گاؤں سے کچھ فاصلے پر جوہڑ تھا۔ پانی اس کا گندہ تھا۔ بے حد گندہ! آنے جانے والی سوزوکیاں گوبر اور مٹی سے لتھڑے ہوئے پہیے تو دھوتی ہی تھیں‘ بھینسیں بھی پانی کی مقدار میںحسبِ توفیق ’’اضافہ‘‘ کرتی رہتی تھیں۔ مولوی صاحب نے یہ حال دیکھا تو مناسب سمجھا کہ فقہی مسئلہ واضح کر دیں؛ چنانچہ مسجد میں ایک دن جب لوگ جمع تھے تو انہوں نے سمجھایا کہ اس جوہڑ کے پانی سے وضو نہیں ہوتا۔ ایک کسان پچھلی صف سے اٹھا اور بلند آواز سے بولا۔ مولوی صاحب! میرا وضو تو وہاں ہو جاتا ہے۔ روز کرتا ہوں!
آپ کا کیا خیال ہے مولوی صاحب اگر اُس کسان کے سامنے فقہ کی کتابیں کھول کر بیٹھ جائیں تو وہ کسان قائل ہو جائے گا؟
گندے جوہڑ اس ملک میں بے شمار ہیں۔ پچھلی صف سے اُٹھ کر مولوی صاحب کی فقہ کو چیلنج کرنے والے کسان بھی کم نہیں۔ ان میں سے کچھ پہلی صف میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کسان لکھاری اور دانش ور ہیں! ان دانش ور کسانوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کر کرپشن جتنی بھی ہے‘ جہاں بھی ہے جیسی بھی ہے‘ فوج اسے نہ چھیڑے۔ کرپشن کے خلاف ایکشن لینا سیاسی حکومت کا کام ہے۔ فوج کے آئینی کردار کا تقاضا نہیں کہ وہ کرپشن صاف کرے۔ کچھ تو کرپشن کو ہٹانے کے لیے خصوصی قوانین کے بھی خلاف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عام قوانین‘ عام عدالتیں‘ عام کارروائیاں کرپشن کے لیے کافی و شافی ہیں۔
اب یہاں جوش کے بجائے ہوش کی ضرورت ہے۔ وہ یوں کہ جو دانشور یہ رائے رکھتے ہیں ان کی نیت پر شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ وہ کرپشن کے حامی نہیں‘ اصل میں یہ بات وہ جمہوریت کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ سارے مہذب ملکوں میں اور تمام ترقی یافتہ معاشروں میں ایسے معاملات سیاسی حکومتیں ہی نمٹاتی ہیں۔ ہمارے یہ دانش ور چاہتے ہیں کہ جمہوری حکومت ہی‘ جسے عوام نے منتخب کیا ہے‘ کرپشن کے انسداد کا کام کرے۔ مگر ع مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات… وہ یہ بھول گئے ہیں کہ لمحۂ موجود میں عوام‘ یعنی جمہور‘ کیا چاہتے ہیں؟
آپ کا کیا خیال ہے آج اگر عوام سے یہ سوال ریفرنڈم کی صورت میں کیا جائے کہ:
’’کرپشن کے انسداد کا کام سیاسی حکومت پر چھوڑ دیا جائے یا فوج کے سپرد کیا جائے؟‘‘
تو عوام کا جواب کیا ہوگا؟ بچہ بھی جانتا ہے کہ عوام کا جواب کیا ہوگا؟ اس وقت کسی بھی ایشو پر عوامی رائے معلوم کرنے کے لیے سوشل میڈیا بہترین ذریعہ ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ہر روز لاکھوں کروڑوں پاکستانی سوشل میڈیا پر کرپشن کے حوالے سے‘ سیاسی حکومتوں پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ وہ ہر ممکن طریقے سے سیاست دانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ ان کی کرپشن پر طنز کرتے ہیں۔ اپنے دل کا درد‘ دکھاتے ہیں۔ اہلِ سیاست کی کرپشن پر اور کرپشن کی سرپرستی پر آنسو بہاتے ہیں اور فوج اور رینجرز جو کچھ کر رہے ہیں‘ اس کی تائید کرتے ہیں!
