سب دائرے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
کچھ آلتی پالتی مارے،
کچھ اُکڑوں،
کچھ پائوں کے بل
لیکن سب زمین پر ہیں۔
کچھ جو نوجوان ہیں۔ پیچھے کھڑے ہیں۔
کچھ نے پشاوری چیلیں پہنی ہوئی ہیں لیکن زیادہ تر ہوائی چپلوں میں ہیں
ٹوپیاں تقریباً سب کے سروں پر ہیں۔
سب شلوار قمیض پہنے ہیں۔
کچھ باریش ہیں، کچھ نہیں
یہ سب ایک تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
آگے چھوٹا سا میدان ہے۔ اس میں دو شخص آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ دونوں کے ایک ایک ہاتھ میں سرکنڈوں سے بنا ہوا۔ پنجرہ ہے۔ دونوں کے درمیان نیچے، زمین پر دو بٹیرے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو ٹھونگیں مار رہے ہیں۔ ہر ٹھونگ پر داد و تحسین کے ڈونگرے برستے ہیں اور مجمع فرطِ جذبات سے بے حال ہو جاتا ہے۔ اگر ایک بٹیرہ پیچھے ہٹتا ہے تو آدھا مجمع خاموش رہتا ہے لیکن دوسرا آدھا فتح کی خوشی میں سرمست ہو جاتا ہے پھر شکست خوردہ بٹیرا ہمت مجتمع کرتا ہے اور آگے بڑھنے لگتا ہے اب مدمقابل کے پیچھے ہٹنے کی باری ہے۔ مجمع کا آدھا حصہ جو خموش تھا، اب ہاہاکار سے آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ مقابلہ کئی گھنٹے جاری رہتا ہے۔ بالآخر ایک بٹیرا ہمت ہار جاتا ہے۔ اس کے پر بھی ادھڑنے لگتے ہیں۔ مالک جلدی سے اسے اٹھا لیتا ہے۔ ہار جیت کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ جیتنے والے کے ساتھی آسمان پر اڑ رہے ہیں۔ نعرے لگ رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ مجمع بکھرنے لگتا ہے۔
کالم نگار کو اس موقع پر مسدس حالی یاد آتی ہے۔ مسدس حالی جو ہمارے زوال کا نوحہ ہے اور ہماری کامیابی کی کنجی لیکن افسوس، ہم یہ کنجی بھی گم کر بیٹھے، کہاں سر سید احمد خان کا یہ کہنا کہ قیامت کے دن اعمال کا پوچھا جائیگا تو مسدس حالی پیش کر دوں گا کہ داورِ حشر! یہ دیکھ! میں نے حالی سے یہ لکھوائی تھی! اور کہاں یہ وقت کہ اب کتاب فروشوں کیلئے بھی یہ نام اجنبی سا ہے۔ مہنگے انگریزی سکولوں سے لیکر ٹاٹ اور چھت کے بغیر والے سرکاری سکولوں تک… کسی طالب علم سے پوچھ لیں۔ اگر کسی نے مسدس حالی کا نام سنا ہو تو سمجھیں سورج مغرب سے نکلنے والا ہے۔ رہے مدارس تو وہاں تو کیا مسدس اور کیا اس قبیل کا دوسرا قومی ادب، سب شجر ممنوعہ ہے۔ اس لئے کہ مدارس میں پڑھائی جانے والی ’’تازہ ترین‘‘ کتاب بھی تین سو سال پرانی ہے اور مسدس حالی کی عمر تو مشکل سے سو ڈیڑھ سو سال کے لگ بھگ ہے۔ ہمارے دوست نامور وکیل ظفر اللہ خان نے مدارس کے نصاب کی تفصیل لکھی ہے۔ یہ کتاب ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہئے۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ایک معزز اور معروف عالم دین نے کچھ عرصہ قبل ایک مضمون میں فرمایا کہ مدارس میں علم ہیت
(Astronomy)
پڑھایا جا رہا ہے۔اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ…؎
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
بات دور نکل گئی۔ واپس آتے ہیں۔ بٹیروں کی لڑائی دیکھ کر کالم نگار کو مسدس حالی یاد آ گئی ۔…؎
شریفوں کی اولاد بے تربیت ہے
تبہ ان کی حالت، بری ان کی گت ہے
