اُس سے تعارف اُس وقت ہوا جب چھ سال پہلے میں کچھ عرصہ کیلئے انگلستان کے ایک خوبصورت قصبے گلو سٹر میں مقیم تھا۔پہلی دفعہ اسے مسجد میں دیکھا۔سفید فام انگریز! جسے ہم پاکستانی عام طور پر گورا کہتے ہیں۔وہ بہت انہماک سے نماز پڑھ رہا تھا۔ میں اسے ملا اور چند دنوں میں ہم دوست بن چکے تھے۔اکثر اسکی سفیدفام بیوی بھی مسجد میں اسکے ساتھ ہوتی۔اس نے بتایا کہ دونوں ایک ساتھ اسلام کی پناہ میں داخل ہوئے تھے۔ بیوی ڈاکٹر تھی اور وہ خود بزنس مین۔
ایک ماہ پہلے اس کا فون آیا کہ وہ دارالحکومت کے فلاں ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہے۔میں نے اپنے گھر کا پتہ بتایا اور فوراَ آنے کی فرمائش کی لیکن اس کا اصرار تھا کہ میں اسکے ہوٹل آﺅں کیونکہ اس کے پاس وقت کم تھا۔ شام کو اس کی فلائٹ تھی۔ وہ گلوسٹر واپس جارہا تھا۔میں تین گھنٹے اسکے پاس بیٹھا ۔ ہم نے دنیا جہان کی باتیں کیں۔ جب میں نے پوچھا کہ وہ پاکستان کیوں آیا تو پہلے تو وہ طرح دے گیا لیکن جب میں نے اصرار کیا اور اس نے لگی لپٹی رکھے بغیر وجہ بتائی تو سچی بات یہ ہے کہ میرے ہوش اُڑ گئے ۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کہوں۔
اس نے بتایا کہ وہ پاکستان مستقل رہنے کےلئے آیا تھا۔ لیکن چھ ماہ یہاں گذارنے کے بعد اپنا ارادہ بدل کر واپس جا رہا ہے۔ ا سکی تفصیل یہ تھی کہ وہ کئی سال سے کسی مسلمان ملک میں آباد ہونے کا سوچ رہا تھا۔ اسکی نگاہِ انتخاب پاکستان پر اس لئے پڑی کہ یہ واحد مسلمان ملک تھا جو ایٹمی طاقت تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اسلامی دنیا میں یہ ملک سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہو گا ۔ یہ ترقی اسکے اندازے کےمطابق ذ ہنی بھی ہوگی اور معاشی بھی۔
وہ یہاں آگیا۔ اس نے اپنا کاروبار بھی شروع کیا لیکن افسوس اسکے سارے اندازے غلط اور سارے خواب جھوٹے نکلے۔ جب وہ اپنی ناکامی کی داستان سنا رہا تھا تو مجھے نظیری نیشا پوری کا شعر یاد آرہا تھا :
یک فالِ خوب راست نہ شُد بر زبانِ ما
شومئی چغد ثابت و یُمنِ ہما غلط
یعنی کوئی ایک فال بھی درست نہ نکلی۔ اُلّو کی نحوست تو ثابت ہو گئی لیکن ہما کی برکت والی بات غلط تھی !
