جناب وزیراعظم!
گزشتہ دو ہفتے شدید ذہنی دبائو کا شکار رہا۔ اپنے آپ کو اس افسوسناک واقعے کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ مجھے اس کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی! ایک باعزت مشرقی جنٹل مین کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اس غلطی کی بھاری قیمت ادا کرنی چاہیے اور اس کی صرف ایک ہی صورت تھی کہ میں اپنی زندگی ختم کردوں۔ سو کر رہا ہوں۔
آپ کا مخلص
وزیر قومی ترقی
جون کے ایک گرم دن جب 1959ء میں لی کوان ییو اور اس کے ساتھیوں نے سنگاپور کی کابینہ کا حلف لیا تو سب نے سفید قمیضیں اور سفید پتلونیں پہنی ہوئی تھیں۔ یہ علامت تھی اس ارادے کی کہ یہ حکومت صاف ستھری ہوگی اور کرپشن سے یکسر پاک۔ لوگ بھی یہی توقع کر رہے تھے کہ یہ کابینہ ذاتی اور پبلک دونوں زندگیوں میں دیانت دار ہوگی۔
لی نے سب سے پہلے سی پی آئی بی (Corrupt Practices Invenstgation Bureau) کی تنظیم نو کی۔ یہ ادارہ انگریز حکومت نے بنایا تھا لیکن یہ تھانیداروں اور انسپکٹروں کے پیچھے پڑا رہتا تھا۔ لی کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ نچلی سطح پر کرپشن ختم کرنے کے لیے قوانین تبدیل کریں گے‘ صوابدیدی اختیارات ختم کریں گے اور بہت سی پابندیاں ہٹا دیں گے۔ سی پی آئی بی کو حکم دیا گیا کہ بڑی مچھلیوں کو بڑے بڑے مناصب پر پکڑو۔ جیسے جیسے مجرموں کو سزا دلوانے میں رکاوٹیں آتی گئیں‘ قوانین میں ترمیم کی جاتی رہی۔ ایک سال بعد یہ قانون بنایا گیا کہ رشوت یا ’’خدمت‘‘ میں ہر وہ شے شامل ہوگی جو قیمتی ہوگی!
لی نے سنگاپور کو جو مچھیروں کا ایک بدحال پس ماندہ کیچڑ والی گلیوں سے بھرا ہوا قصبہ تھا‘ کس طرح دنیا کا ٹاپ کلاس ملک بنا دیا اس کی ایک مثال وہ خط ہے جو اس کے وزیر قومی ترقی تیہہ چیانگ وان نے خودکشی کرنے سے پہلے اُسے لکھا اور جو اس کالم کے آغاز میں پیش کیا گیا ہے۔ 1986ء میں سی پی آئی بی وان کے ایک پرانے دوست سے کسی معاملے میں تفتیش کر رہی تھی۔ دوران تفتیش اس نے بتایا کہ اُس نے وان کو چار چار لاکھ ڈالر کی دو ادائیگیاں کی تھیں۔ ایک 1981ء میں اور دوسری 1982ء میں۔ پہلی اس لیے کہ وان نے ایک ترقیاتی کمپنی کو اجازت دی تھی کہ وہ اس زمین پر قبضہ برقرار رکھے جو حکومت نے لینی تھی۔ دوسری اس لیے کہ وان نے ایک نجی کمپنی کو سرکاری زمین خریدنے میں مدد کی تھی۔ وان نے الزامات سے انکار کیا اور سی پی آئی بی کے ایک افسر سے مُک مکا کرنے کی کوشش کی۔ کابینہ ڈویژن نے اس کی اطلاع لی کو دے دی۔ اسی اثنا میں وان نے وزیراعظم لی سے ملنا چاہا لیکن لی نے تحقیقات ختم ہونے سے پہلے ملاقات کی اجازت نہ دی۔ ایک ہفتہ بعد وان نے خودکشی کر لی اور خودکشی سے پہلے وزیراعظم کو یہ خط لکھا۔
لی تعزیت کے لیے وان کے گھر گیا اور اس کی بیوہ سے ملا۔ لی کی حکومت نے کرپشن کو معاشرے میں اس طرح ناقابلِ قبول بنا دیا تھا کہ کوئی عزت دار شخص کرپشن کے الزام کے بعد زندہ ہی نہیں رہ سکتا تھا۔ بیوہ نے بتایا کہ عزت بچانے کا یہی ایک طریقہ تھا۔ بیوہ نے منت کی کہ موت کی تفتیش نہ کی جائے۔ یہ صرف اُس صورت میں ممکن تھا کہ ڈاکٹر طبعی موت کا سرٹیفکیٹ جاری کردے جو ممکن نہ تھا‘ نہ لی نے اس قانونی معاملے میں مداخلت کی۔ خودکشی کی تفتیش سے مزید خبریں چھپیں۔ بدنامی کے خوف سے بیوہ اور بیٹی نے ملک ہی چھوڑ دیا!