کسی کو کبوتر اڑانے کی لت ہے
کسی کو بٹیریں لڑانے کی دھت ہے
چرس اور گانجے پہ شیدا ہے کوئی
مدک اور چنڈو کا رسیا ہے کوئی
پھر کالم نگار کا ذہن بحراوقیانوس پار کرتا ہے۔ سیاہ فام امریکیوں کا شجرۂ نسب تلاش کرنے و الا شہرۂ آفاق مصنف ایلکس ہیلے یاد آتا ہے جس کی تصنیف روٹس
(Roots)
جب شائع ہوئی تھی تو امریکہ کے طول و عرض میں کتاب فروشوں کے سامنے گاہکوں کی طویل قطاریں تھیں۔
ہیلے کالے امریکیوں کی اس نسل کا نقشہ کھینچتا ہے جو غلامی سے تو آزاد ہو گئی تھی لیکن کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ تعلیم تھی نہ روز گار اور نہ ہی معاشرے نے قبول کیا تھا۔اس صورت حال میں ان کا ایک مشغلہ مرغوں کی لڑائیاں منعقد کرنا تھا۔ باقی مشاغل کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے۔
بٹیروں کی یہ لڑائی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے گزشتہ ہفتے کا بل میں ’’منعقد‘‘ہوئی ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا نے اس واقعے کو کور کیا ہے۔
افغان دنیا کی مظلوم ترین قوم ہے۔ آپ اندازہ لگائیے سوویت یونین اور امریکہ کا ظلم تو آج کی بات ہے۔ افغانوں پر قتل و غارت اور دربدری کا یہ ظلم صدیوں سے ہو رہا ہے۔ چند لیڈر، چند خوانین، چند سیاست دان، چند جنگجو، چند طالع آزما، چند سازشی، ہمیشہ سے افغانوں کے در پے رہے ہیں۔ تاریخ کا صرف ایک ورق دیکھئے،بابر نے فرغانہ کے نقصان کا بدلہ کابل سے لیا اور اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہمایوں کا زمانہ دیکھیے اور کابل کی قسمت پر ماتم کیجئے۔ کبھی ایک بھائی کابل پر قبضہ کرتا ہے تو کبھی دوسرا، یوں بھی ہوا کہ ہمایوں نے شہر پر گولہ باری کی تو اس کے بھائیوں نے اسکے ننھے بیٹے اکبر کو (جو چچا کے قبضے میں تھا) فصیل پر بٹھا دیا!
امریکہ کا غاصبانہ قبضہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ شکست سے دوچار ہو رہا ہے۔ ایک ماہ بعد یا ایک سال بعد، دو ماہ بعد یا دو سال بعد۔ اس نے اور اسکے حواری ملکوں کی افواج قاہرہ نے ذلت سے دوچار ہو کر بھاگنا ہے۔ لیکن پھر کیا ہو گا؟ افسوس! کسی نے کوئی پروگرام ترتیب نہیں دیا!
تو کیا پھر وہی کچھ ہو گا جو روسیوں کے جانے کے بعد ہوا تھا؟ وہی قتل و غارت… وہی طوائف الملوکی… وہی افراتفری اور وہی لاقانونیت… افسوس تو یہ ہے کہ افغانستان پر دانشورانہ مضامین اپنے نام سے چھپوانے والے ارب پتی ریٹائرڈ جرنیل اپنے محبوب افغانستان کیلئے عملی طور پر کچھ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ کوئی نہیں کہتا کہ میں قندھار میں یونیورسٹی بنوائوں گا یا خوست میں ماڈرن کالج کھولنے کے لئے اتنی رقم دیتا ہوں۔ رہے ہمارے سرمایہ کار اور صنعتی زار، تو جدہ سے لے کر ویت نام تک اور کینیڈا سے لے کر ہسپانیہ تک کارخانے لگا رہے ہیں اور لگائے جا رہے ہیں لیکن افغانستان میں آٹے کی ایک مل، کپڑے بنانے کی چھوٹی سی فیکٹری، بچوں کیلئے دوائیں بنانے والا چھوٹا سا پلانٹ نہیں لگا سکتے۔ اس لئے کہ وہاں سے آمدنی کم ہو گی یا نہیں ہو گی۔ جو حاتم طائی اپنے ملک کو پانچ ہزار روپے انکم ٹیکس دیں گے وہ برادر ملک کو کارخانہ کیا دیں گے۔!
