دس ہزار انسان موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ہیں اور بشار الاسد کی غیر سرکاری مشیر حدیل علی اسے ای میل میں لکھتی ہے کہ تقریر کرتے ہوئے تمہارا رنگ اچھا لگ رہا تھا۔ تمہارے سوٹ کا انتخاب زبردست تھا اور ”مجھے تمہاری طاقت‘ دانش مندی اور کرشماتی گرفت پر فخر ہے۔“
کل آبادی کا بارہ فیصد …. صرف بارہ فیصد۔ نُصیری …. چالیس سال سے شام کے عوام پر حکومت کر رہے ہیں۔ کبھی حافظ الاسد کی شکل میں اور کبھی بشار الاسد کے روپ میں۔ اس حکومت کو بچانے کیلئے اب تک دس ہزار شامی قتل کئے جا چکے ہیں اور ابھی یہ قصہ ختم نہیں ہوا۔ بغاوت جاری ہے۔ لیکن شاہی خاندان کو …. (ہاں شاہی خاندان …. اسلئے کہ اگر بشارالاسد اپنے آپ کو بادشاہ نہیں کہتا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بادشاہ نہیں! کیا اس شہزادے نے تخت اپنے باپ سے نہیں حاصل کیا؟) شاید خاندان کو دس ہزار انسانوں کی ہلاکت کا اتنا افسوس بھی نہیں جتنا کسی کو کتے یا بلی کے مرنے پر افسوس ہوتا ہے!
عوام سے مکمل لاتعلقی! …. یہ ہے وہ مرض جو اس طبقے کو لاحق ہے جو آج مسلمان ملکوں پر حکومت کر رہا ہے۔ آپ دور نہ جایئے۔ پاکستان کو دیکھ لیجئے۔ ہر شخص نے وہ تصویر دیکھی ہے جس میں صدر مملکت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے آ رہے ہیں۔ آپ وہ تصویر دوبارہ دیکھئے۔ تصویر میں نظر آنےوالے عمائدین کے لباس دیکھئے۔ ایک خاتون جو تصویر میں نظر آ رہی ہے‘ اسکے ماہانہ اخراجات کا حساب کیجئے اور اب تک اسکے غیر ملکی دوروں پر مفلوک الحال قوم کی جو رقم خرچ ہوئی ہے‘ اسکے اعداد و شمار دیکھئے‘ ان لوگوں کا…. جو تصویر میں نظر آ رہے ہیں۔ انداز ملاحظہ کیجئے۔ یوں لگتا ہے جیسے ان کی قیادت میں یہ قوم امریکہ اور جاپان سے آگے نکل چکی ہے! کیا ان لوگوں کے لباس اور ”خوداعتمادی“ سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے پاس بجلی ہے نہ گیس‘ امن ہے نہ عزت؟
ناانصافی ہو گی اگر اس ”لاتعلقی“ کا الزام صرف پیپلز پارٹی کو دیا جائے! اس کالم نگار نے کچھ ہفتے پیشتر اے این پی کے عوامی نمائندوں کو ٹیلیویژن پر حکومت کا اتحادی ہونے کے حوالے سے سنا۔ ان حضرات کے جوتے کو بھی پرواہ نہیں تھی کہ عوام کس حالت میں ہیں۔
دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ ان ”رہنمائوں“ کو خیبر پختونخواہ کے مردوں اور عورتوں کا خواندگی کا تناسب تک نہیں معلوم! انہیں کچھ غرض نہیں کہ عوام بجلی اور گیس سے…. خوراک اور دوائوں سے۔ ریل اور جہاز سے…. امن اور عافیت سے محروم ہیں! انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ تریسٹھ سال میں قبائلی علاقوں میں کوئی کالج‘ کوئی یونیورسٹی اور کوئی کارخانہ نہیں کھلا۔
کیا آپ نے کبھی وزیرستان یونیورسٹی‘ سوات یونیورسٹی‘ طورخم یونیورسٹی‘ مہمند یونیورسٹی‘ آفریدی یونیورسٹی یا باجوڑ یونیورسٹی کا نام سنا ہے؟ کیا ان علاقوں میں چینی کا یا کھاد کا یا لوہے کا یا جوتوں کا یا کپڑے کا کوئی کارخانہ دیکھا یا سنا گیا ہے؟ لیکن عوامی نمائندوں کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ وہ حکومت کے اتحادی رہیں۔
سینٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن میں " فرینڈلی" اپوزیشن نے فیصلہ کیا کہ ماحول کو ”دوستانہ“ کرنے کیلئے مقابلے میں کوئی بھی کھڑا نہ ہو…. اور پھر سٹیٹس کو کے سب سے بڑے چیمپین کو فوراً لیڈر آپ اپوزیشن قرار دے دیاگیا
…. حقیقت واضح ہو چکی ہے‘ بساط بچھا دی گئی ہے‘ تبدیلی کی دشمن قوتیں ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر متحد ہو چکی ہیں۔ مذہب اور عوام کے نام پر استحصال کرنےوالے اکٹھے ہو گئے ہیں۔ عمران خان کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ ہمیشہ اقتدار میں رہنے والے کھرب پتی اسے بے وقوف بنا چکے ہیں۔ جس قوم کے لیڈروں کے نزدیک کامیابی کا معیار یہ ہو کہ وہ کسی سیٹھ کے جہاز میں بیٹھ کر یورپ تک مفت جا سکیں‘ اس قوم کے بخت کا کیا ہی کہنا!!
