ہے کوئی وزیر اعظم کو بتانے والا کہ بھارہ کہو تو پانی میں چھپے ہوئے مہیب برفانی تودے کا صرف نظر آنے والا چھوٹا سا حصہ ہے! …ہے کوئی وزیر اعظم کو بتانے والا کہ خلقِ خدا سے بے نیاز وزراء اور پست بلکہ غایت پست افسر شاہی (جس میں افسری ہے نہ شاہی) وزیر اعظم کی حکومت کے در پے ہے!
بڑھتے ہوئے ظالمانہ کرائے تو اسلام آباد کی ساری بستیوں کو خون رُلوا رہے تھے پھر صرف بھارہ کہو کے مظلوم کیوں شاہراہوں پر نکلے؟ اور صرف بھارہ کہو کے لوگوں نے سینوں پر دو ہتھڑ کیوں مارے اور بال کھول کر ماتم کیوں کیا؟ یہ ہزاروں ملین ڈالر کا سوال ہے! خلقِ خدا سے بے نیاز وزراء اور پست افسر شاہی کو تو اس سوال سے یوں بھی کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ تو اگلی حکومت میں بھی وزیر ہو جائینگے اور افسری کرینگے لیکن ہنسنے اور رونے کی بات یہ ہے کہ بیسیوں ٹیلی ویژن چینلز پر بزرجمہرانہ باتیں کرنیوالے لاتعداد ’’دانشوروں‘ مفکروں‘ تجزیہ کاروں‘‘ اور ’’اینکر پرسنز‘‘ میں سے کسی نے بھی سوچا نہ بتایا کہ آخر بھارہ کہو ہی نے ماتم کی ابتدا کیوں کی؟ آخر ترنول‘ ٹیکسلا‘ روات‘ ہڈیالہ اور گولڑھ شریف بھی تو نواحی بستیاں ہیں!
اس لئے کہ بھارہ کہو وہ واحد آبادی ہے جو پتھر کے زمانے میں رہ رہی ہے اور کوئی مانے یا نہ مانے یہ بات طے ہے کہ جو کچھ ہوا وہ صرف نظر آنے والا چھوٹا سا حصہ ہے۔ اصل مہیب برفانی تودہ تو پانی میں چھپا ہوا ہے اور کسی بھی وقت اسلام آباد کی کشتی سے ٹکرا سکتا ہے۔ وہ کشتی جو پہلے سے ہچکولے کھا رہی ہے اور جسے خلقِ خدا سے بے نیاز وزیروں کا طائفہ اور پست افسر شاہی ڈبونے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔
ہے کوئی وزیر اعظم کو بتانے والا کہ سینکڑوں کنالوں پر مشتمل انکے عظیم الشان محل سے صرف دس … جی ہاں … صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پر بھارہ کہو کا لاوارث علاقہ ہے جس کی کچی گلیاں اور ٹوٹی ہوئی سڑکیں بنانے سے سی ڈی اے انکاری ہے۔ جس میں سٹریٹ لائٹ تو دور کی بات ہے کھمبے تک نہیں‘ جس کے سامنے سے سملی ڈیم کے پانی کی موٹی پائپ گزر رہی ہے لیکن جسکے رہنے والوں کیلئے اس پانی کا ایک قطرہ بھی حرام ہے! اور اسی بھارہ کہو سے گزر کر وہ سارے کھرب پتی سملی ڈیم کی بہشت کو جاتے ہیں جہاں بیس بیس کنال کے زرعی فارم ہیں۔ وہ زرعی فارم جس میں اگنے والی سبزیاں آج تک کسی نے نہیں دیکھیں اس لئے کہ وہاں محلات ہیں۔ دس دس کنال اور بیس بیس کنال کے محلات۔
بھارہ کہو کے عوام چیلنج دیکر کہتے ہیں کہ پورے ملک میں جی ہاں … پورے ملک میں بھارہ کہو وہ واحد بستی ہے جہاں صرف نصف درجن گھروں میں سوئی گیس کی دیوی گئی ہے۔ شاہراہوں پر سینہ کوبی کرنے والے لوگ پوچھتے ہیں کہ بھارہ کہو کے محلے شاہ پور کے سینکڑوں گھروں میں سے صرف دو یا تین گھروں میں گیس کا کنکشن دیا گیا ہے کیوں؟ کیا مصروف وزیر اعظم سوئی ناردرن گیس کے حاکم کو بلا کر پوچھیں گے اور اسے برطرف کرینگے؟ خدا کی قسم! یہ 2010ء ہے اور غلامی کا زمانہ ختم ہو گیا ہے۔ سینکڑوں گھر اور صرف دو تین گھروں میں گیس کا کنکشن! بھارہ کہو اور شاہ پور کے لوگ جو وجہ اس کی بتاتے ہیں حکومت کے اپنے فائدے میں ہے کہ وہاں جا کر یہ وجہ خود گوش گزار فرمائے!