نہیں! افغانستان کو غربت اور جہالت کے جہنم سے نکالنا ہو گا۔ اگر آج تک افغانستان کا بنا ہوا کپڑا اور جوتا عالمی منڈی کے کسی گوشے میں نہیں نظر آیا تو کیا ضروری ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی ہو؟ آج اگر دنیا میں افغانستان کی شناخت شٹل کاک برقع، بڑا سا پگڑ، بارود، بندوق اور تار تار لباس ہے تو کیا لازم ہے کہ کل بھی ایسا ہو؟ یہ ایک پامال شدہ ثقافت کی نشانیاں تو ہو سکتی ہیں۔ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
آخر افغان عورتوں اور افغان پھول سے بچوں کی قسمت میں دربدری اور بھوک کیوں ہو؟ افغانستان میں پختہ سڑکیں ہونی چاہئیں۔ جدید سکول کالج اور یونیورسٹیاں ہونی چاہئیں۔ شاپنگ مال اور پلازے تعمیر ہونے چاہئیں۔ جدید ہسپتال ہونے چاہئیں۔ کارخانے فیکٹریاں اور صنعتی پلانٹ لگنے چاہئیں ۔بسیں کاریں اور ریل کی سہولتیں ہونی چاہئیں۔ افغانستان میں کالج اور یونیورسٹیاں ہونی چاہییں اور ان کالجوں اور یونیرسٹیوں سے فارغ ہو کر نکلنے والے طلبہ و طالبات کو آکسفورڈ اور ہارورڈ میں اعلیٰ تعلیم کیلئے جانا چاہیے۔۔ ان ساری چیزوں میں کچھ بھی خلافِ اسلام نہیں۔
رہا افغان علما کا یہ موقف کہ فرنگیوں کی زبان اور علوم جائز نہیں تو ان کے اساتذہ، بڑے بڑے دیوبندی علماء کرام، انگریزی سیکھنے کو لازمی قرار دے چکے ہیں۔ آج سے نوے سال پہلے سید سلیمان ندوی کے وہ خطبے جو انہوں نے مدراس میں دیئے شائع ہوئے۔ اس کتاب کا نام خطبات مدراس ر کھا گیا۔ نامور عالم دین اور کئی مشہور کتابوں کے مصنف مولانا مناظر احسن گیلانی نے اس کتاب کا دیباچہ لکھا۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ علماء پر انگریزی سیکھنا لازم ہے۔ اگر یہ آج سے نوے سال پہلے کی تلقین ہے توآج یہ ضرورت کس قدر شدید ہو گی!
یہ کسی آسمانی کتاب میں نہیں لکھا ہوا کہ افغانستان میں بندوق اور بارود کے سوا کچھ نہ ہو، افغانستان کو ایک جدید ریاست بننا ہے۔ جدید زندگی کی سہولیات، خدا کی نشانیاں ہیں۔ افغانوں کو بھی باقی دنیا کی طرح یہ حق حاصل ہے کہ وہ جدید سہولیات سے آراستہ زندگی گذاریں اور افغانستان کو ایک جدید، بہتر اور پرامن افغانستان بنانے کی سب سے زیادہ ذمہ داری، افغانوں کے بعد پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔
http://columns.izharulhaq.net/2010_08_01_archive.html
“