انسان کو کبھی کبھار وہ کچھ ملتا ہے جس پر دوسرے رشک کرتے ہیں۔ پھر ایک ایسا وقت آ جاتا ہے کہ وہ اسے سنبھال نہیں سکتا یا وہ زیادہ کی تمنا کرتا ہے۔
بسا اوقات ایک شخص کو قبیلے کا فخر قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے کسی کارنامے کی وجہ سے یا اس حکمت و دانش کی بنا پر جو اسے ودیعت ہوتی ہے۔ قبیلے کا سردار بھی اس کی تکریم کرتا ہے۔ اب یہ اس کے رویے پر منحصر ہے کہ یہ تکریم وہ کب تک برقرار رکھتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایسا مقام ہے جو متانت اور غیر جانبداری کا متقاضی ہے لیکن اگر وہ متحارب گروہوں میں سے کبھی کسی کا ساتھ دیتا ہے اور کبھی کسی پر تنقید کے نشتر چلاتا ہے تو اس کا بلند مقام اسی نسبت سے نیچے سرکتا آتا ہے اور قبیلہ اسے تو بہت ہی عجیب نظروں سے دیکھتا ہے جو اٹھتے بیٹھتے اپنے کارنامے کا ذکر کرے اور بلند مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود یہ تاثر دے کہ اسے کچھ نہیں ملا۔ قبیلے میں سب مصلحت کیش نہیں ہوتے۔ کچھ سر پھرے بھی ہوتے ہیں اور کچھ دیدہ دلیری سے یہ بھی کہہ اٹھتے ہیں کہ
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مرحلہء سود و زیاں ہے کہ جو تھا
تاریخ کے بوسیدہ اوراق الٹنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا اپنا زمانہ ہمارے لیے تاریخ سے کم نہیں! نیلسن منڈیلا، مہاتیر محمد اور جدید سنگا پور کا باپ لی کوان! کیا شخصیات ہیں جنہوں نے اپنی اپنی قوم پر احسانات کئے لیکن جو کچھ قوم نے دیا اس کے لئے زیادہ احسان مند ہیں۔ کیا اقتدار کے اندر اور کیا اقتدار سے باہر، زندگی یوں بسر کی کہ متانت کو جانے دیا نہ عزت و تکریم میں کمی ہونے دی!
سیاست دان تو ایک مقصد کے لئے سرگرم کار ہیں، وہ مقصد اقتدار کا حصول ہے۔ چنانچہ وہ الزامات اور تکرار کے کیچڑ میں لتھڑے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے پر معاصرت کی سنگ زنی کرتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو دشنام کا سہارا بھی لے لیتے ہیں لیکن ایک ایسی شخصیت جس کا سب احترام کریں، سیاسی جماعتوں کو کبھی ہدف نہیں بناتی نہ سیاست دانوں کا نشانہ لیتی ہے۔ اس طرح وقعت کم ہو جاتی ہے۔ مزہ تو جب ہے کہ سب احترام کریں اور بات سنیں تو سر جھکا دیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ بھارتی سائنس دان عبدالکلام نے کیسا رویہ اختیار کیا۔ 2007ءمیں اس نے جب اعلان کیا کہ صدارتی مدت پوری کرنے کے بعد دوسری بار صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لے گا تو لاکھوں نہیں، کروڑوں لوگوں نے منتیں کیں کہ دوبارہ صدر بنیں۔ دولت سے ایسا اغماض کہ جن دو اٹیچی کیسوں کے ساتھ ایوان صدر میں داخل ہوا، انہی کے ساتھ پانچ سال بعد باہر نکالا۔ دوران صدارت کوئی ایسی حرکت نہیں کی کہ مخالف تشہیر طلبی کا طعنہ دیں اور حامیوں کوصدمہ پہنچے۔ ایک ایک ریاست میں گیا۔ بے شمار شہروں اور قصبوں اور قریوں کا سفر کیا۔ کتابیں لکھیں جن میں اور تو بہت کچھ تھا خود ستائی نہ تھی۔ ”ونگز آف فائر“ کے نام سے خودنوشت لکھی۔ عجز سے بھری ہوئی اور غربت کے سفر کی تفصیلات، کروڑوں نے پڑھی۔ خاص طور پر ان مسلمانوں نے جو جنوبی ایشیا کے جھگڑوں سے دور یورپ اور امریکہ میں جا بسے ہیں، پھر ایک اور کتاب لکھی، ”سلگتا ذہن“ اس میں سوال کیا کہ ہمارا دشمن کون ہے؟ پھر خود ہی جواب دیا، ہماری دشمن غربت ہے۔پھر طریقے تجویز کئے کہ غربت دور کیسے کی جائے۔ پھر نوجوانوں کے لئے ”مشن انڈیا“ تصنیف کی اور پورا نقشہ بنا کر دیا کہ 2020ءتک کس طرح ملک کو تبدیل کر کے رکھ دینا ہے۔ لیڈر کی خصوصیات بتائیں۔ پہلی یہ کہ لیڈر کے پاس وژن ہونا چاہئے۔ اس کے بغیر لیڈر نہیں بنا جا سکتا۔ دوسری یہ کہ لیڈر ان راستوں پر نہ چلے جو پامال ہیں، نئے راستے تلاش کرے۔
ازان کہ پَیروئی خلق گمرہی آرَد
نمی رویم براہی کہ کاروان رفتست
ہجوم کی پیروی سے گمراہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جن راستوں کو قافلے پامال کر چکے ہیں، ان پر چلنے سے کیا فائدہ۔ تیسری یہ کہ لیڈر کو ناکامی کا سامنا کرنا آتا ہو ورنہ وہ ناکامی سے شکست کھا کر پیش منظر سے غائب ہو جائے گا۔ چوتھی یہ کہ لیڈر میں فیصلے کرنے کی جرا¿ت ہو۔ پانچویں یہ کہ جو کام کرے اس میں شفافیت ہو اور کوئی اس پر انگلی نہ اٹھا سکے اور چھٹی یہ کہ کسی صورت میں بھی راستی اور دیانت سے نہ ہٹے۔
پھر
اپنے اہل وطن کو
PURA
کا تصور دیا
PROVIDING URBAN AMENITIES IN RURAL AREAS
یعنی دیہاتی علاقوں میں شہری سہولیات کی فراہمی کا ممکن بنانا۔ اس کی تہہ میں یہ اصول بتایا کہ الیکٹرانک اور اقتصادی رسائی سے دور افتادہ علاقوں کو نزدیک لانا ہے۔ اس کے لئے سات ہزار خاکے بنا کر دیئے جن کا پہاڑی دیہات، ساحلی دیہات اور میدانی دیہات پر اطلاق ہوگا۔ یوں دیہات اور شہروں کے درمیان آسودگی کے پل تعمیر ہوں گے اور اطلاعات…. الیکٹرانک رسائی…. گاﺅں گاﺅں جائے گی۔ پھر اپنے ملک کو توانائی کے مستقبل کے بحران سے بچانے کے لئے روایتی توانائی کے تین نعم البدل پیش کئے۔ پہلا شمسی توانائی، دوسرا ایٹمی توانائی اور تیسرا حیاتیاتی (بایو) توانائی۔ پھر سماجی تبدیلی کے لیے تین گرڈ تجویز کئے۔ علم کا گرڈ، صحت کا گرڈ اور ملک کا انتظام کمپیوٹر کے ذریعے چلانے کا گرڈ۔ یہ تمام منصوبے پیش کر کے عبدالکلام فارغ نہیں ہو گیا۔ وہ رات دن کام کر رہا ہے۔ کسی تشہیر اور کسی پارٹی کی قیادت کئے بغیر…. نوجوانوں کی تنظیمیں اور فلاحی ادارے اس کی مدد کر رہے ہیں اور وہ مسلسل سفر میں ہے۔
بھارت پاکستان کا مخالف ہے۔ اس شخص نے بھارت کو ایٹمی میزائل تعمیر کرکے دیئے۔ اس کا نام ہی میزائل مین پڑ گیا۔ مقصد حقیقت کو بیان کرنا ہے۔ دشمن سے ہمارا مقابلہ ہے۔ یہ سب کچھ ہمیں بھی کرنا ہے لیکن اس کے لئے ذات کی نفی کرنا ہوگی۔ اپنی تعریفوں کے پل دریا برد کرنے ہوں گے۔ خود توصیفی کے نقرئی حصار سے باہر نکلنا ہوگا۔ یہ کام وہ شخص کرے گا جو بابائے وطن ہوگا جو کبھی ایک پارٹی پر اور کبھی دوسری پارٹی پر اور کبھی ایک سیاست دان پر اور کبھی دوسرے سیاست دان پر کنکر نہیں مارتا پھرے گا!
معاف کیجئے گا۔ اگر ثقاہت کا یہ عالم ہے کہ پانی سے موٹر چلانے کا دعویٰ کرنے والے کی بھی آپ ہاں میں ہاں ملائیں گے تو لوگ آپ کو کس طرح اور کتنی سنجیدگی سے لیں گے؟ یہ اور بات کہ وہ احتراماً یا ازراہ مروت خاموش رہیں!!
http://columns.izharulhaq.net/2012_09_01_archive.html
“