پہلا بڑا جھٹکا اُسے اُس وقت لگا جب اس نے اپنی بیوی کی ہمراہی میں لاہور سے پشاور تک سفر کیا۔ مسلمان ہونے کے بعد دونوں میاں بیوی ترکی ، سعودی عرب اور چند دوسرے مسلمان ملکوں میں سیر و تفریح اور مشاہدے کیلئے گئے تھے۔ لیکن پاکستان میں یہ سفر ان کیلئے ایک عجیب و غریب تجربہ تھا جو دلچسپ تو خیر کیا ہونا تھا، خوفناک ضرور تھا جو انہی کی زبانی کچھ یوں تھا :
” ہم جس مسلمان ملک میں بھی گئے ، وہاں میری بیوی کو
نماز پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ ترکی اور سعودی عرب میں میری بیوی مسجد ہی میں نمازیں پڑھتی تھی۔ دوسری خواتین بھی ہر نماز میں موجود ہوتی تھیں۔ برطانیہ کی مسجدوں میں بھی یہی معمول تھا۔ یہاں تک کہ قرطبہ اور غرناطہ کی مسجدوں میں بھی میری بیوی دوسری خواتین کےساتھ نمازیں ادا کرتی رہی۔ پاکستان میں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا اس سے ہم سخت خوف زدہ ہو گئے۔ ہم نے لاہور سے پشاور تک جی ٹی روڈ پر سفر کیا۔ ہم یہ تاریخی شاہراہ دیکھنا چاہتے تھے اور ساتھ ساتھ اپنے بزنس کیلئے کچھ مشاہدہ اور تجزیہ بھی کرنا چاہتے تھے۔ ظہر کی نماز کا وقت ہوا اور ہم ایک مسجد میں رکے ۔ معلوم ہوا کہ مسجد میں خواتین کی نماز کا تصوّر ہی نہیں۔ وضو والی جگہ مردوں سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں کسی عورت کا وضو کرنا ناممکن تھا۔ ہم یکے بعد دیگرے راستے میں سات مسجدوں میں رکے۔ کسی ایک میں بھی خواتین کیلئے نماز پڑھنے کی سہولت نہیں تھی ۔ ترکی میں خواتین مسجد کے ہال ہی میں مردوں کے پیچھے صفیں بنا لیتی ہیں لیکن یہاں وہ بھی ممکن نہ تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ان مسجدوں میں سالہا سال سے کوئی عورت داخل نہیں ہوئی اور اگر ہو جائے تو یہ ایک عجوبہ ہو گا۔
رہے ریستورانوں کے باتھ روم تو وہ اس قدر گندے اور عفونت زدہ تھے کہ وہاں وضو کرنے کے تصور ہی سے روح کانپ جاتی تھی۔ اکثر باتھ روموں کے فرش پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ فلش ٹوٹے ہوئے تھے اور جو سلامت تھے ان میں پانی نہیں تھا۔ کموڈ جن پر بیٹھا جانا تھا ان پر جوتوں کا کیچڑ لگا تھا۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ ان پر پاﺅں کے بل بیٹھا جاتا رہا ہے حالانکہ اس مقصد کیلئے دیسی سٹائل کی ڈبلیو سی موجود تھیں ۔ دنیا کی واحد ایٹمی اسلامی طاقت میں صفائی کے اس ماتمی معیار پر ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ راولپنڈی گذری تو کچھ دیر کے بعد ہم نے اٹک کا پُل پار کیا۔ اٹک پُل سے لے کر پشاور تک میری بیوی کہیں بھی وضو نہ کر سکی اور تیمّم کر کے نماز گاڑی میں سیٹ پر بیٹھ کر پڑھتی رہی۔
یوں تو سارے سفر ہی کے دوران میری بیوی کو ہر جگہ انتہائی ” غور “ سے دیکھا جاتا رہا تاہم اٹک کے پار اس سرگرمی میں اضافہ ہو گیا۔ پشاور سے واپس ہم نے ہوائی جہاز سے آنا تھا۔ پی آئی اے کے ایک اہلکار سے ہم کوئی بات کر رہے تھے۔ آن کی آن میں ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ وہ سب میری بیوی کو اور اسکے لباس کو اس قدر غور سے دیکھ رہے تھے کہ وہ سخت خوفزدہ ہوگئی۔ ایک سمجھ دار اہلکار کا بھلا ہو وہ اس صورت حال میں ہمارا خوف بھانپ گیا اور جلدی سے ہمیں ایک دفتر نما کمرے میں لے گیا۔
