نام محمد بشیر، گاؤں پیر کوٹ، تحصیل ہجیرہ، ضلع راولا کوٹ۔ لیکن ٹھہریے۔ اُدھر دیکھئے، خیبر پختون خواہ شکایت کر رہا ہے۔
خیبرپختون خواہ کا شکوہ یہ ہے کہ نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی
National Disaster Management Authority
(
این ڈی ایم اے) ایک قومی ادارہ ہے لیکن اُسکے طرزِ عمل سے جانبداری کی بو آرہی ہے۔ اکلوتے فرزند کی شدت پسندوں کے ہاتھوں شہادت پر بہادری اور صبر دکھانے والے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار نے تو صاف کہا ہے کہ این ڈی ایم اے سیلاب زدگان میں امدادی اشیاء بانٹنے کے ضمن میں خیبرپختون خواہ کو محروم رکھ رہا ہے اور اس کا زور کسی ’’اور‘‘ جانب ہے! پشاور کی وادی میں سات لاکھ افراد تو اٹھائیس جولائی ہی کو بے گھر ہو گئے تھے لیکن این ڈی ایم اے ہوائی جہازوں کی مدد سے امدادی اشیاء ملتان اور سکھر بھیجتا رہا۔ خیبرپختون خواہ کے پاس جو دستاویزات ہیں وہ بتا رہی ہیں کہ بیس بڑے جنریٹر اور دواؤں کی بڑی مقدار 4 اگست کو سکھر اور ملتان بھیجی گئی، پھر 7 اگست کو لوبیا کے ایک سو چالیس بیگ، دودھ کے ایک سو پچاس کارٹن، چاول کی ایک سو بوریاں، دال کے دو سو چوبیس بیگ، خوردنی تیل کے ایک سو کنستر، پانی کی بوتلوں کے نوے کارٹن اور اس کے علاوہ خیمے، ترپال اور ادویات ملتان روانہ کی گئیں۔
خیبرپختون خواہ کے الزام کے جواب میں این ڈی ایم اے نے اپنا مؤقف پیش کیا۔ پھرخیبر پختون خوہ کی صوبائی حکومت نے جواب دیا‘ اس باہمی مکالمے اور مجادلے میں سیلاب زدگان پر کئی دور آئے اور گئے …؎
وہ شاخِ گل پہ زمزموں کی دھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کے کارواں گزر گئے
ایک صوبائی حکومت این ڈی ایم اے پر اتنے سنجیدہ الزامات لگا رہی ہے۔ اسکی کیا وجہ ہے؟ یہ معلوم کرنے کے لیے ہمیں تھوڑی دیرکو اپنے پڑوسی ملک بھارت جانا پڑیگا۔
دسمبر 2005 میں پارلیمینٹ کے ایکٹ کے ذریعے بھارت کا این ڈی ایم اے (یعنی آفات سے نمٹنے والا قومی ادارہ) وجود میں آیا۔ وزیراعظم کو اس کا چیئرمین بنایا گیا۔ اسکے نیچے نائب چیئرمین اور آٹھ ممبر بنائے گئے جو وفاقی وزراء کی سطح کے برابر رکھے گئے، جو بات غور کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ان آٹھ ممبران کو ملک کے مختلف حصوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ساتھ ہی صوبائی سطح پر ادارے بنائے گئے اور ہر صوبائی وزیر اعلیٰ کو اس کا چیئرمین بنایا گیا۔ پھر اس ادارے کو ضلعی سطح پر منظم کیا گیا۔ ساتھ ہی مرکزی سطح پر ادارے کو ’’فورس‘‘ دی گئی جس میں آٹھ بٹالین شامل ہیں۔ کل افرادی قوت ایک ہزار سے زیادہ کارکنوں کی ہے جن میں انجینئر، ٹیکنیشن، ڈاکٹر اور دیگر ماہرین شامل ہیں۔ یہ فورس ملک میں نو مختلف مقامات پر متعین ہے۔ سیلاب، زلزلہ یا کسی دوسری آفت سے نمٹنے کیلئے مرکز کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے اپنے علاقے پر متعین فورس کام فوراً شروع کر دیتی ہے۔ نو کے نو مقامات ضروری سامان سے لیس ہیں، دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بھارت کی اس این ڈی ایم اے میں دس میں سے صرف دو افراد ریٹائر جرنیل ہیں باقی سب سول ماہرین ہیں۔ ایک ممبر صوبائی اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔ ان میں سے ہر ممبر اپنے اپنے شعبے میں ساری زندگی کام کر کے عروج پر پہنچا ہے۔ کوئی سائنس دان ہے کوئی انجینئر اور کوئی کسی اور شعبے کا ماہر۔ اب فرض کریں بہار کے صوبے میں سیلاب یا زلزلہ آتا ہے سب سے پہلے تو اُن نو مقامات میں سے نزدیک ترین مقام پر متعین فورس حرکت میں آ جائیگی اور چند گھنٹوں کے اندر ابتدائی کام شروع ہو جائیگا۔ ممبران میں سے جو ممبر بہار کے علاقے کا ذمہ دار ہے وہ دہلی سے چل پڑیگا۔ اُدھر صوبے میں وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں صوبائی ڈی ایم اے متحرک ہو جائیگی۔
اب آپ پاکستان واپس تشریف لے آئیں۔ 2005 میں زلزلہ آیا تو اس سے نمٹنے کیلئے زلزلے کا محکمہ
ERRA
وجود میں آیا جسے ایک جرنیل کے ماتحت رکھا
گیا۔ 2007 میں ایک آرڈیننس (ایکٹ نہیں) کے ذریعے این ڈی ایم اے (یعنی آفات سے نمٹنے کیلئے قومی ادارہ) بنایا گیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا زلزلے سے نمٹنے کیلئے ایک الگ ادارہ
(ERRA)
اور باقی آفات سے نمٹنے کیلئے ایک الگ ادارہ این ڈی ایم اے ہو گا؟ عقل کہتی ہے کہ زلزلے والے ادارےہی کو این ڈی ایم اے میں تبدیل کر دینا چاہیے تھا۔
صوبائی سطح پر بھی یہ ادارے بنانے کا اعلان کیا گیا لیکن رفتار یہ ہے کہ دو سال بعد 2009 کی رپورٹ جو 2010 میں سامنے آئی بتا رہی ہے کہ صوبائی اور ضلعی سطح پر این ڈی ایم اے کے دفاتر قائم کرنے کیلئے ’’نئی تاریخ‘‘ یکم جولائی 2009 مقرر کی گئی۔ پاکستان کا سارا این ڈی ایم اے ایک اور صرف ایک ریٹائرڈ جرنیل کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہی چیئرمین ہیں اور وہی سب کچھ ہیں۔ سرکاری ویب سائٹ پر اُنہیں کی تصویر ہے اور انہیں کے کوائف اور تمغوں کا ذکر ہے۔ آج اگر این ڈی ایم اے میں، پاکستان کے ہر علاقے کیلئے ذمہ دار ممبر ہوتا اور صوبائی سطح پر وزیر اعلیٰ سربراہ ہوتا تو جو لڑائی خیبرپختون خواہ اور این ڈی ایم اے کے درمیان ہو رہی ہے وہ نہ ہوتی۔ ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ این ڈی ایم اے کے صوبائی ادارے کیا کر رہے ہیں؟ خیبرپختون خواہ میں کام کرنیوالی این ڈی ایم اے کی شاخ صوبائی وزیر اعلیٰ کے ماتحت کیوں نہیں؟ آخر صوبوں کو کب تک سوئی سے لے کر خیمے تک وزیراعظم اور این ڈی ایم اے کے جرنیل صاحب کی طرف دیکھنا پڑیگا۔ این ڈی ایم اے نے وزیراعظم کو خوش کرنے کیلئے ملتان کو زیادہ اشیاء دیں یا نہیں، یہ سوال ہی اس لئے اٹھا ہے کہ صوبائی حکومتیں بے بس ہیں۔ اُدھر شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ مرکز پنجاب کیلئے کچھ نہیں کر رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ادارے مضبوط نہیں ہو رہے، کوئی ادارہ بنتا بھی ہے تو ون مین شو ہوتا ہے۔ این ڈی ایم اے ون مین شو ہے‘ اسی لئے تو کینیڈا کے ایک پاکستانی سلیمان مہتاب نے دو دن پہلے یہ ہوشربا انکشاف کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی مدد سے اُس نے دس ماہ لگا کر اور پانچ سو ماہرین کی مدد سے فائر سیفٹی یعنی آگ لگنے کے حوالے سے جو پالیسی رپورٹ پیش کی اور جس میں موجودہ سسٹم کو بہتر کرنے کیلئے تجاویز دی گئیں وہ این ڈی ایم اے کے سابق چیئرمین جنرل ریٹائرڈ فاروق احمد خان نے کوئی وجہ بتائے بغیر مسترد کر دی۔ کینیڈا کے اس پاکستانی ماہر کا کہنا ہے کہ اگر یہ رپورٹ نافذ ہو جاتی تو مارگلہ کے جہاز کے حادثے کے بعد قوم اتنی بے بسی کا شکار نہ ہوتی۔