سیاسی حکومت کن کی ہے؟ پانچ سال پیپلز پارٹی کی حکومت رہی۔ گزشتہ سوا دو سال سے مسلم لیگ نون برسراقتدار ہے۔ کرپشن کے معاملے میں ان حکومتوں کا ٹریک ریکارڈ کیا ہے؟ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کرپشن کا معاملہ ان حکومتوں پر چھوڑ دیا جائے اور پھر وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کرپشن کو ختم ہونا چاہیے تو اس سے ہمدردی ہی کی جا سکتی ہے!
خواب دیکھنے پر پابندی ہے نہ ہی خواب دیکھنا قابلِ دست اندازی ٔپولیس۔ گلی گلی پھر کر ’’خواب لے لو خواب‘‘ کا آوازہ لگانے سے بھی کوئی نہیں روکتا۔ اگر کچھ لوگ خواب دیکھ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی سیاسی حکومتوں جو کبھی یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں برسرِ کار تھیں اور کبھی راجہ پرویز اشرف کی رہنمائی میں چلائی جا رہی تھیں‘ کرپشن کے خلاف جہاد کر رہی تھیں اور اب مسلم لیگ کی حکومت کرپشن کو ختم کرنے کے در پے ہے‘ تو دنیا کی کوئی طاقت ایسے خواب دیکھنے سے اور ایسے خواب فروخت کرنے سے کسی کو نہیں روک سکتی ؎
سنہری نیند سے کس نے مجھے بیدار کر ڈالا
دریچہ کھُل رہا تھا خواب میں‘ دیوار کر ڈالا
خیر‘ پیپلز پارٹی کی حکومت کو تو جانے دیجیے۔ حکومتِ وقت کی خدمات بھی اس سلسلے میں کم نہیں! ماڈل ٹائون ہلاکتوں اور ڈسکہ میں دو وکیلوں کے دن دہاڑے پولیس کے ہاتھوں قتل کے کیسوں میں اب تک کتنوں کو سزا ہوئی‘ اس معاملے کو بھی جانے دیجیے کہ دلیل یہ سامنے آ جائے گی کہ قتل کے کیسوں کا کرپشن سے کیا تعلق ہے؟ ماڈل ٹائون ہلاکتوں کے قصے میں جس بیوروکریٹ کا نام سرفہرست تھا‘ اسے بین الاقوامی تجارتی ادارے میں سفیر مقرر کر کے ملک سے باہر بھیج دینا بھی کرپشن نہیں!
گزشتہ برس کی جولائی کا وسط تھا۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ٹڈاپ) سے متعلقہ بارہ کرپشن کیسوں میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ضمانت کروالی۔ ایف آئی اے نے ضمانت کے اس فیصلے کو چیلنج کر دیا۔ ایف آئی اے کا مؤقف تھا کہ عدالت نے ضمانت منظور کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ ایف آئی اے نے یہ بھی بتایا کہ سابق وزیراعظم کے ملوث ہونے کا کافی و شافی ثبوت موجود ہے؛ چنانچہ ایف آئی اے نے استدعا کی کہ ضمانت منسوخ کر دی جائے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ اُن دانش وروں کو جو کرپشن کے انسداد کا کام سیاسی حکومت پر چھوڑ دینا چاہتے ہیں‘ اسی پر خصوصی غور فرمانا چاہیے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ جو کچھ ایف آئی اے کہہ رہی ہے‘ وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر کہہ رہی ہے اور ’’اب ایف آئی اے اپنی درخواست واپس لینا چاہتی ہے‘‘۔ چنانچہ ایف آئی اے نے رومال سے ماتھا پونچھا‘ ضمانت برقرار رہی اور سابق وزیراعظم سامنے نظر آنے والی بلا سے محفوظ ہو گئے۔ یہی وہ کیس ہے جس میں تین روز پہلے یوسف رضا گیلانی اور امین فہیم کی گرفتاری کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری ہوئے ہیں۔ تو کیا اس کی پشت پر سیاسی حکومت کا انسدادِ کرپشن کا جذبہ ہے؟
قطر سے گیس کی خریداری ایک اور مثال ہے۔ دس مئی 2015ء کے کالم میں نذیر ناجی صاحب نے اس ضمن میں کچھ سوالات اٹھائے تھے مثلاً یہ کہ معاہدہ مارچ 2015ء میں ہو چکا تھا‘ پارلیمنٹ کو اس سے کیوں بے خبر رکھا گیا؟
مثالوں کی کوئی حد نہیں! بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہر ملک کے اپنے حالات ہیں‘ اپنا ماحول ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح ہر مریض کا اپنا الگ معاملہ ہے۔ کھانسی شدید ہو تو سنا ہے ہائی بلڈ پریشر کے مریض کو کف سیرپ نہیں پلانا چاہیے۔ اب اگر کوئی اصرار کرے کہ نہیں! کھانسی کے معاملے کو کف سیرپ ہی کے ذریعے حل کرنا چاہیے تو مریض کی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ سنگاپور پر جب مغربی میڈیا نے اعتراض کیا کہ محض گولی چلانے پر موت کی سزا کیوں‘ جب کہ گولی سے کوئی مرا نہ زخمی ہوا؟ تو وزیراعظم لی نے ہنس کر جواب دیا کہ تم اپنے بندوں کو مروانے کے بعد قاتل کو سزا دیتے ہو‘ ہم اسے پہلے ہی دے دیتے ہیں!
