لاکھ مخالفت کے باوجود، یہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے ایسی بات کہی ہے جو متوازن ہے اور جس بات کی بنیاد توازن پر ہو، اسے سننا چاہئے اور اس پر غور بھی کرنا چاہئے۔
بدقسمتی سے ہم آج دو انتہاﺅں کا شکار ہیں اور سچائی ان دو انتہاﺅں کے درمیان چھپ گئی ہے۔ ایک طرف وہ فریق ہے جو امریکہ پر کئے جانےوالے کسی اعتراض کو تسلیم نہیں کرتا، ہر خرابی کا ذمہ دار مذہبی حلقوں کو گردانتا ہے اور یہ ماننے کےلئے تیار نہیں کہ اگر ہم امریکہ کی چند باتیں مانتے اور اکثر باتیں نہ مانتے تو اس میں کوئی برائی نہیں تھی۔ وہ یہ بھی تسلیم نہیں کرتے کہ جنرل مشرف اور مسلم لیگ ق کی مشترکہ حکومت نے امریکہ کے وہ مطالبات بھی تسلیم کر لئے جن کی توقع خود امریکی بھی نہیں کر رہے تھے۔ دوسرا فریق ایک اور انتہا پر کھڑا ہے۔ اسکے نزدیک دھماکے کرنےوالے سب کے سب بھارتی اور اسرائیلی ہیں۔ وہ ایک لمحے کےلئے بھی اس موضوع پر بات کرنا تو درکنار، سوچنا بھی گوارا نہیں کر رہے کہ اگر اسامہ سے لےکر عمر خالد شیخ تک سب کے سب مطلوب افراد پاکستان سے برآمد ہونگے تو دنیا پاکستان کے بارے میں منفی رائے ضرور قائم کرےگی اگر اس فریق سے کہا جائے کہ دہشتگرد بے گناہ پاکستانیوں کو آخر کیوں مار رہے ہیں تو ان کا ایک ہی جواب ہے کہ آخر امریکہ بھی تو ڈرون حملے کر رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمن بوجوہ کسی سنجیدہ اور متین تعلیم یافتہ پاکستانی کو کبھی اچھے نہیں لگے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ فارمولا زبان زد عام و خاص تھا کہ جے یو آئی وہ مچھلی ہے‘ جو اقتدار کے پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتی، اقتدار کا پانی جتنا بھی ٹھہرا ہوا, متعفن اور سڑاند والا ہو اس نے اسکے اندر ہی رہنا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اقتدار سے نکل کر اور واپس نہ آ کر اپنے ناقدین کو حیران کر دیا۔ خیر یہ تو ایک جملہ، معترضہ تھا۔ ہم بات مولانا کے اس بیان کے بارے میں کر رہے تھے جو انہوں نے دو دن پیشتر علما کنونشن پشاور میں تقریر کی صورت میں دیا اور ایک بار پھر اپنے مخالفین پر (جن میں یہ کالم نگار بھی شامل ہے) ثابت کر دیا کہ وہ سیاسی حرکیات
Dynamic
کو بروئے کار لاتے ہوئے تجزیہ کرنا جانتے ہیں اور خوب جانتے ہیں۔ مولانا نے جہاں حکومت کی امریکہ نوازی پر کڑی تنقید کی اور جہاں امریکی عزائم کو بے نقاب کیا، وہاں یہ بھی کہا کہ :
-1
ملک میں حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ داڑھی اور پگڑی پہننے والے بھی محفوظ نہیں رہے۔۲
چونکہ دہشت گردی کی کارروائیاں اسلامی مدارس سے جوڑی جا رہی ہیں اس لئے عسکریت پسندی اور لاقانونیت کی موجودہ لہر کے اثرات، مذہبی حلقوں پر براہ راست پڑ رہے ہیں۔
-3
مولانا نے مسلح اور عسکری جدوجہد کے بجائے سیاسی جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا اور
-4
یہ دعویٰ کیا کہ چونکہ ان کی جماعت صرف سیاسی اور
پارلیمانی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اس لئے اس نے مسلح جدوجہد کو ہمیشہ غلط قرار دیا۔
