شہزادہ تیراندازی کی مشق کررہا تھا۔ جب بھی تیر چلاتا، تیر ہدف کے دائیں یا بائیں نکل جاتا۔ کوئی ایک نشانہ بھی درست نہیں بیٹھ رہا تھا۔ درباری مسخرہ ساتھ تھا۔ آگے بڑھا اور ہدف کے سامنے کھڑا ہوگیا۔’’محفوظ ترین جگہ یہی ہے!‘‘ اس نے کہا۔
گزرے وقتوں کی یہ سبق آموز حکایت یوں یاد آتی کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے بنوں میں آئی ڈی پیز کے ساتھ مصروف دن گزارا اور شمالی وزیرستان میں ہسپتال اور کالج بنانے کااعلان کیا۔ پنجاب حکومت ہر خاندان کو سات ہزار روپے نقد دے رہی ہے۔ خاندانوں کی کثیر تعداد دیکھی جائے تو یہ ایک خطیر رقم بنتی ہے۔ قبائلی عمائدین نے ایک شکایت بہرطورکی کہ تقریب دو بجے شروع ہوئی ہے لیکن انہیں صبح سات بجے ہی بٹھا دیاگیا تھا! وزیراعلیٰ نے ایک معنی خیز اعلان یہ کیا کہ وہ یہاں پنجاب کے نہیں پاکستان کے نمائندے کے طور پر آئے ہیں۔ اس سے پہلے وہ چینی وزیر خارجہ سے بھی چین جاکر ملے۔ یہ نہیں معلوم کہ وہ ملاقات انہوں نے پنجاب کے نمائندے کی حیثیت میں کی یا پاکستان کا نمائندہ بن کر! تمنائوں کی پرورش ہر شخص کا حق ہے۔ آرزو کے پودے کو پانی دینا کوئی جرم نہیں ! اس سے پہلے پرویز الٰہی وزیراعظم بنتے بنتے رہ گئے۔ جعفر برمکی یاد آرہا ہے۔ بغداد کے مشرقی حصے کا نام شماسیہ تھا۔ برامکہ یہیں آباد تھے۔ ان کے محلات اس درجہ عالی شان تھے کہ سیاح جو بغداد آتے ان محلات کو دیکھنے ضرور آتے۔یحییٰ برمکی اور فضل برمکی نے الگ الگ محلات تعمیر کرائے لیکن آخر میں جعفر برمکی نے جو عمارت بنوائی وہ ان سب کو پیچھے چھوڑ گئی۔ اس زمانے میں دو کروڑ درہم لاگت آئی۔ اس وقت کی دنیا میں شاید ہی اس کی نظیر ہو۔ جب محل تیار ہوگیا تو جعفر نے نجومی جمع کیے اور پوچھا کہ کس ساعت سعید میں نقل مکانی کی جائے۔ زائچے بنائے گئے اور طے یہ ہوا کہ نصف شب کو مکان میں منتقل ہوا جائے۔ جب جعفر منتقل ہورہا تھا تو رات کا سناٹا تھا۔ لوگ گھروں میں سورہے تھے لیکن ایک شخص گلی کے کونے میں کھڑا ہوکر کہہ رہا تھا:
تدبر بالنجوم ولست تدری و رب النجم یفعل مایشاء تم ستاروں کی مدد سے تدبیریں کررہے ہو حالانکہ تم کچھ جانتے ہی نہیں۔ ستاروں کا پروردگار جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
کچھ عرصہ بعد جو کچھ جعفر کے ساتھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور یہ تو ہمارے سامنے کی تاریخ ہے۔ حسنی مبارک کا بیٹا جمال مبارک، حکمران پارٹی کا ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھا اور ’’ پالیسی کمیٹی‘‘ کا سربراہ ‘ لیکن تخت پر نہ بیٹھ سکا۔ شاہ ایران کے بیٹے کو تخت ملا نہ قذافی کے فرزند کو۔
و رب النجم یفعل مایشاء ، ستاروں کا خدا جو چاہے کرے!
