ایک چھوٹی سی خبر…. کسی نے دیکھی کسی نے نہیں…. لیکن اگر ذہن کھلا ہو اور نیت صاف ہو تو یہ چھوٹی سی خبر ہی بیماری کی تشخیص بھی ہے اور علاج بھی۔ ہاں‘ اگر کوئی حیرت سے یہ پوچھے کہ کون سی بیماری؟ ہم تو بالکل تندرست ہیں ، بالکل نرول‘ تو پھر علاج کی ضرورت ہے نہ تشخیص کی!
الحمد للہ! پہلے کی نسبت ہماری مسجدیں زیادہ آباد ہیں۔ باریش چہروں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ نقاب اوڑھنے والی اور حجاب کرنے والی بیٹیوں اور بہنوں کا تناسب بڑھ گیا ہے۔ نماز پڑھ کر باہر نکلنے والے لوگ‘ صحن میں دھری ہوئی صندوقچی میں ضرور کچھ نہ کچھ ڈالتے ہیں۔ دعوت دینے والے بھائیوں کے اجتماع آئے دن برپا ہوتے ہیں اور لاکھوں میں حاضری ہوتی ہے۔ احرام کی چادریں‘ ٹوپیاں‘ اور عبائیں‘ تسبیحیں‘ جائے نمازیں اور مسواکیں بیچنے والوں کے ہاں رونقیں لگی ہیں۔ الحمد للہ آج پہلے کی نسبت مذہب کا ہماری زندگیوں میں کہیں زیادہ عمل دخل ہے!
بس ایک ذرا سا مسئلہ ہے۔ سندھ حکومت نے بتایا ہے کہ چالیس ہزار ایسے افراد کا پتہ چلا ہے۔ جو تنخواہیں لے رہے ہیں لیکن کبھی ڈیوٹی پر نہیں آئے۔ لاکھوں افراد اور سینکڑوں ہزاروں کاروباری مراکز بجلی چوری کر رہے ہیں۔ لاکھوں دکاندار اپنی دکانوں کے سامنے فٹ پاتھ یا سڑک استعمال کرکے تجاوزات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ جانتے بوجھتے ہوئے ٹریفک کے قوانین توڑے جا رہے ہیں۔ مسجدوں ہسپتالوں بازاروں کے سامنے گاڑیوں کے پیچھے گاڑیاں کھڑی کرکے دوسروں کو اذیت پہنچائی جا رہی ہے۔ کروڑوں تاجر کم تول رہے ہیں۔ کم ماپ رہے ہیں۔ شے بیچتے وقت شے کا نقص نہیں بتایا جاتا۔ خرید و فروخت میں دھوکے دئیے جا رہے ہیں۔ ایک کلو سیب لیں تو چپکے سے گندے سڑے ہوئے سیب دئیے جاتے ہیں۔ منڈی سے پھلوں کی پوری پیٹی خریدیں تو آدھی خالی نکلتی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاءمیں ملاوٹ کی جا رہی ہے۔ جعلی دوائیں بنائی جا رہی ہیں فروخت کی جا رہی ہیں۔ ہسپتالوں سے ادویات چوری کی جا رہی ہیں۔
کارپوریشنوں اور خود مختار اداروں میں‘ تحصیلوں اور ضلعوں میں‘ صوبائی اور مرکزی دارالحکومتوں میں ہر روز جعلی بل‘ جعلی رسیدیں‘ جعلی وائوچر‘ جعلی گوشوارے‘ جمع کرا کر کروڑوں اربوں روپے کی خیانت کی جا رہی ہے۔ عدالتوں میں ہر روز جھوٹی شہادتیں دی جا رہی ہیں۔ جھوٹی قسمیں کھائی جا رہی ہیں۔ قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر سچ سے انحراف کیا جا رہا ہے اربوں روپے کی رشوت دی جا رہی ہے اور وصول کی جا رہی ہے۔ ہر شہر‘ ہر قصبے ہر گائوں میں‘ دکانوں کارخانوں منڈیوں‘ بندرگاہوں دفتروں میں ٹیکس کی چوری کی جا رہی ہے۔
ہر شخص جھوٹ بول رہا ہے۔ اولاد ماں باپ سے ماں باپ بچوں سے‘ بیوی شوہر سے‘ شوہر بیوی سے‘ ماتحت افسر سے اور افسر ماتحتوں سے جھوٹ بول رہا ہے۔ اسمبلیوں میں‘ بازاروں میں‘ عدالتوں میں گھروں میں‘ یہاں تک کہ جنازہ گاہوں میں جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ رات دن وعدہ خلافی کی جا رہی ہے۔ وقت طے کر کے اسکی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ معاہدوں پر دستخط کرکے انحراف کیا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ کرنے والے باقاعدگی سے مسجدوں میں حاضری دے رہے ہیں۔ برے سے برا مسلمان جمعہ کی نماز ضرور پڑھتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق نوے فیصد پاکستانی جمعہ کی نماز ضرور پڑھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر سات دن کے بعد وعظ سنتے ہیں اور یہ ہفتہ وار وعظ یہ سب لوگ بچپن سے سن رہے ہیں۔ تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ان پر کوئی اثر نہیں ہو رہا؟
یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص پوری زندگی ہر ہفتے یہ نصیحت سنے کہ تم نے جھوٹ نہیں بولنا‘ حرام نہیں کھانا‘ وعدہ خلافی نہیں کرنی‘ دھوکا نہیں دینا‘ جعل سازی نہیں کرنی…. اور اس کے باوجود وہ ایسا کرے! نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ ہفتہ وار وعظ میں اسے یہ تلقین نہیں کی جا رہی۔ اسے کچھ اور بتایا جا رہا ہے! اور اس بات کی گواہی وہ چھوٹی سی خبر دے رہی ہے جس کا ذکر اس تحریر کے آغاز میں ہوا ہے۔