یہ تھا‘ لی کا عزمِ صمیم۔ اس نے تیس تیس سال پرانے دوستوں کو رعایت نہ دی۔ اس کا پھل یہ ملا کہ عالمی سروے نے سنگاپور کو دنیا کا شفاف ترین ملک قرار دیا اور دس میں سے نو اعشاریہ اٹھارہ (9.18) نمبر دیے! ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے سنگاپور کو دنیا میں ساتواں شفاف ترین ملک قرار دیا! اندازہ لگایئے‘ دنیا کے سینکڑوں ممالک میں ساتواں نمبر! صرف دو عشروں کی محنت کے بعد!
آج جو آئین آئین اور پارلیمنٹ پارلیمنٹ کا راگ الاپ رہے ہیں‘ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر‘ خدا کو حاضر ناظر جان کر‘ تنہائی میں اپنے آپ سے پوچھیں اور پوچھتے وقت یہ فراموش نہ کریں کہ موت شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ لقمہ ہاتھ میں ہو تو منہ میں ڈالنے کا وقت نہیں ملتا! سیاسی وابستگی ایک طرف‘ دیانت دوسری طرف۔ خدا کے لیے اور اس کے رسولؐ کے لیے اپنے دل سے پوچھیں کہ کیا یہ حکومت آئین کے حوالے سے پیپلز پارٹی سے بہتر ہے؟ کیا پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے لوگ صاف ستھرے ہیں؟ کیا ایک ایم این اے کو صوبے کا عملی طور پر بادشاہ بنانا آئین کے مطابق ہے؟ کیا صاحبزادی کو اربوں کھربوں پر بٹھانا آئین کے مطابق ہے؟ کیا ہر دورے میں بھائی اور صاحبزادے کو ساتھ لے جانا آئین کی رُو سے درست ہے؟ کیا صوبے کا وزیراعلیٰ وفاقی وزیر کی قیادت کرتے ہوئے دوسرے ملکوں میں جا کر ملکی معاملات طے کر سکتا ہے؟ تو پھر کیا پرویز خٹک‘ ڈاکٹر عبدالمالک اور قائم علی شاہ کے خاندان بلند مرتبہ نہیں کہ وہ بھی وزیر خارجہ بن کر ملک ملک پھریں اور جناب احسن اقبال فائلیں اٹھائے ان کے پیچھے پیچھے ساری دنیا کو نظر آئیں؟ کیا اربوں کے منصوبوں میں لوہے کی بھاری مقدار اوپن ٹینڈر کے ذریعے لی جا رہی ہے اور کیا اس بارے میں قوم کو اعتماد میں لیا گیا ہے؟ کیا بھانجے کو اور سمدھی کو وزیر بنانا ناگزیر تھا؟ فاروق اعظم نے اپنے بیٹے کو کمیٹی میں ڈالا اور وضاحت کی کہ مشورے میں اُسے شریک کیا جائے گا لیکن خلافت کا امیدوار نہیں ہوگا۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ قرآن پاک میں کہاں لکھا ہے کہ بیٹا جانشین نہ ہوگا۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مالیات کا سربراہ شکایت کرتا ہے کہ صوبے کے گورنر نے بیت المال سے قرض لیا اور اب واپس نہیں کر رہا۔ گورنر قریبی عزیز تھا۔ (شاید فرسٹ کزن) امیر المومنین نے حکم دیا کہ رقم واپس کرو۔ جنگ کا زمانہ تھا۔ فرسٹ کزن ساتھ چھوڑ گیا لیکن پیشانی پر بل نہ پڑا۔ حضور! یہ نمازیں! یہ حرمین شریفین پر حاضریاں! سب بجا‘ لیکن حکمران کا حساب اس کے طرزِ حکومت سے کیا جائے گا۔ اس پروردگار کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں اس لکھنے والے کے بچوں کی جانیں ہیں‘ کل کوئی حمزہ شہباز‘ کوئی مریم نواز‘ کوئی عابد شیر علی‘ کوئی اسحاق ڈار کام نہ آئے گا! اس دن تو ماں بیٹے سے اور بیوی شوہر سے دور بھاگے گی! اور آپ تو خاندان کے 84… جی ہاں چوراسی افراد کے کیے کے جواب دہ ہوں گے جن کے بارے میں آپ کی آج کل سب سے بڑی حلیف پارٹی پیپلز پارٹی کے رہنما بابر اعوان نے پارلیمنٹ کے سامنے تذکرہ کیا ہے‘ تعداد بتائی ہے اور ابھی تک کسی گوشے سے تردید نہیں آئی!
اقربا پروری! دوست نوازی! کسی سرمایہ کار کے جہاز میں بچے سوار ہو کر چین جا رہے ہیں‘ کبھی ڈونگا گلی سے سرکاری ہیلی کاپٹر اڑتا ہے اور ذاتی دوست کو لانے کے لیے پروں کو پھڑپھڑاتا سینکڑوں میل دور جاتا ہے۔ پائلٹ کی تنخواہ اور تیل کا خرچ ٹیکس ادا کرنے والے مفلوک الحال عوام کے ذمے! چودہ لاشیں گرتی ہیں۔ چودہ خاندان خون کے آنسو روتے ہیں اور برادرِ خورد ڈنکے کی چوٹ اپنے پسندیدہ صحافیوں کو کہتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں کہ اگر ثابت ہو جائے کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ گولی چلانے کا حکم میں نے دیا تھا تو مستعفی ہو جائوں گا۔ پوری دنیا حیرانی سے دیکھ رہی ہے کہ اپنی فکر ہے! جب کہ صوبے کا حاکم اعلیٰ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ گولی چلانے کا حکم دینے والے کو ڈھونڈے اور سزا دے۔
نہیں! عالی جاہ! نہیں! نہیں ظل الٰہ نہیں! پاکستان کے عوام لیبیا‘ مصر یا شام کے عوام کی طرح تین تین عشروں تک صبر کرنے والے نہیں! برصغیر کا مزاج اور ہے! تاریخ پڑھیے! اور تاریخ پڑھتے وقت اس قائداعظم کے بارے میں بھی کچھ پڑھ لیجیے گا جو ایک ایک سرکاری پائی کا حساب دیتا تھا۔ جس نے بستر مرگ پر لیٹے ہوئے جرابیں واپس کر دی تھیں کہ نہیں! میں یہ نہیں پہنوں گا مہنگی ہیں! آپ کی حشر کے دن‘ قائداعظم سے ملاقات ہو تو انہیں اپنی کروڑوں روپے کی گھڑی ضروری دکھایئے گا۔ خوش ہوں گے! تھپکی دیں گے! آپ کی حکومت اتنی میلی کچیلی ہے کہ ظفر اقبال کا شعر یاد آ رہا ہے (بہ تصرف ادنیٰ) ؎
مجھے غَسّال ہی نہلائیں گے اب
بہت میلی کچیلی ہو گئی ہوں
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“