تاہم ایک اور بات بھی ہے اور وہ انصاف کی ہے! پنجاب کے وزیراعلیٰ سے اختلافات اپنی جگہ ، سوال یہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ بھی تو آئی ڈی پیز کا دکھ بانٹنے بنوں آسکتے تھے۔ انہیں کسی نے منع تو نہیں کیا۔ وہ آتے اور جوپروٹوکول پنجاب کے وزیراعلیٰ کو ملا، انہیں نہ ملتا تو گلہ کرتے ! کل کے روزنامہ دنیا میں سابق صدر جناب آصف زرداری کا بیان چھپا ہے کہ آئی ڈی پیز کے ساتھ حکومت کا سلوک بے رحمانہ اور مجرمانہ ہے۔ ایسے موقع پر انگریز کہا کرتے ہیں Look! Who is Talking!پانچ سالہ دور صدارت میں موصوف خود قصر سے نکل کر کراچی کے علاوہ شاید ہی کہیں تشریف لے گئے ہوں۔ فوجی جوان شہید ہوتے رہے، دھماکوں سے عوام کی چیتھڑے اڑتے رہے۔ زمین ہل کر رہ گئی لیکن آپ اپنی جگہ سے نہ ہلے!
واپس چلتے ہیں۔ شہزادہ تیر اندازی کی مشق کررہا ہے اور محفوظ ترین جگہ ہدف ہے! ہمارے وزیراعلیٰ چین سے لے کر بنوں تک ہر جگہ موجود ہیں۔ دیکھنے والے ان کی شبانہ روز نقل و حرکت پر حیران بھی ہورہے ہیں‘ عش عش بھی کررہے ہیں! لیکن لاہور ہاتھوں سے پھسلا جارہا ہے۔ ایک معاصر میں ایک خاتون کا درد ناک مضمون دو دن پیشتر شائع ہوا ہے۔ لاہور میں رہنے والی خاتون لکھتی ہے کہ سڑک کے درمیان کھڑی گاڑی کو اس نے ہارن دیا تو گاڑی سے ایک شخص نکل آیا جس نے بندوق تانی ہوئی تھی! پھر وہ نوحہ خوانی کرتی ہے کہ بھتہ گیری، اغوا اور قتل و غارت جس کا بازاروں اور مارکیٹوں سے آغاز ہوا اب لاہور کے کھاتے پیتے پوش رہائشی علاقوں میں پہنچ چکا ہے!
انسان ورطۂ حیرت میں گم ہوجاتا ہے ! یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ حکمران خاندان ذہانت سے محروم ہے۔ نہیں !ایسا ہرگز نہیں! کاروبار کو آسمانوں تک لے جانے والے غیر ذہین کیسے ہوسکتے ہیں ! تو پھر کیا وہ اس خوش فہمی میں ہیں کہ میگا پروجیکٹ، سکیورٹی کا مسئلہ خود ہی حل کردیں گے ؟ بسیں ، ٹرینیں ، پل، انڈر پاس ، اغوا کاروں ، قاتلوں اور بھتہ خوروں کو نگل جائیں گے؟ انسان ورطۂ حیرت میں گم ہوجاتا ہے۔ گھر ، گاڑیاں اور سب سے بڑھ کر جانیں محفوظ نہیں تو میگا پروجیکٹ کس کام کے !
آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے۔ معجزے کا امکان بھی نہیں نظر آرہا کہ معجزات انبیا کے ساتھ مخصوص ہیں! ایک شے… صرف ایک شے … امن وامان کی ضمانت دے سکتی ہے۔ پولیس کی خود مختاری ، عدم مداخلت، سیاست زدگی کا خاتمہ۔ آج پاکستان میں یو اے ای اور سعودی عرب کے امن وامان کی مثال عام دی جاتی ہے! کیا وہاں کا کوئی شہزادہ ، کوئی وزیر ، یہاں تک کہ بادشاہ ، پولیس کے کام میں مداخلت کرتا ہے؟ سنگا پور کے وزیراعظم کے فرزند نے ٹریفک کا قانون توڑا تو جیل میں ڈال دیاگیا۔ ماں نے عام شہری کی حیثیت سے مقدمہ لڑا۔ پاکستان کا ہر اخبار نویس برطانوی وزیراعظم کے اس بیان پر حسرت بھرا تبصرہ کرچکا ہے جو انہوں نے پاکستان میں دیا تھا کہ برطانوی حکومت وہاں کی پولیس کے امور میں مداخلت نہیں کرسکتی !
