براہام ایرالی معروف مورخ ہیں۔ کیرالہ میں پیدا ہوئے ،کئی بھارتی اور امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھایا۔ اب چنائی(مدراس) میں رہتے ہیں۔ سلاطین دہلی اور مغل عہد پر کئی کتابیں لکھیں چونکہ ہندو نہیں ہیں اس لئے کئی بھارتی تجزیہ نگار انہیں’’اینٹی ہندو‘‘ اور متعصب‘‘ بھی قرار دیتے ہیں۔جن دنوں ابراہام ایرالی سلاطین کے عہد پر تحقیق کررہے تھے ان کی ایک کلاس فیلو انہیں چالیس برس بعد ملی۔ اب وہ بیرون ملک ایک کامیاب اور قابل رشک کاروباری شخصیت تھی۔ ایک شام دونوں سیر کررہے تھے کہ ا چانک ان کی دوست نے پوچھا تحقیق کے دوران ایسا کون سا واقعہ ملا جس نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہو۔ ایرالی نے بتایا کہ مراکش سے آنے والا ابن بطوطہ سلطان محمد تغلق کے دربار میں اعلیٰ مقام پر فائز تھا۔ یہ چودھویں صدی عیسوی کے وسط کا زمانہ تھا۔ بادشاہ نے اسے اپنا سفیر بنا کر چین بھیجا۔ چین جاتے ہوئے کچھ عرصہ ابن بطوطہ مالدیپ میں ٹھہرا۔ وہاں ایک چھوٹے سے جزیرے میںجانے کا اتفاق ہوا ،پورے جزیرے میں صرف ایک جھونپڑا تھا۔ گارے اور درختوں کی شاخوں سے بنا ہوا، وہاں اسے وہ شخص ملا جو اس جزیرے کا واحد باشندہ تھا۔ اس کی بیوی بچے بھی ساتھ رہتے تھے۔ پام کے کچھ پودے ، کچھ کیلوں کے درخت اور ایک کشتی جس کی مدد سے وہ کھانے کے لئے مچھلیاں حاصل کرتا تھا۔ بس یہ تھی اس کی کل ملکیت! ابن بطوطہ قسم اٹھا کر کہتا ہے کہ اسے اس شخص پر رشک آیا۔اس نے خواہش کی کہ کاش! یہ جزیرہ اس کا ہوتا اور وہ وہیں رہتا۔ یہاں تک کہ اس کا آخری وقت آپہنچتا!
ایرالی جب اپنا حاصل مطالعہ سنا چکے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی دوست کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ کچھ دیر تک دونوں خاموشی سے چلتے رہے، خلیج بنگال کی لہریں تھیں اور پانڈی چری کا مسحور کن ساحل، پھر خاموشی کا قفل ٹوٹا۔ خاتون نے بتایا کہ ظفر یابی اور شہرت کے لئے اس نے کیا کیا قربانیاں دیں!
اپنے زمانے میں ابن بطوطہ شہرت کے بام عروج پر تھا جس ملک میں بھی گیا دولت اور منصب کو منتظر پایا۔ (طنجہ شہر کے پرانے حصے میں جہاں گلیاں خوبصورت پتھروں کے فرش کی تھیں، اس قلم کار نے ابن بطوطہ کے مزار پر حاضری دی۔ افسوس !کمرہ مقفل تھا اور کلید بردار کسی کام سے بازار گیا ہوا تھا)۔ آپ کا کیا خیال ہے ابن بطوطہ کو کس شے نے رشک میں مبتلا کیا؟ جزیرے کی خوبصورتی اور پام کے پودوں نے؟ نہیں بام شہرت پر کھڑے اس شخص کو جزیرے میں رہنے والے کی گمنامی پر رشک آیا!آپ اپنے ارد گرددیکھئے مشہور ترین شخصیات بلند نامی کی جس فضا میں زندگی بسر کررہی ہیں، اس پر غور کیجئے آپ اگر گمنام ہیں تو غیر اختیاری طور پر خدا کا شکر ادا کرنے لگیں گے۔
