میں نے اخبار میں پڑھا تو یقین آیا اور اطمینان ہوا کہ اللہ کے دین کے سپاہی سو نہیں رہے ،جاگ رہے ہیں۔
حضرت مولانا نے جو وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ ہیں فرمایا کہ ’’ نیلو فر بختیار کا بیان اسلام اور آئینِ پاکستان سے غداری کے مترادف ہے۔ اس خاتون کو سینٹ کارکن ہونے کا کوئی حق نہیں اس کی رکنیت فوراً ختم کردینی چاہیے‘‘۔
مفتی صاحب نے بھی انہی خطوط پر قاف لیگ کی اس خاتون کی مذمت کی اور فرمایا کہ دستوری اور اخلاقی دونوں اعتبار سے نیلو فر بختیار پارلیمنٹ کی رکن ہونے کا حق کھو بیٹھی ہیں۔
خاتون نے وضاحت پیش کی ہے کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس نے صرف یہ کہا تھا کہ اگر محکمۂ سیاحت کے سرکاری ہوٹلوں میں شراب پر پابندی ہے اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں یہ پابندی نہیں ہے تو یہ قانون کا مساوی نفاذ نہیں ہے لیکن میں ذاتی طورپر یہ وضاحت قبول کرنے کے حق میں نہیں۔ ایک عورت کا بیان دو علماء دین کے بیان پر کس طرح حاوی ہوسکتا ہے؟ مجھے اطمینان ہوا ہے کہ اللہ کے دین کے یہ بے لوث اور بے غرض سپاہی جاگ رہے ہیں’’ ملک کا اسلامی تشخص مجروح‘‘ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دینگے۔
یُو ٹیوب پر لاکھوں کروڑوں افراد نے دیکھا ہے اور ہر روز دیکھ رہے ہیں کہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کس حالت میں تقریر کر رہے ہیں۔ وہ بار بار اٹکتے ہیں الفاظ اُنکی زبان سے لرز لرز کر نکل رہے ہیں۔ تقریر کرتے کرتے بار بار خاموش ہوجاتے ہیں۔ خاموشی کے یہ وقفے طویل سے طویل تر ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ لڑ کھڑا کر گرا ہی چاہتے ہیں کہ ہر طرف سے خدام اور جاںنثار بھاگ کر آتے ہیں اور صوبے کے حاکمِ اعلیٰ کو تھام لیتے ہیں۔ اسلام کے سپاہی چوکس ہیں‘ وہ اگر اس حرکت پر گرفت نہیں کرتے تو صاف ظاہر ہے کہ یہ حرکت خلافِ اسلام نہیں۔ پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر جرم کا عملی ارتکاب کرنیوالا مر د ہو اور برسرِ اقتدار ہوتو مذہب کے سپاہیوں کا فیصلہ اور ہوتا ہے اور اگر خاتون ہواور اس نے عملی ارتکاب نہ کیا ہو، صرف بیان دیا ہو، اور پھروہ برسرِ اقتدار بھی نہ ہو تو اس سے مملکتِ خداداد کو جو خطرات پیش آسکتے ہیں ان کا تصور بھی محال ہے۔ اسلام کے سپاہی چوکس ہیں۔ وہ ایسا نہیں ہونے دینگے۔
کچھ جاہل لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں پنچایتیں پانچ پانچ دس دس سال کی بچیوں کی شادیاں ساٹھ ساٹھ سال کے بوڑھوں سے کرنے کا جو حکم دیتی ہیں تو یہ اسلام کے اصولوں کیخلاف ہے۔ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ بلوچستان میں عورتوں پر کتے چھوڑے گئے اور پھر انہیں زندہ دفن کردیا گیا۔ سندھ میں کاروکاری کے حوالے سے قبرستان ہی الگ بنے ہوئے ہیں‘ جہاں مقتول عورتوں کو دفن کیا جاتا ہے۔ میانوالی کے علاقے میں ونی کی رسم ہے جسکی رُو سے جھگڑا چکانے کیلئے نابالغ بچیوں کے نکاح بوڑھوں سے کردئیے جاتے ہیں‘اگر یہ سب خلاف اسلام ہوتا تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ حضرت مولانا اور حضرت مفتی صاحب خاموش رہتے۔ حضرت مفتی صاحب تو عام گفتگو بھی قرأت میں فرماتے ہیں اور اٹک پار نکلا ہوا چاند ہزاروں لوگوں نے دیکھا ہو تب بھی وہ نہیں مانتے اس لیے کہ اس میں اسلام کو خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ رہے بچیوں کے نکاح اور خواتین کے قتل، تو وہ اگر خلافِ اسلام ہوتے تو حضرت ضرور فتویٰ دیتے!
