ڈھلتی شام تھی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری میں‘ جو چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی‘ ہم سب بیٹھے تھے۔ اندر تیز چلتے پنکھوں کی آواز تھی۔ باہر ہوا کا شور تھا۔ املی اور لیچی کے درختوں کے پتوں کے عکس کھڑکیوں کے شیشوں پر پڑ رہے تھے۔ طالب علم کتابوں میں غرق تھے۔ کوئی پڑھ رہا تھا‘ کوئی لکھ رہا تھا۔ کچھ باتیں کر رہے تھے مگر زیرِ لب۔ میں اور میرے مشرقی پاکستانی دوست نے کتابیں اور کاغذ وہیں میزوں پر رکھے اور کینٹین کی طرف چل دیے۔ مادھو کی کینٹین! جو 1921ء سے ڈھاکہ یونیورسٹی کی ثقافتی‘ علمی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہی ہے اور جس کی دردناک کہانی الگ مضمون مانگتی ہے۔ ہم نے چائے منگوائی اور ساتھ دو سموسے اور دو رَس گُلے۔ میرے دوست کا ایک ہی سوال تھا اور غیر مبہم‘ واضح سوال تھا۔
’’اظہار! مجھے بس اتنا بتا دو‘ گیارہ سال ایوب خان کی آمریت رہی۔ اب ایک اور فوجی ڈکٹیٹر آ گیا ہے۔ جرنیل پنجابی ہیں یا پٹھان۔ جن علاقوں میں انگریزوں کا مقابلہ کیا گیا‘ بنگال‘ یوپی اور سندھ۔ وہاں کے لوگوں کو فوج کے لیے ’’غیر مناسب‘‘ قرار دے دیا گیا۔ ہم جرنیل کہاں سے لائیں گے؟ تو کیا ہماری باری کبھی نہیں آئے گی؟‘‘
آج سولہ دسمبر ہے۔ مشرقی پاکستان کو الگ ہوئے بیالیس برس ہو گئے ہیں۔ میں آج تک اپنے دوست کے سوال کا جواب نہیں دے سکا۔ ان بیالیس برسوں میں باقی ماندہ پاکستان کے دانشوروں‘ صحافیوں اور سیاست دانوں نے ایک لمحے کے لیے بھی سنجیدگی سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب پر نہیں سوچا۔ ذہنی افلاس کا یہ عالم ہے کہ طوطے کی طرح ایک ہی رٹ لگائی جا رہی ہے ’’وہاں ہندوئوں کا اثر تھا‘‘۔ عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ یہ ’’ہندوئوں کا اثر‘‘ اُس وقت کہاں تھا جب تحریک پاکستان چل رہی تھی۔ ہندوئوں کی حمایت تو احراری اور خاکسار کر رہے تھے اور مسلم لیگ کے لتے مولانا مودودی لے رہے تھے! بنگالی مسلمانوں نے تو تحریک پاکستان کی مخالفت ہی نہیں کی تھی!
جب بھی سولہ دسمبر آتا ہے‘ باقی ماندہ پاکستان کے دانشور اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے بنگالیوں اور بنگلہ دیش کی کردارکُشی کرنے لگتے ہیں۔ ایسے ایسے ابکائی لانے والے جھوٹ گھڑے جاتے ہیں اور تکبر کی ایسی ایسی صورتیں سامنے آتی ہیں کہ لگتا ہے ذہنی قلاش دریوزہ گری پر اتر آئے ہیں۔ یک رُخی تصویر پیش کی جاتی ہے۔ ان میں سے اکثر اپنی پوری زندگی کسی بنگلہ دیشی سے ملے نہ وہاں گئے لیکن ’مستند ہے ان کا فرمایا ہوا‘۔
بنیادی طور پر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو ملا کر ایک ریاست کی تشکیل دینا ہی غیر فطری اور ناقابلِ عمل تھا۔ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک ملک کے دو منطقوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ ہو۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ترکی اور مراکش کو ایک ملک بنا دیا جائے یا برونائی کو بنگلہ دیش کے ساتھ ملا کر ایک ریاست کی تشکیل کردی جائے۔ درمیان میں دشمن ملک۔ ایک اضافی اور لاینحل مسئلہ تھا۔ پھر اس انتہائی دشوار بلکہ غیر فطری اتحاد پر حماقت‘ ظلم‘ آمریت‘ دھاندلی اور ہٹ دھرمی کی پے در پے ضربیں لگائی جاتی رہیں۔ کبھی ان پر ایک ایسی زبان تھوپنے کی کوشش ہوئی جس سے وہ ناآشنا تھے اور جس کی نسبت ان کی اپنی زبان کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھی۔ کبھی ان کی آبادی کو کم کر کے مصنوعی مساوات (Parity) کا ڈھونگ رچایا گیا۔ کبھی کابینہ کے بھرے اجلاسوں میں ان کا مذاق اڑایا گیا کہ اوئے! تم لوگ تو کھیتوں میں رفع حاجت کرتے ہو‘ تمہیں سینیٹری کے سامان کی کیا ضرورت ہے اور بالآخر انہیں کہا گیا کہ تم نے الیکشن میں زیادہ ووٹ تو لے لیے ہیں لیکن حکومت ہم تمہیں نہیں دیں گے! اس باقی ماندہ ملک کو اپنے ان کرتوتوں پر آج تک ندامت ہوئی نہ حیا آئی۔
اس سے بڑا مذاق کیا ہوگا کہ جس ملک میں لوگوں کو ذبح کرتے وقت وڈیو بنائی جاتی ہے‘ جس ملک میں بھتہ گیری اور اغوا برائے تاوان کو حکومت‘ بالواسطہ تسلیم کر چکی ہے‘ جس ملک کے سب سے بڑے شہر میں خانہ جنگی‘ طوائف الملوکی‘ گینگ وار‘ قتل و غارت اور آتش زنی کا مکمل دور دورہ ہے‘ جہاں سہراب گوٹھ میں الگ عدالتیں لگتی ہیں اور پنچایتیں شادی شدہ جوڑوں کو قتل کرا رہی ہیں‘ جہاں جان کے خوف سے مائیں بچوں کو مسجدوں میں نماز پڑھنے سے روکنے پر مجبور ہیں‘ جہاں صدر‘ وزیراعظم اور وزیروں پر کروڑوں‘ اربوں روپے ہڑپ کرنے کے مقدمے چل رہے ہیں‘ اُس ملک کے دانشور اور لکھاری بنگلہ دیش کی کردارکشی‘ مذمت‘ غیبت اور تنقیص کر رہے ہیں اور مسلسل کر رہے ہیں۔
ان حضرات میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ نئی نسل کو حقیقت سے آگاہ کریں۔ کیا جنرل خادم حسین راجہ نے اپنی کتاب "A stranger in my own country: East Pakistan1969-1971" میں جو کچھ لکھا‘ جھوٹ ہے؟ ’’صرف جنرل صاحبزادہ یعقوب خان زور دے رہے تھے کہ جنرل یحییٰ کو اُس قومی اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی نہیں کرنا چاہیے جس نے 1970ء کے انتخابات جیتے ہیں۔ لیکن اچانک جنرل یعقوب خان کو ڈیفنس کالج کے کورس پر بھیج دیا گیا۔ یہ بھدّا اور نامناسب قدم صرف اس لیے اٹھایا گیا کہ وہ راستے سے ہٹ جائیں‘‘۔ جنرل خادم حسین راجہ اس کے بعد لکھتے ہیں: ’’جنرل رحیم خان کا کہنا یہ تھا کہ بنگالی بزدل قوم ہے اور انہیں بہت پہلے زیر کر لینا چاہیے تھا‘‘۔
یہ وہی جنرل رحیم ہے جو میدانِ جنگ سے پشت دکھاتا ہوا بھاگ گیا تھا۔ جنرل راجہ اس کے بعد لکھتے ہیں: ’’جنرل نیازی داخل ہوا‘ اس کی بیلٹ پر پستول نصب تھا۔ اس نے گالیاں دینا شروع کردیں اور ہذیان بکنے لگا (Raving)۔ پھر وہ اردو پر اتر آیا اور کہا… ’’میں اس حرام زادی قوم کی نسل بدل دوں گا۔ یہ مجھے کیا سمجھتے ہیں؟‘‘ اس نے دھمکی دی کہ وہ ان (بنگالیوں) کی عورتوں پر اپنے سپاہی چھوڑ دے گا۔ اس کی باتوں سے سناٹا چھا گیا۔ اگلی صبح ہمیں افسوسناک خبر ملی۔ ایک بنگالی افسر میجر مشتاق کمانڈ ہیڈ کوارٹرز میں باتھ روم میں گیا اور اپنے سر پر گولی مار دی‘‘۔ جنرل نیازی نے جنرل راجہ سے یہ بھی کہا… ’’مجھے اپنی بنگالی گرل فرینڈز کے فون نمبر تو دو‘‘۔
یہی جنرل نیازی اپنی کتاب"The betrayal of East Pakistan"میں لکھتا ہے:
’’1970ء کے انتخابات کے فوراً بعد بھٹو نے ایم ایم احمد ایڈوائزر اقتصادی امور ڈویژن اور قمر الاسلام ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کو ایک تحقیقی مضمون تیار کرنے کے لیے کہا جس میں یہ ثابت کیا جانا تھا کہ مغربی پاکستان‘ مشرقی پاکستان کے بغیر پھل پھول سکتا ہے۔ فروری 1971ء میں میجر جنرل عمر سیاستدانوں سے یہ کہہ رہا تھا کہ وہ نیشنل اسمبلی کا اجلاس اٹنڈ کرنے ڈھاکہ نہ جائیں کیونکہ وہ سازشوں کا گڑھ ہے اور مشرقی پاکستان سے الگ ہو جانا ہی بہتر ہے… پاکستان توڑنے کا حتمی منصوبہ جنرل یحییٰ اور بھٹو کے درمیان لاڑکانہ میں طے پایا۔ اس منصوبہ کا جسے ’’ایم ایم احمد پلان‘‘ کہا جاتا ہے‘ مقصد یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کو اس طرح چھوڑ دیا جائے کہ وہاں حکومت ہی نہ ہو۔ اس کا مطلب تھا: جنگ ہار کر…‘‘