آپ جناب آصف زرداری کو دیکھ لیجئے، گلف نیوز سے لے کر گارڈین اور نیویارک ٹائمز تک ہر جگہ ان کا ذکر ملے گا۔ یو اے ای، چین، برطانیہ اور امریکہ ا ن کے محلے کے گلی کوچے لگتے ہیں، ان کے اشارہ ابرو پر پاکستان کے ہر گوشے سے پارٹی کے زعماء دبئی کی طرف چل پڑتے ہیں لیکن انسان ان کے بیانات پڑھتا ہے ، ان کے خیالات جانچتا ہے، ان کے مبلغ علم اور اس محدود دنیا کو دیکھتا ہے جس سے وہ باہر نہیں نکل سکتے تو ورطۂ حیرت میں گم ہوجاتا ہے۔ تازہ ترین بیان میں انہوں نے اسلام آباد کو سومنات بنایا یا نہیں، عمران خان کو محمود غزنوی ضرور بنادیا ہے۔ سیاست کا ذکر ہمیشہ اس طرح کرتے ہیں جیسے یہ تجارت یا زراعت کی طرح ایک پیشہ ہو۔ ’’سیاسی سوچ‘‘ ان کا پسندیدہ کلام ہے، وہ اکثر و بیشتر دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی سوچ سیاسی ہے جبکہ دوسرے اس سے محروم ہیں۔ پاکستان کی ہم عصر تاریخ کا ادنیٰ ترین طالبعلم بھی جانتا ہے کہ‘‘سیاست‘‘ سے جناب زرداری کی مراد’’مفاہمت‘‘ اور حکومت کو بچانا رہا ہے۔ دوست نوازی کی داستانیں جیل کے حوالے سے لے کر آئینی مناصب پر’’اہل‘‘ حضرات کو بٹھانے تک زبان زد عام ہیں۔ قاعدے قانون کو جوتے کی نوک پر رکھنے کا عالم یہ ہے کہ میڈیاچیخ چیخ کر بتارہا ہے کہ چودہ کروڑ روپے ان کے عہد ہمایونی میں پسندیدہ افسروں میں عیدی کے طور پر بانٹ دئیے گئے لیکن’’سیاسی سوچ‘‘ وضاحت کی توفیق ہی نہیں دیتی۔ افسر اور جوان شہید ہوتے رہے ،تباہی مچاتے رہے لیکن’’سپریم کمانڈر‘‘ کبھی کسی موقع پر ، کسی جائے واقعہ پر نہ پہنچے۔ اعتزاز احسن اور رضا ربانی جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین شخصیات کی موجودگی میں پست ترین ذہنی سطح کے حاملین کو اقتدار کی باگ سونپی یہاں تک کہ دہلی کے رسوائے زمانہ بادشاہ گروں’’سید برادران‘‘ کی یاد تازہ ہوگئی۔ حج کی وزارت سے لے کر گوجر خان تک ہر جگہ اسیکنڈل ہی اسیکنڈل، رسوائی ہی رسوائی، جس ’’سیاسی سوچ‘‘ کی دھوم مچائی جاتی ہے اس میں کسی سنجیدہ مسئلے اور اس کے حل کا تصور تک نہیں!زرعی اصلاحات ، نظام تعلیم کی مہلک خرابیاں ،ناخواندگی، بلوچستان میں رائج کرۂ ارض کا فرسودہ ترین سرداری سسٹم، روز افزوں زوال پذیر قومی ادارے، ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کی ہولناک تعداد۔ کیا آج تک’’سیاسی سوچ‘‘ نے ان مسائل کا سرسری طور پر بھی ذکر کیا؟شہرت کے ساتویں آسمان پر چمکنے کے باوجود ایک پڑھا لکھا اوسط پاکستانی اپنے ذہن میں انہیں کیا مقام دیتا ہے؟ اور ان کے بارے میں کیا خیالات رکھتا ہے؟
ایک مشہور گلوکار جو اب مذہبی پروگراموں کے اینکر بن گئے ہیں ،کی مثال لے لیجئے ،رواں پیش منظر میں شاید ہی کسی شخص کو اتنی شہرت ملی ہو۔ موسیقی کے اسرار و رموز جاننے میں انہوں نے ایک مدت محنت کی لیکن دین کا علم حاصل کئے بغیر، واعظ اور مبلغ کی حیثیت سے وہ وہاں پہنچ گئے جہاں علوم اسلامی میں پوری پوری عمریں کھپانے والے نہ پہنچ سکے، کہا تو یہ گیا تھا کہ
عمرہا باید کہ تایک سنگ خارہ زآفتاب
دربدخشاں لعل گردد یا عقیق اندر یمن
پتھر کو لعل بدخشاں یا عقیق یمنی بننے میں عمریں درکار ہوتی ہیں۔ وہ شہرت کے گھوڑے کو مسلسل مہمیز لگاتے رہے، باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کسی چینل پر وہ نظر نہ آئیں۔ کاش! تحصیل علم میں گوشہ نشین ہوجاتے اور پھر علوم اسلامی کی گہرائی اور گیرائی لئے ہوئے ظاہر ہوتے اور متانت اور کم نمائی ان کا اثاثہ ہوتا۔ اسکرین پر بگٹٹ بھاگتے اب منہ کے بل گر پڑے ہیں جنہوں نے فارغ التحصیل کیے بغیر دستار بندی کی تھی، انہوں نے فوراً لاتعلقی کا اعلان کردیا۔
فاعتبرو یااولی الابصار!!