مقتدر طبقات سے تعلق رکھنے والے با اثر افراد آئے دن کروڑوں روپوں کے قرضے معاف کرالیتے ہیں۔ یہ قرضے ٹیکس ادا کرنیوالے غریب عوام ادا کرتے ہیں۔ دوسری طرف کوئی سفید پوش بنک کے چند سو یا چند ہزار روپے واپس کرنے میں تاخیر کا مرتکب ہوجائے تو پولیس اُسکے رشتہ داروں کا ناطقہ بند کردیتی ہے۔ گھر قرقی ہوجاتا ہے اور سامان اور بچے سڑک پر پھینک دئیے جاتے ہیں۔آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ ظلم اور یہ امتیازی سلوک اگر اسلام کیخلاف ہوتا تو دین کے یہ سپاہی آرام سے بیٹھے رہتے؟ نہیں آپ یقین کیجئے کہ یہ سب کچھ اسلام اور آئینِ پاکستان کے عین مطابق ہے اسی لیے تو حضرت خاموش ہیں!
لاکھوں ہاریوں کی بیویاں اور بیٹیاں زمینداروں کی حویلیوں میں قید ہیں‘اینٹوں کے بھٹوں میں نسل در نسل غلام بیگار میں مصروف ہیں۔ وہیں پیدا ہوتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔ جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنے کیلئے جلتے انگاروں پر چلایا جاتا ہے۔ عورتوں کو وراثت میں اُن کا جائزحصہ کوئی نہیں دیتا۔ لاکھوں بچے اور بچیاں زیورِ علم سے محروم ہیں۔ پھول سے رخساروں والے بچے ریستورانوں میں برتن مانجھ رہے ہیں یا ورکشاپوں میں مشقت اور زیادتی کا شکار ہورہے ہیں جبکہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا تھا’’ علم حاصل کرنا ہرمسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘ عورتیں مزاروں کی مٹی چاٹ رہی ہیں یا خواہشِ اولاد پر’’ روحانی شخصیات‘‘ کے نرغے میں ہیں۔ جرائم پیشہ ملنگ دندناتے پھر رہے ہیں اور تقدیس کے لبادے اوڑھے ہیں‘ ٹیکس چوری کرنیوالے، ملاوٹ کرنیوالے ، جعلی دوائیں بنانے اور فروخت کرنیوالے، چینی اور آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرنیوالے، اقربا پروری اور سفارش کے دروازوں سے داخل ہوکر حقداروں کا حق مارنے والے سب کھلے عام پھر رہے ہیں۔ مفتی اور مولانا ان سب سے کوئی تعرض نہیں کرتے۔یقینا یہ سب کچھ اسلام میں جائز ہوگا ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ عبائوں میں ارتعاش نہ پیدا ہوتا۔ دستاریں غصے سے کانپنے نہ لگ جاتیں، عصا ہوا میں نہ اُٹھ جاتے اور خضاب کے رنگ دھنک پر نہ جا لگتے!
پس جو جانتا ہے وہ تو جانتا ہے اور جونہیں جانتا وہ جان لے کہ حضرت کے اسلام میں اجتماعی عدل کی کوئی گنجائش نہیں۔ طلبِ علم بیکار ہے، عورت کھاد اور بنولہ کی قسم کی جنس ہے‘ لڑکیاں لینے دینے کی چیز ہیں‘ ہاری مجرم ہیں‘ چیف منسٹر مقدس ہیں خواہ لڑ کھڑا کر گر رہے ہوں۔ہر وہ جرم جائز ہے جو اہلِ اقتدار کرتے ہوں اور ہر وہ جرم قابلِ گرفت ہے جو حکومت سے محروم افراد سے سرزد ہو، مرد پر سات خون معاف ہیں۔ عورت کی نگرانی واجب ہے۔ کہیں مذہب کو نقصان نہ پہنچا دے آخر پسلی سے نکلی ہے۔ناقص العقل ہے۔ خاص طورپر اگر یہ کہہ اٹھے کہ میں فلا ں سے شادی نہیں کرناچاہتی اور فلاں سے کرناچاہتی ہوں تو اس بات کا پورا امکان ہے کہ زمین کسی سیارے سے ٹکرا جائے۔
http://columns.izharulhaq.net/2010_10_01_archive.html
“