بھارہ کہو کے رہنے والے مظلوموں کی آنکھوں میں خون اترا تو اسلام آباد سے ایک افسر جسے اے سی رُورل (اسسٹنٹ کمشنر دیہات) کہتے ہیں بھارہ کہو کے دورے پر گیا۔ سبحان اللہ! کیا وزیر اعظم اس اے سی اور اس کے افسر ڈی سی اور ان دونوں کے مالک کمشنر کو بلا کر پوچھیں گے کہ تم ان ہنگاموں سے پہلے وہاں کب گئے تھے؟ ان پردہ نشین افسروں کو تو یہ بھی معلوم نہ ہو گا کہ اٹھال چوک‘ شاہ پور‘ گرین ویلی‘ مدینہ ٹاؤن‘ عثمان آباد اور بلیجیئم ٹاؤن بھارہ کہو میں کہاں کہاں واقع ہیں؟ اس خدا کی قسم جو اس حالت میں بھی پاکستان کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہ تینوں افسرشیر شاہ سوری کے زمانے میں ہوتے تو انکا حشر دیکھ کر ملک کا ایک ایک افسر تیر کی طرح سیدھا ہو جاتا لیکن پھر یہ بھی تو ہے کہ شیر شاہ سوری جیسے حکمران صفحۂ تاریخ پر ہمیشہ چمکتے ہیں اور وہ جو گمنامی کی دُھند میں ایک ذرے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے ان کے زمانے میں کمشنر تو کیا اے سی رُورل بھی مخلوق کیلئے عذاب ہوتا ہے!
ہے کوئی وزیر اعظم کو بتانے والا کہ جب تک وہ خود اسلام آباد کی اس بہت بڑی بلکہ سب سے بڑی آبادی کی ایک ایک گلی خود نہیں دیکھیں گے … بھارہ کہو دوسری بار پھر اٹھے گا اور اب کی بار اٹھا تو معاملہ راولپنڈی کے فیض آباد پر نہیں رُکے گا!