اور اب سر دُھنیے کہ زلزلے کے ادارے اور این ڈی ایم اے کے بعد ایک تیسرا ادارہ بھی قائم کیا جا رہا ہے! میاں نواز شریف نے، وزیراعظم کے بقول، تجویز دی ہے کہ متاثرین کی بحالی کیلئے ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس پر ملکی اور عالمی سطح پر اعتماد کیا جا سکے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ این ڈی ایم اے، جسے غیر ملکی ادارے کروڑوں اربوں ڈالر کی امداد دے رہے ہیں، خدانخواستہ اعتماد کے قابل نہیں؟ اس کا جواب تو این ڈی ایم اے ہی دے سکتا ہے، فائدہ یہ ہے کہ جتنے ادارے ہونگے اتنے ہی سربراہ ہونگے اور ’’اپنے‘‘ لوگ کھپائے جا سکیں گے! رہے سیلاب زدگان ۔۔۔ تو انکی مدد کیلئے ان تین کے علاوہ ایک اور ادارہ بنایا جا سکتا ہے! جو ادارے پہلے سے بنے ہوئے ہیں انکی کارکردگی دیکھنے کیلئے آپ کو محمد بشیر کی کہانی سننا ہو گی۔ گاؤں پیر کوٹ تحصیل ہجیرہ ضلع راولا کوٹ، 2005 کے زلزلے میں اس کا مکان پورا گرا گیا اُسے پچیس ہزار روپے دے گئے۔ دو سال بعد دوسری قسط پچھتر ہزار روپے ملی۔ ایک لاکھ میں مکان کس طرح بنتا؟زلزلے سے نمٹنے والا ادرہ
(ERRA)
تیسری اور آخری قسط پچاس ہزار روپے کی دے نہیں رہا۔ اس ادارے کے ایک بہت بڑے افسر میرے شناسا تھے۔ فرض کریں ان کا نام اختر یا احسن تھا، میں بشیر کو ان کی خدمت میں لے گیا۔ انہوں نے کہا کہ انکے پی اے سے رابطہ کیا جائے۔ جب صاحب ہی نے گھاس نہ ڈالی تو پی اے کیا اہمیت دیتا۔ کہتے ہیں کہ سانپ، مگرمچھ اور بیوروکریٹ کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ ویسے تو بچھو بھی کسی کا دوست نہیں ہوتا مگر بچھو کا نام اس فہرست میں اس لئے نہیں ہے کہ اُسکے کاٹے سے موت واقع نہیں ہوتی!
یہ ایک بشیر، ایک پیر کوٹ اور ایک راولا کوٹ کا قصہ نہیں، یہاں پوری قوم بشیر بنی ہوئی ہے۔ کیا آپ یقین کرینگے کہ زلزلہ زدگان کو امداد ’’دینے‘‘ والا یہ ادارہ اپنے افسروں کو ایک سال میں آٹھ اضافی تنخواہیں ’’بونس‘‘ کے طور پر دیتا ہے‘ یعنی ایک سال میں بیس ماہ کی تنخواہیں! گاڑیوں کی فوج ظفر موج اسکے علاوہ ہے۔ یہ سب کچھ اُس ’’امداد‘‘ سے ہو رہا ہے جو زلزلہ زدگان کیلئے دی گئی تھی!
این ڈی ایم اے اپنے ملازمین کو کتنی اضافی تنخواہیں بونس کے طور پر دے رہا ہے اور کتنی لینڈ کروزر اور دوسری قیمتی گاڑیاں سیلاب زدگان کی ’’مدد‘‘ کیلئے افسرانِ کار کو دی گئی ہیں؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں! ہو سکتا ہے بونس نہ دیا جا رہا ہو۔ ویسے بونس اُن اداروں میں دیا جاتا ہے جہاں پیداواری کام ہو رہا ہو۔
جہاں زلزلے سے نمٹنے کے بجائے زلزلہ زدگان سے نمٹا جا رہا ہو، وہاں پیداواری کام نہ بھی ہو تو بونس کا جواز تو آخر بنتا ہے! آئیے دعا کریں کہ پیر کوٹ کے محمد بشیر کا محل ایک لاکھ روپے میں بن جائے اور ’’ایرا‘‘ کسی طرح تیسری قسط دینے سے بچ جائے تاکہ کسی مستحق کو اضافی تنخواہ یا بونس دیا جا سکے!
http://columns.izharulhaq.net/2010_08_01_archive.html
“