لوگوں کو اندھیرے میں دھکیلتے ہیں تو یہ کون سی نئی بات ہے۔ خالد بن عبداللہ کے ایک ملازم طارق کے بچے کے ختنے کی تقریب تھی تو اس نے مالک کو ان گنت دوسرے تحائف کے علاوہ ایک ہزار غلام اور ایک ہزار لونڈیاں پیش کیں۔ خالد نے اپنے بھائی کو موجودہ افغانستان کا حکمران نامزد کیا جو ان دنوں خراسان کہلاتا تھا۔ بلخ (موجودہ مزار شریف) دارالحکومت تھا۔ عید پر اسے سونے کے محل کے ماڈل‘ طلائی لوٹے‘ چاندی اور سونے کے بادیے اور رکابیاں اور سونے کی بنی ہوئی بڑی بڑی گیندیں تحفے میں ملیں، پھر یہی خالد قید ہوا اور عراق کا نیا گورنر اسے ہر روز نئی سزا دیتا تھا اور چھپا ہوا مال اگلواتا تھا۔ چینی کے کارخانہ داروں سے ہماری دست بستہ گزارش ہے کہ خالد کے بارے میں (جس نے عراق میں غلے کی قلت بالکل اسی طرح پیدا کی تھی جس طرح آج پاکستان میں چینی کا مصنوعی قحط پیدا کیا گیا ہے) ابن خلکان کے یہ الفاظ پڑھیں اور ازراہِ کرم غور سے پڑھیں۔
’’اس نے (نئے گورنر نے) دو لکڑیوں کے درمیان اس کے پائوں رکھے اور ان کو نچوڑ دیا حتیٰ کہ وہ ٹوٹ گئے، پھر اس نے دونوں لکڑیوں کو اس کی پنڈلیوں تک بلند کیا اور ان کو نچوڑ دیا۔ حتیٰ کہ وہ بھی ٹوٹ گئیں پھر اس نے لکڑیوں کو اس کی رانوں تک بلند کیا پھر اس کی کمر تک، پس جب اس کی کمر ٹوٹ گئی تو وہ مر گیا…‘‘
بہت ہو چکی یہ ملک کسی کی جاگیر نہیں، نہ کسی کے باپ کو وراثت میں ملا تھا! اس ملک کے مالک عوام ہیں اور یہ مالک کبھی آٹے کے لئے ذلیل و رسوا ہوتے ہیں اور ظلم کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ مجرم کابینہ میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور کبھی یہ مالک چینی کے ایک ایک دانے کے لئے ترستے ہیں اور ساٹھ روپے فی کلوگرام لیتے ہیں اور ظلم کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ مجرم پھر کابینہ میں بیٹے ہوتے ہیں، مرکز کی کابینہ میں، پنجاب کی کابینہ میں، سندھ اور سرحد کی کابینہ میں اور سیاسی پارٹیوں کے سنگھاسن پر براجمان ہوتے ہیں نہیں! اب یہ ظلم مزید برداشت نہیں ہو سکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملزم شکنجوں میں کسے جائیں ان کے پائوں‘ ان کی رانیں اور ان کی گردنیں ٹوٹیں اور لوگ آوازیں سنیں!
یہ عجیب تماشا ہے کہ پہلی جماعت سے لے کر یونیورسٹی کی اعلیٰ کلاس تک سبق پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، یہ کیسا زرعی ملک ہے جس میں خالص شہد صرف آسٹریلیا کا پایا جاتا ہے دودھ نیسلے کا ہے اس لئے کہ ایک پائو دودھ میں ایک من پانی ملانے والے کیلئے بھی کوئی سزا نہیں ہے، آٹا ناپید ہے، چینی کا بدترین بحران ہے، گوشت پونے چار سو روپے کلو ہے، مرغی خریدنے سے پہلے لوگ ہزار بار سوچتے ہیں اور مرغی کی خوراک بنانے والے اس میں ایسی ایسی غلاظت شامل کر رہے ہیں جو مہذب ملکوں میں کتے اور سور کو بھی نہیں کھلائی جاتی۔ چند ماہ پہلے چیف جسٹس نے مرغیوں کی خوراک میں خنزیر کے اجزا شامل کرنے پر متعلقہ کارخانہ داروں کو شرم دلائی تھی۔ یہ کیسا زرعی ملک ہے! شاید یہ محض اس لئے زرعی ملک ہے کہ جاگیردار اور زمیندار منتخب اداروں میں نسل در نسل اور پشت در پشت بیٹھے ہیں!
لیکن اب خلقِ خدا شکنجے سے آتی ہوئی آوازیں سننا چاہتی ہے!!
http://columns.izharulhaq.net/2009_11_01_archive.html
“