اس میں ذرہ بھر اشتباہ نہیں کہ ہمارے سیاست دان ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو بچاتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم اسی ملک میں تھے۔ سیاسی حکومت چاہتی تو انہیں اور دوسروں کو بھی‘ پکڑ سکتی تھی۔ ’’غیر سیاسی‘‘ قوتوں کو اس کارِ خیر کا موقع ہی نہ ملتا! یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم صرف حکومتِ وقت کی بات نہیں کر رہے۔ کم و بیش تمام سیاسی حکومتوں کا رویہ ایک سا ہی رہا ہے۔
سیاست دانوں کا طرزِ عمل اس سلسلے میں کیا ہے؟ اس کا اندازہ ایک خبر سے لگایئے جو روزنامہ ’’دنیا‘‘ نے دو دن پہلے شائع کی ہے۔
’’وزیر پٹرولیم آج کرپشن اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں گرفتار سابق وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کی مبینہ آئل مارکیٹنگ کمپنی ایڈمور کے شکارپور ڈپو کا افتتاح کراچی کے مقامی ہوٹل میں کریں گے۔ ایڈمور کو ڈاکٹر عاصم کے فرنٹ مین علی چشتی چلا رہے ہیں۔ ذرائع نے روزنامہ ’’دنیا‘‘ کو بتایا کہ ایڈمور کا ڈپو صرف کاغذوں میں ہے۔ اور یہ صرف اوگرا کے پاس جمع کرائے فنانشل پلان کی خانہ پری کے لیے دکھایا جا رہا ہے تاکہ اتھارٹی کی طرف سے ڈپو نہ بنانے پر بھاری جرمانہ سے بچا جا سکے۔ پٹرولیم مارکیٹ کے ذرائع کے مطابق سابق وزیر پٹرولیم نے ایڈمور کے متعدد اجلاسوں کی صدارت بھی کی ہے۔ اس سلسلے میں جب وفاقی وزیر پٹرولیم کو ایس ایم ایس کیا گیا تو وفاقی وزیر نے جواب دیا کہ ایڈمور ایک آئل مارکیٹنگ کمپنی ہے‘ کمپنی نے آئل سٹور قائم کرنے کے لیے کراچی میں ایک پروگرام کا اہتمام کیا ہے‘ میرا اس پروگرام میں شرکت کرنے کا پروگرام ہے۔ وزارت پٹرولیم کے ریکارڈ کے مطابق سابق وزیر پٹرولیم کے ایڈمور میں حصص نہیں ہیں۔ واضح رہے ایڈمور پٹرولیم وزیراعظم میاں نوازشریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری اور سوئی ناردرن گیس کمپنی کے چیئرمین سعید مہدی کی ملکیت تھی جسے ڈاکٹر عاصم حسین نے اپنے فرنٹ مین اور دارالصحت کے مالک علی چشتی کے سپرد کیا ہوا ہے‘‘۔
اس خبر میں روزنامہ ’’دنیا‘‘ نے کسی پر الزام نہیں لگایا۔ مگر اس خبر سے اُس کنفیوژن کا پتہ چلا ہے جو اہلِ سیاست نے پھیلائی ہوئی ہے۔ کیسے کیسے جال ہیں جو پھیلے ہوئے ہیں۔ کس نام سے معاملہ شروع ہوتا ہے اور کن کن ناموں تک پہنچتا ہے۔ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے‘ سب کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں جا ملتے ہیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“