ہمیں انگلینڈ میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی ایک بات رہ رہ کر یاد آرہی تھی ۔ ہم نے جب اسلام قبول کیا تو بہت سوں نے کہا کہ ٹھیک ہے تم نے اسلام قرآن پڑھ کر قبول کیا ہے لیکن جب تم مسلمان ملکوں میں جاﺅ گے تو اکثر میں تمہارا تجربہ افسوسناک ہو گا۔
افسوس انکی یہ بات صحیح نکلی۔ ہم اپنا بزنس سنٹر اسلام آباد میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے ایک عمارت اس مقصد کیلئے کرائے پر لی۔ اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ اس قدر عجیب و غریب ہے کہ کبھی کبھی تو خود ہم میاں بیوی کو ناقابل یقین لگتا ہے۔ اگر ایک جملے میں اسے بیان کرنا پڑے تو وہ یہ ہے کہ کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو وعدہ پورا کرتا ہو یا سچ بولتا ہو۔ ہم نے اپنی عمارت میں جن لوگوں سے فرنیچر کا کام کرایا وہ وعدہ کرنے کے باوجود کئی کئی دن غائب ہوتے رہے۔ گارنٹی زبانی تھی۔ یہاں لکھ کر کوئی نہیں دیتا۔ فرنیچر کو چند ہفتوں میں ہی کیڑا لگ گیا۔ وہ لوگ کہتے رہے کہ آکر ٹھیک کر دینگے یا تبدیل کر دینگے لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ تنگ آ کر ہم نے کہنا ہی چھوڑ دیا۔ جس پارٹی نے لوہے کا کام کیا وہ مشہور لوگ ہیں اور ان کا بہت بڑا سیٹ اپ ہے۔ تینوں باپ بیٹے متشرّع ہیں۔ لیکن سارا کام ناقص نکلا۔ گیٹ، بل کھاتی سیڑھیاں، ریلنگ، کچھ بھی اسکے مطابق نہ تھا جو طے ہواتھا۔ پانچ بار آنے کا وعدہ کیا گیاکہ آ کر دیکھیں گے اور نقائص دور کرینگے ۔ لیکن نہ آئے۔ آخری بار میں خود انکے پاس گیا صرف یہ پوچھنے کہ کیا ان کا اس حدیث پر یقین ہے کہ لا ایمانَ لمن لا عہدَ لہُ۔ جو وعدہ خلافی کرے اس کا کوئی ایمان نہیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ میری بات کو سنجیدگی سے سننے کے بجائے وہ لوگ صرف یہ کہتے رہے کہ کوئی بات نہیں دیر سویر ہو ہی جاتی ہے۔ جن ڈسٹری بیوٹرز نے ہمیں مال پہنچانا تھا ان میں سے سوائے ایک کے، کوئی بھی طے شدہ وقت پر نہیں آیا۔
گیس اور بجلی والے، کارپٹ والے، ائر کنڈیشننگ والے، کسی کے ہاں وقت کی پابندی کا تصور ہے نہ وعدہ ایفا کرنے کا۔ یہاں تک کہ نناوے فیصد لوگ ٹیلیفون کرنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ وہ طے شدہ وقت پر نہیں آئینگے اس لئے ان کا انتظار نہ کیا جائے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے اور وعدہ پورا نہ کرنےوالے ان لوگوں نے اپنی دکانوں کے اوپر کلمہ اور قرآنی آیات لکھ کر لٹکائی ہوئی ہیں اور ہاتھوں میں تسبیحیں پکڑی ہوئی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ جمعہ کے خطبات میں ان لوگوں کو معاملات اور حقوق العباد کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا جاتا۔ سارا زور اس بات پر ہے کہ ظاہری شکل و صورت اور لباس کیسا ہو۔ہمیں اس بات پر بھی سخت حیرت ہوئی کہ یہاں بھاری اکثریت مذہب کے معاملے میں سخت پُرجوش اور جذباتی ہے لیکن تقریباَ پچانوے فیصد لوگ قرآن پاک کے مطلب اور مفہوم سے مکمل طور پر نابلد ہیں بلکہ اکثریت پانچ وقت کی نماز میں جو کچھ پڑھتی ہے اس کا مطلب بھی نہیں سمجھتی ! “
میں نے کھانے کی دعوت دی لیکن اس نے ایک المناک اداسی کے ساتھ معذرت کر دی۔ ان کی پرواز کا وقت ہو رہا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ جن کے اسلام میں صرف ظا ہر پر زور ہو اور باطن اسلام سے مکمل طور پر محروم ہو ان کے ہاں کھانا کھانا جائز ہی نہیں!
http://columns.izharulhaq.net/2011_11_01_archive.html
“