خبر یہ ہے کہ پاکستان کے ایک بڑے شہر میں‘ ایک اسلامی مدرسہ کے ناظم نے پولیس کو رپورٹ کی کہ اس کے مدرسہ میں بچے قرآن پاک کا سبق پڑھ رہے تھے کہ پڑوس کے گھر سے قرآن پاک پر اینٹیں پھینکی گئیں۔ چنانچہ سیکشن 295 بی کے تحت ایف آئی آر کٹ گئی۔ پڑوس کے مکان میں ایک بیوہ رہتی تھی۔ پولیس نے اسکی ملازمہ اور ڈرائیور کو گرفتار کر لیا۔ خبر اس قدر پھیلی کہ میڈیا کا نمائندہ بھی پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا کہ ناظم مدرسہ کے پاس ایک سابق کونسلر بھی موجود ہے ۔ ان دونوں نےمیڈیا کو بتایا گیا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ ناظم صاحب نے مقدمہ واپس لے لیا ہے اور اس کے بدلے میں پڑوسن بیوہ نے ڈیڑھ مرلہ زمین مدرسہ کو دے دی ہے۔ جب اخباری نمائندے نے بیوہ سے ملنا چاہا تو ناظم اور کونسلر نے سمجھایا کہ اسے ملنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ معاملہ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن اخباری نمائندہ نے بیوہ سے ملاقات کی۔ عمر رسیدہ بیوہ زار و قطار روئی اور بتایا کہ ایک مسلمان عورت اپنی جان تو دے سکتی ہے کلام پاک پر اینٹ نہیں پھینک سکتی۔ میں تو ہمیشہ سے اس مدرسہ کو کچھ نہ کچھ دیتی ہی رہی ہوں۔ بات صرف اتنی ہے کہ مدرسہ کے ناظم میری کچھ زمین مدرسے میں شامل کرکے توسیع کرنا چاہتے تھے اور میں اس پر رضامند نہیں تھی۔ یہ مقدمہ اسی سلسلے میں ”تصنیف“ کیا گیا۔
اخباری نمائندے نے یہ بھی معلوم کر لیا کہ پولیس کے فلاں شخص کو ناظم صاحب نے چالیس ہزار روپے اس خدمت کے ”معاوضہ“ کے طور پر دئیے ہیں!
حاشا وکلا۔ مقصود یہ نہیں کہ کسی کی دل آزاری کی جائے۔ اچھے بُرے عناصر ہر شعبے میں ہیں۔ مدارس چلانے والے بھی اسی معاشرے سے ہیں۔ ان میں اچھے بھی ہیں اور خراب بھی‘ جو بات یہاں سمجھ میں آتی ہے یہ ہے کہ ناظم مدرسہ‘ سابق کونسلر اور پولیس…. کوئی بھی جھوٹ اور فریب دہی کو برا نہیں سمجھ رہا۔ اہل محلہ مولوی صاحب کی مذمت تو کریں گے لیکن یہ نہیں کہیں گے کہ جھوٹ بولنے والے یا فریب دہی کرنےوالے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ ہاں اگر بیچارے مولوی صاحب فلم دیکھتے پکڑے جاتے‘ پتلون میں ملبوس دیکھ لئے جاتے‘ ان کی بیگم صاحبہ کے سرسے دوپٹہ اترا ہوا دریافت کر لیا جاتا‘ انکی بیٹی بیچاری اپنے کالج کے کسی تفریحی ڈرامے میں اداکاری کر لیتی تو یہ جرم ناقابل معافی ہوتا اور پورا محلہ فتویٰ دیتا کہ ”فحاشی“ کرنے یا پھیلانے والے مولوی کے پیچھے ہم نماز نہیں پڑھ سکتے!
اللہ نے اس قوم کی اصلاح کا جتنا موقع جمعہ کے دن وعظ کرنےوالے عالم دین اور محلے کی مسجد کے امام کو دیا ہے‘ کسی کو بھی نہیں دیا۔ آج اگر ہمارے مولوی صاحبان خوف اور مصلحت سے بے نیاز ہو کر لوگوں کو ظاہری حلیہ بدلنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانا شروع کر دیں کہ جھوٹ بولنا‘ جھوٹی گواہی دینا‘ کم تولنا‘ حرام کھانا‘ ٹیکس چوری کرنا بھی اسی طرح غلط ہے جس طرح داڑھی مونڈنا اور حجاب نہ کرنا غلط ہے تو اس معاشرے کا رنگ ہی بدل جائے۔ آج اگر ہمارے علماءمدرسوں اور مسجدوں کےلئے عطیات قبول کرنے سے پہلے دینے والے کی آمدنی کا جائز ہونا بھی کنفرم کرا لیں‘ آج اگر وہ یہ طے کر لیں کہ رشوت دینے اور لینے والے کو ہم اہل محلہ کے سامنے ذلیل کرکے رہیں گے‘ آج اگر وہ منبر پر کھڑے ہو کر ٹیکس چوری کرنےوالے‘ کم تولنے والے اور جعلی دوائیں بنانے اور بیچنے والے کے سماجی بائیکاٹ کا حکم دے دیں اور آج اگر وہ یہ اعلان کر دیں کہ پبلک کی سڑک یا فٹ پاتھ پر تجاوزات قائم کرنےوالے کو مسجد کے دروازے پر جوتے مارے جائیں گے کیوں کہ یہ ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے تو خدا کی قسم! اس ملک کے سیاستدان بھی تیر کی طرح سیدھے ہو جائیں۔
http://columns.izharulhaq.net/2012_02_01_archive.html
“