پاکستانی پولیس استعدادِ کار میں اور عقل و دانش میں دنیا کی کسی پولیس فورس سے پیچھے نہیں ۔ اسے کام کرنے کی آزادی میسر ہو تو زمین کی تہہ سے مجرم ڈھونڈ نکالتی ہے لیکن آزادی میسر ہوتو تب ! اور یہ آزادی تاحال ناممکنات میں سے ہے۔ موجودہ حکومت کا اس ضمن میں رویہ گزشتہ حکومتوں سے مختلف نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی مسلم لیگ قاف … سب یہی کچھ کرتی رہیں۔ آج پولیس افسر تعینات ہوا، چند مہینوں بعد ہٹا دیاگیا۔ کیریئر پلاننگ، یکسر مفقود ہے۔ کیا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کسی ایک پولیس افسر کا بھی ’’کیریئر چارٹ ‘‘ دکھا سکتی ہے‘ جس میں اس نے سروس کے دوران تین تین سال کا عرصہ مکمل کیا ہو ؟ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو تو اتنی بھی آزادی نہیں، جتنی ڈاکخانے کے کلرک کو حاصل ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تو خود ایک ڈاکخانہ ہے۔ وزیراعظم آفس سے ٹیلی فون آتا ہے اور کیریئر پلاننگ کی ایسی تیسی ہوجاتی ہے! فلاں کو لگادو ، فلاں کو ہٹا دو ! کون ہے جو کہے کہ ’’نہیں ! ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ ہمارا کام ہے، ہمیں ہی کرنے دیجیے‘‘ پھر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے ریٹائرمنٹ کے بعد مزید تین سال کی ملازمت مانگنی ہو تو کیسے انکار کردے گا۔ دروغ برگردن راوی ! ایک سابق سیکرٹری یہ دعویٰ کرتے ہوئے سنے گئے کہ یہ جو سول سروس کے تربیتی اداروں میں فوجی افسر لگائے گئے تھے تو انہی کی تجویز پر لگائے گئے تھے ع
چہ دلاور است دُزدے کہ بکف چراغ دارد!
اس ملک میں اس سے بڑے بڑے اعترافات کرنے والے بھی محلات میں رہ رہے ہیں !!
شیر شاہ سوری نے جب قانون بنایا تھا کہ جس علاقے میں قتل ہوا ، قاتل کا سراغ نہ لگا تو علاقے کا انچارج پھانسی پر لٹکایا جائے گا، تو علاقے کے انچارج کو یہ نہیں کہا گیا تھا کہ فلاں فلاں خاندانوں کو تفتیش سے باہر رکھنا ہے اور فلاں فلاں رسوائے زمانہ پولیس افسر فلاں فلاں شہر ہی میں رہیں گے ! اس کے کام میں بادشاہ مداخلت کرسکتا تھا نہ کوئی وزیر نہ کوئی شہزادہ ! آپ لاہور کو کسی بے داغ شہرت والے پولیس افسر کے سپرد کیجیے، اسے اپنی مرضی کے افسر ، اہلکار اور سٹاف منتخب کرنے دیجیے، اپنے وزیروں کو لگام دیجیے، اس کے کام میں کوئی ’’ شہزادہ ‘‘ بھی مداخلت نہ کرے ! اسے چھ ماہ کا عرصہ اس آزادی اور اختیار کے ساتھ اور وارننگ کے ساتھ دیجیے اور پھر نتیجہ دیکھیے ! لیکن ایسا نہ جانے کب ہوگا! نذیر ناجی صاحب نے لکھا ہے کہ وہ لوگوں کا کئی کئی سال امتحان لیتے ہیں۔ دیکھیے! اہل لاہور کا امتحان کب ختم ہوتا ہے!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“