ایک محترم وفاقی وزیر کو دیکھ لیجئے اس وقت میڈیا ان کے حضور دست بستہ کھڑا ہے۔ کوئی لفظ ایسا نہیں جو ان کے نطق سے نکلے اور پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا اسے ہائی لائٹ نہ کرے۔ شخصیت جاذب نظر ہے اور خوشگوار!حاضر جواب ہیں اور گفتگو کے فن سے آشنا ،لیکن ماہ شب چہاردہم کو خود ہی سیاہ رنگ ابر پاروں سے ڈھانپ دیتے ہیں۔ کیا ضرورت تھی عمران خان کو جنرل اروڑہ سے تشبیہ دینے کی؟ ایک لکیر ایک حد ہوتی ہے جہاں پہنچ کر رک جانا عقل مندی ہوتی ہے۔ قومی سطح کے رہنمائوں پر ہم جس قدر بھی تنقید کریں، ملک دشمنی کا الزام نہیں لگا سکتے۔ جنرل ضیاء الحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک۔ سابق صدر آصف زرداری سے لے کر میاں نواز شریف تک۔ چوہدری شجاعت سے لے کر اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمن اور عمران خان تک۔ کسی کی حب ا لوطنی کو چیلنج کرنا مضحکہ خیز حرکت ہے۔ ان سب جرنیلوں اور سیاستدانوں پر ہر قسم کی تنقید کی جاسکتی ہے، ایک ایک خامی کو اچھالا جاسکتا ہے لیکن کسی کو وطن دشمن لوگوں سے جاملانا بازی باریش بابا ہم بازی والی بات ہے، اگر کوئی بداندیش میاں نواز شریف کے بارے میں ایسی بات کرے تو اس کی بھی مذمت کرنی چاہئے۔ وزیر اعظم بھارت گئے اور صاحبزادہ کی معیت میں ایک بزنس مین کے گھر جاپہنچے۔ زیادہ سے زیادہ اسے ایک غیر دانشمندانہ اقدام کہا جاسکتا ہے۔ ایک تقریب میں بار بار انہوں نے کہا کہ ہمارا کلچر اورHeritageایک ہے اور یہ تو درمیان میں ایک لکیر آگئی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس تقریر کو کروڑوں لو گ سن رہے ہیں۔ ساتھ ہی قائد اعظم کی تقریر ہے جس میں وہ اپنی گرجدار آواز میں کہہ رہے ہیں کہ ہمارا کلچر اور دوسری چیزیں مختلف ہیں۔ اب کیا اسے وطن دشمنی کا نام دیا جائے؟ نہیں اسے زیادہ سے زیادہ کم علمی یا سطحیت کا شاخسانہ کہا جائے گا! یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ میاں صاحب کے نزدیک تقسیم روا نہیں تھی۔ ہاں!انہیں سمجھایا جاسکتا ہے کہ کلچر صرف آلو گوشت یالاہور سویٹ مارٹ یا بمبئی کلاتھ سٹور کا نام نہیں اور بھی بہت کچھ ہے۔بات شہرت سے چلی تھی،فائدہ اس شہرت کا جس کے ساتھ سوالیہ نشان لگا ہو!اسی لئے تو عقل مندوں نے ایسے لوگوں پر رشک کیا ہے جو کسی مجلس میں موجود ہوں تو کوئی انہیں اہمیت نہ دے اور اٹھ کر چلے جائیں تو کمی نہ محسوس ہوا،مجید امجد نے ایسے ہی گمنا م کرداروں کا ذکر کیا تھا
گھاس کی گٹھڑی کے نیچے وہ روشن روشن چہرہ
روپ جو شاہی ایوانوں کے پھولوں کو شرمائے
راہ گزر پر سوکھے پتے چننے والی بانہیں
بانہیں جن کو دیکھ کے موج کوثر بل کھا جائے
بیلوں کے چھکڑوںکے پیچھے چلتے زخمی پائوں
پائوں جن کی آہٹ سوئی تقدیروں کو جگائے
سوال یہ ہے کہ مطلوب کیا ہونا چاہئے؟شہرت؟ یا روشن چہرہ؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“