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کیا کہتی ہے۔ جگر تھام کر پڑھیے:
’’جنرل نیازی پر سنگین الزامات ہیں کہ جب وہ جی او سی سیالکوٹ اور بعد میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لاہور تھا تو مارشل لاء کے مقدموں میں پیسے بنا رہا تھا۔ وہ گلبرگ لاہور کی ایک خاتون سعیدہ بخاری کے بہت قریب تھا جو ’’سینو ریٹا ہوم‘‘ کے نام سے قحبہ خانہ چلا رہی تھی۔ وہ رشوت وصول کرنے اور معاملات چلانے کے لیے جنرل نیازی کی دلّالہ کے طور پر بھی کام کرتی تھی۔ جنرل نیازی کی سیالکوٹ کی ایک خاتون شمیم فردوس سے بھی یاری تھی۔ یہ بھی وہی کردار ادا کر رہی تھی جو لاہور کی خاتون کر رہی تھی۔ مشرقی پاکستان میں قیام کے دوران جنرل نیازی کی شہرت غلیظ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بدنام عورتوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا اور راتوں کو ایسی جگہوں پر جاتا تھا جہاں اس کے کئی ماتحت افسر بھی پائے جاتے تھے۔ وہ مشرقی پاکستان سے پان کی سمگلنگ میں بھی ملوث تھا۔ کمیشن کے سامنے یہ الزامات مندرجہ ذیل افراد نے لگائے۔ عبدالقیوم عارف (گواہ نمبر 6)‘ منور حسین ایڈووکیٹ سیالکوٹ (گواہ نمبر 13)‘ عبدالحفیظ کاردار (گواہ نمبر 25)‘ میجر سجاد الحق (گواہ نمبر 164)‘ سکواڈرن لیڈر سی اے واحد (گواہ نمبر 57) اور کرنل حفیظ احمد (گواہ نمبر 147)‘‘۔
حمود الرحمن کمیشن آٹھ افراد کے نام لکھ کر ان کے بارے میں لکھتا ہے:
’’یہ افسر اور ا ن کی یونٹیں وسیع پیمانے پر لوٹ مار میں ملوث تھیں۔ ان میں ایک کروڑ پینتیس لاکھ کی وہ رقم بھی شامل ہے جو نیشنل بینک سراج گنج سے چوری ہوئی‘‘۔ کمیشن لکھتا ہے کہ سینئر افسروں کے ذاتی کردار اور بددیانتی کے بارے میں وہ تفتیش نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن دوسری طرف یہ بھی عام تصور تھا کہ اس قسم کے رُسوا کن کردار کا براہ راست اثر قیادت پر پڑا تھا۔ ’’ہم افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ ایسا ہی تھا‘‘۔ اس تحریر کی ابتدا ڈھاکہ یونیورسٹی کی مادھو کینٹین کے ذکر سے ہوئی تھی۔ 1921ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی قائم ہوئی تو پندرہ سالہ مادھو نے بھی اپنے باپ کے ساتھ‘ حکام کی اجازت سے‘ یونیورسٹی میں خوردنی اشیا کی فروخت شروع کی۔ 26 مارچ 1971ء کو فوجی ایکشن ہوا تو مادھو اور اس کے خاندان کو قتل کردیا گیا۔
26 مارچ 1971ء کو یحییٰ خان نے ڈھاکہ سے رخصت ہوتے وقت جنرل ٹکا خان کو حکم دیا Sort them out (ان کا دماغ ٹھیک کردو‘ ان کا بندوبست کرو)۔ آرمی ایکشن شروع ہو گیا۔ 27 مارچ کو ذوالفقار علی بھٹو نے کراچی ایئرپورٹ پر اترتے ہی بیان دیا… ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچا لیا گیا‘‘۔ یہ تھے وہ لوگ جن کی حمایت اُس وقت صالحین کر رہے تھے۔ مشرقی پاکستانیوں کی عظیم اکثریت ان صالحین کو‘ بھٹو کو اور ٹکا خان اور اس کے ساتھیوں کو نظر ہی نہیں آ رہی تھی نہ ہی ان کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت تھی۔
“