گویا مولانا نے یہ تسلیم کیا کہ ملک میں ایک مسلح جدوجہد جاری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ زمینی حقیقت برملا کہتی ہے کہ مسلح جدوجہد جاری ہے، دوسرا یہ کہ اسی مسلح جدوجہد کے وقوع پذیر ہونے پر غور اسی وقت ہو سکتا ہے۔ جب ایک چیز کے وجود کا اعتراف کیا جائے۔ مولانا نے اس حقیقت کو تسلیم کر کے ذہنی بلوغت کا ثبوت دیا ہے۔ اسکے مقابلے میں جب حقائق کا ادراک کرنےوالا طبقہ ان مسخرہ نما رہنماﺅں کی دھواں دار تقریریں سنتا ہے جو سامنے نظر آنےوالے حقائق کا بھی انکار کرتے ہیں تو وہ سوائے ہنسنے اور ان سے ہمدردی کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔رہا مولانا کا یہ دعویٰ کہ انکی جماعت نے ملک کے اندر ہونےوالی مسلح جدوجہد کو ہمیشہ غلط قرار دیا ہے تو یہ ایک متنازعہ بات ہے۔ اسکی وجہ ہماری یادداشت کا ناقص ہونا بھی ہو سکتا ہے لیکن مولانا یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اکثر و بیشتر ذو معنی الفاظ اور سیاسی ابہام ہی انکی شناخت رہے ہیں اور بہت کم مواقع پر وہ بات کو برملا انداز میں بیان کرتے ہیں اور چونکہ وہ عربی کے عالم ہیں اسلئے یہ بھی جانتے ہیں کہ الشّاذُ کالمعدوم! یعنی جو بہت ہی کم ہو، وہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے! انتہائی اہم نکتہ جو مولانا نے بیان کیا یہ ہے کہ موجودہ دہشت گردی کے اثرات مذہبی حلقوں پر پڑ رہے ہیں اس لئے کہ عسکریت پسندی کے ڈانڈے مدرسوں سے ملائے جا رہے ہیں۔ یہ ہے وہ اصل بات جس سے مولانا اور انکے مکتب فکر کے دوسرے رہنما اب سے پہلے بے نیاز رہے ہیں اور تجاہل عارفانہ کی پالیسی اختیار کئے رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عسکریت پسند ایک خاص مکتب فکر سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس مکتب فکر نے ہمیشہ سکوت سے کام لیا اور اپنے آپ کو ان کارروائیوں سے بری الذمہ نہ قرار دیا۔ یہاں تک کہ ایک معروف مذہبی سکالر سے جب دہشت گردی کی کارروائیوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے ٹیلی ویژن پر جواب میں یہ کہا کہ یہ فتنوں کا زمانہ ہے اور اس زمانے میں سکوت ہی بہتر ہے۔لیکن کراچی کا جوڑیا بازار دہشت گردی کا شکار ہئوا تو سکوت کی پالیسی بھک سے اُڑ گئی اور دھئواں دار پریس کانفرنسیں کی گئیں۔ ستم ظریفی کا ارتکاب یہاں تک کیا گیا کہ جب سوات میں قبروں سے لاشیں نکال کرلٹکائی گئیں تب بھی مذمت کی گئی نہ یہ وضاحت کی گئی کہ مکتب فکر کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مولوی فضل اللہ جیسے عسکریت پسند عالم دین نہیں تھے۔لیکن اس قسم کے لوگ ایک مکتب فکر کے علم بردار بن کر اُس مکتب فکر کو بدنام کرتے رہے۔ دہشت گردی کی کارروائیاں اس مکتب فکر کے ساتھ اس حد تک وابستہ ہو گئیں کہ حریف مکتب فکر بھی منظم ہو کر اور خم ٹھونک کر باہر نکل پڑا اور اس نےمطالبہ کیا کہ مزاروں پر حملےکرنے والے مکتب فکر کو روکا جائے۔
کستان کسی ایک مکتب فکر کا ملک نہیں، سارے مکاتب فکر کو اس میں رہنے کا حق ہے۔ یہ مکاتب فکر، ایک دوسرے کو الزام دینے کے بجائے یہ بھی سوچیں کہ پاکستان کی سلامتی سب سے زیادہ ضروری ہے۔ پاکستان ہے تو ہم سب بھی ہیں اور ہمارے مکاتب فکر بھی ہیں۔مسلّح جدو جہد کرنے والے عسکریت پسند پورے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ چند بندوق بردار ہاتھوں کی وجہ سے سارے مدارس بدنام ہو رہے ہیں۔ مولانا نے مسئلے کی نشاندہی کی ہے لیکن انکی ذمہ داری یہاں ختم نہیں ہو جاتی۔ لازم ہے کہ مولانا اپنی اس نشاندہی کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مولانا اپنے مکتب فکرکے تمام بڑے بڑے رہنماﺅں اور علماءکو اکٹھا کریں اور انہیں اس حقیقت کا احساس دلائیں کہ چند عسکریت پسندوں کی کارروائیوں اور چند غیر سند یافتہ نیم علماءکے اقدامات کی وجہ سے پورا مکتب فکر بدنام ہو رہا ہے اور زد مدارس پر پڑ رہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے فرقہ وارانہ منافرت میں کمی واقع ہو گی۔
http://columns.izharulhaq.net/2011_05_01_archive.html
“