شام ہو یا پاکستان …. یا کوئی اور مسلمان ملک‘ عوام غربت اور جہالت میں گلے گلے تک ڈوبے ہوئے ہیں اور حکمران طبقے دولت اور طاقت کی بدمستی میں ہر حد سے آگے نکل چکے ہیں۔ ایسے میں کچھ حاطب اللیل…. جو رات کے اندھیرے میں گیلی اور خشک لکڑیوں میں تمیز نہیں کر سکتے…. جب کہتے ہیں کہ مسلمان ممالک کا اتحاد ہونا چاہئے اور کنفیڈریشن بننی چاہئے اور ہم جیسے طالب علم جب کہتے ہیں کہ حضور! پہلے ان ملکوں کی حالت تو سنواریے…. تو جواب میں دشنام طرازی ہوتی ہے! اور زبان کے نہیں‘ بد زبانی کے جوہر کھلتے ہیں!
کیا صفر کو صفر سے ضرب دینے سے جواب صفر نہیں آتا؟ اور پھر کون سا اتحاد! کیا عراق کو تباہ و برباد کرنے کیلئے امریکہ کی اسی علاقے کے ملکوں نے مدد نہیں کی؟ کیا عرب ملکوں میں بغاوت کی آبیاری کرنے میں ایران سرگرم نہیں؟ اور جب اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے تو کیا عرب ملکوں کو اس سے اطمینان نہیں ہوتا؟ کیا شمالی اور جنوبی یمن دس سال تک برسرپیکار نہیں رہے؟ کیا مشرقی اور مغربی پاکستان الگ نہیں ہو گئے؟ کیا عرب ممالک ایک ایک کر کے اسرائیل کے قریب نہیں ہو رہے؟ اس صورتحال میں اسلامی ملکوں کی کنفیڈریشن کا کوئی منصوبہ کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟
اس کرہء ارض پر کوئی ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جو مسلمان ملکوں کا اتحاد نہیں چاہتا! گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی اس اتحاد‘ اس کنفیڈریشن کے خواب دیکھتا ہے! لیکن اس سے پہلے زیادہ سنگین مسئلے حل کرنا ہوں گے۔ تاریخ کا بدترین جاگیرداری نظام…. ناخواندگی‘ کرپشن‘ ضعیف الاعتقادی توہم پرستی‘ مقتدر طبقات کی قانون شکنی کا رویہ‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں صدیوں کا جمود …. یہ ہیں وہ مسائل جو توجہ کے محتاج ہیں۔ کیا گالیاں دینے سے یہ مسائل ختم ہو جائیں گے؟ ہمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا سامنا کرو! تم کہتے ہو کہ 1600ءتک سائنس میں ہمارا جواب نہیں تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ بالکل درست! لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ مسلمانوں کو ایک بار پھر سائنس میں قیادت کرنی چاہئے‘ تم کہتے ہو کہ یورپ کے شائقین علم قرطبہ اور بغداد کا رخ کرتے تھے۔ ہم کہتے ہیں بالکل درست! لیکن آج بھی انہیں مسلمان ملکوں کا رخ کرنا چاہئے اور اس کیلئے ہمیں ماضی کے خواب سے باہر نکلنا ہو گا! تم کہتے ہو کہ خلافت کا تحفہ دنیا کو مسلمانوں نے دیا۔
ہم کہتے ہیں بالکل درست! لیکن آج بدترین حکومتیں مسلمان ملکوں پر قابض ہیں اور تعلیم صرف تعلیم ان سے نجات دلوا سکتی ہے۔ غضب خدا کا! جو لوگ اپنی ننھی منی تنظیموں کی سربراہی اپنی زندگیوں میں اپنی اولادوں کو سونپ دیتے ہیں اور صرف اپنے خاندانوں کی خواتین کو عوامی اداروں میں بھیجتے ہیں وہ دوسروں کو خلافت کا سبق دینے بیٹھ جاتے ہیں!
خلافت کا اصل جوہر کیا ہے؟ بیت المال کی پائی پائی کا حساب رکھنا …. اور اپنے اوپر اور اپنے خاندان پر بیت المال کے دروازے بند رکھنا! یہی کچھ حضرات ابوبکر عمر عثمان علی اور عمر بن عبدالعزیز نے کیا…. اور آج بھی خلافت کا معیار یہی ہو گا!
http://columns.izharulhaq.net/2012_03_01_archive.html
“