پہلے آمر ایوب خان کے دورِ تاریک میں جب لاہور گولی چلی تھی تو اس درویش نے … جس کے وارث آج اپنے اپنے خاندانوں کی ترویج کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ کہا تھا کہ جہاں باڑ کھیت کو خود کھا رہی ہو وہاں کس سے شکایت کی جائے۔ سعدی کی حکایت میں جب بادشاہ نے اپنے علاج کیلئے لڑکے کے قتل کا حکم دیا اور لڑکے کے ماں باپ نے لڑکے کی قیمت وصول کر لی تو قتل ہونے سے پہلے لڑکے نے آسمان کی طرف منہ کیا اور ہنسا ‘ اس لئے کہ ماں باپ اور بادشاہ ہی تو حفاظت کرتے ہیں۔ جب وہی قتل کرا رہے ہیں تو خدا کے سوا کس کی طرف دیکھ کر ہنسا جائے۔ وزیر اعظم پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ ایک شہر کے نہیں لیکن جب وفاقی پبلک سروس کمشن میں پنجاب سے ایک ریٹائرڈ افسر کو ممبر بنانا تھا تو وزیر اعظم نے پورے پنجاب کو چھوڑ کو صرف ایک خاص شہر سے تعلق رکھنے والوں پر نوازش کی! کیوں؟ کوئی اصول؟ کوئی ضابطہ؟ کوئی قانون؟ گذشتہ دو سالوں کے درمیان اس سطح کے جتنے افسر ریٹائر ہوئے ہیں کیا وہ اس ملک کے شہری نہیں؟ کیا وفاقی پبلک سروس کمشن کے ممبروں کو تنخواہ کسی کی ذاتی جیب سے دی جاتی ہے؟ جنہیں محروم کیا جا رہا ہے اور کیا گیا ہے ان کی وجہ آج نہیں تو کل بتانا ہو گی اور جنہیں نوازا جا رہا ہے وہ حشر کے دن وزیر اعظم کی کوئی مدد نہیں کریں گے!
وزیر اعظم ہو یا حکومت کا کوئی اور ستون … یا وزیر … یا افسر سب کو معلوم ہے کہ اس ملک میں جرم کرنیوالے کو سزا دینے کی کوئی روایت نہیں ہے اگر سزا دینے کی روایت ہوتی تو 16مارچ کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر شاہد حسن بگتی صرف یہ کہنے پر کیوں اکتفا کرتے کہ سی ڈی اے کے افسر ان بدعنوانیوں اور فراڈ کے ذمہ دار ہیں جن کی وجہ سے عوام کے اربوں روپے ہڑپ کر لئے گئے۔ سینیٹر بگتی یہ تو بتاتے ہیں کہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں سی ڈی اے کے اجازت نامے کے بغیر 70 فیصد کام مکمل بھی کر لیتی ہیں قوانین کو پاؤں تلے روندتی ہیں مسجدیں پارک اور سکول بیچ کھاتی ہیں اور یہ سب کچھ سی ڈی اے کی ملی بھگت کے سوا نہیں ہو سکتا لیکن وہ یہ نہیں مطالبہ کرتے کہ سی ڈی اے کے ذمہ دار افسروں کو سزا دی جائے۔ ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کیخلاف ایف آئی آر کاٹی جائے‘ ضرور کاٹی جائے لیکن ترقیاتی ادارے کے ملوث افسروں کو کیوں چھوڑ دیا گیا ہے؟ سی ڈی اے کے ایک سربراہ کی اس لئے تعریف کی جاتی ہے کہ اس نے فوڈ سٹریٹس بنوائیں اور وہ ساری شاہراہیں خوبصورت کرائیں جہاں سے حکمرانوں کی کاروں کے قافلے گزرتے تھے۔ کیا کوئی لائبریری بھی بنی؟ اگلے گریڈ میں ترقی پانے کودنیا و آخرت کا واحد مقصد سمجھنے والے ان بیچاروں میں اتنا وژن کہاں کہ یہ لائبریریاں بنواتے اور فوڈ سٹریٹ کے بجائے ’’بک شاپ سٹریٹ‘‘ وجود میں لاتے۔ انکی رعونت کا تو یہ عالم تھا کہ یہ ٹیکس دینے والوں کے خطوں کے جواب کسی اہلکار تک سے نہیں دلواتے تھے۔ ایک معزز شہری نے خط لکھا کہ اتنے بڑے پارک میں نماز کیلئے ایک چھوٹا سا چبوترہ بنوا دیا جائے ایک اور نے فریاد کی کہ غنڈے پارکوں میں خواتین کو ہراساں کرتے ہیں رعونت نے جواب ہی نہ دینے دیا۔
http://columns.izharulhaq.net/2010_03_01_archive.html
“