جمال احسانی مرحوم یارِ طرح دار تھا اور شاعر نغزگو‘ کیسے کیسے شعر کہہ گیا ؎
تمام تیشہ بدست حیرت میں گم ہوئے ہیں
چراغ سے کاٹ دی ہوا کی چٹان میں نے
اوریہ بھی ؎
یہ لالٹین ہے کہ چوکیدار کے
نحیف ہاتھ میں کوئی ستارہ ہے
مزے لے لے کر واقعہ سنایا کرتا کہ ایک صاحب کراچی میں اپنے آپ کو مغل خانوادے کا آخری چشم و چراغ کہتے تھے۔ اس ضمن میں انہوں نے لال قلعہ قسم کی جائیدادوں کی وراثت کا دعویٰ بھی کیا ہوا تھا۔ ایک دن جوش ملیح آبادی کے پاس آئے اور شعر سنانے شروع کیے ۔ بے وزن‘ بے ہنگم اور مضحکہ خیز شاعری تھی۔ جوش صاحب کہاں تک برداشت کرتے‘ زچ ہو کر ملازم سے کہا اسے باہر نکال دو۔ وہ صاحب باہر نکلتے ہوئے جوش صاحب کو کہے جا رہے تھے:’’جوش صاحب! دم خم ہے تو شاعری میں مقابلہ کیجیے ۔ غنڈہ گردی پر کیوں اترآئے ہیں؟‘‘
زوال کی مثال دینے کے لیے یہ کوئی زیادہ موزوں واقعہ نہیں‘ اس لیے کہ واقعہ کم اور لطیفہ زیادہ ہے۔ زوال آتا ہے تو ہمہ گیر ہوتا ہے۔ آندھی آتی ہے تو گلاب ہو یا نسترن‘ کسی کو نہیں چھوڑتی ؎
تم اپنی شمع تمنا کو رو رہے ہو فراز
ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ سب کے گئے
زوال آیا ہے تو ایسا ہمہ گیر کہ کچھ نہیں بچا۔ یونیورسٹیاں سیاست کے اکھاڑے بن گئیں اور سیاسی جماعتیں ڈیروں پر پرورش پانے والے گروہ! بلندی کیسی تھی اور پستی کیسی ہے! کہاں ذوالفقار علی بھٹو ‘ اور کہاں زرداری خاندان! کہاں قائد اعظم اور کہاں میاں محمد نواز شریف‘ کہاں مولانا مودودی اور کہاں منور حسین اور سراج الحق ! کہاں وزیر اعظم لیاقت علی خان اور کہاں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف ۔ ہمہ گیرزوال ہے کچھ بھی نہیں بچا۔ لیکن جو زوال اردو بولنے والی آبادی پر آیا ہے‘ اسے دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ کمر سے پٹکا باندھ کر بال کھول لیے جائیں ‘ اورسینہ کوبی وہ کی جائے کہ ؎
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے
بادلو ہٹ جائو دے دو راہ جانے کے لیے
یہ جو خطہ ہے کرنال سے پٹنہ تک کا۔1206ء میں دہلی کے پہلے سلطان قطب الدین ایبک کی تخت نشینی سے لے کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے عروج نامسعود تک۔ برصغیر کے مسلمانوں کی نہ صرف عسکری اور سیاسی قیادت کرتا رہا۔تعلیمی ثقافتی اور سماجی رہبری بھی اسی کے پاس تھی ! تغلقوں کا عہد تھا یا مغلوں کا دنیا کے چوٹی کے علماء ‘ دانش ور اور اہل کمال اسی خطے میں تھے ٹھیک ہے زوال کا ذمہ دار بھی یہی خطہ تھا لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ زوال کے زمانے میں بھی ڈھارس بندھی تو یہیں سے! بریلی ہی کے سید احمد شہید اور پٹنہ ہی کے ولایت علی اور عنایت علی برادران نے تحریک مجاہدین چلائی۔ غلام رسول مہر‘تحریک مجاہدین کی تاریخ میں جن مجاہدوں کے نام گنواتے ہیں ان میں میانوالی کے اعوان بھی تھے لیکن قیادت شمالی ہند ہی کی رہی! مسلمانوں کو جدید تعلیم و ترقی کی راہ پر لانے والے سر سید سے لے کر مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا احمد رضا خان بریلوی تک رہنما یہیں سے اٹھے۔ ابو الکلام آزاد‘ علی برادران‘ حکیم اجمل خان ‘ حسرت موہانی‘ سب یہیں سے تھے قائد اعظم جنوب سے تھے مگر مسلم لیگ کی جدوجہد کا مرکز یو پی تھا! قائد اعظم کے ساتھ کھڑے ہونے والے علماء‘ مولانا اشرف علی تھانوی‘ شبیر احمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع یہیں سے تھے اور تو اور قیام پاکستان کے بعد اس ملک کی علمی ثقافتی اور تنظیمی باگ ڈور حکیم سعید‘ پروفیسر محمود حسین ‘ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور پروفیسر کرار حسین جیسوں کے ہاتھوںمیں رہی۔
مگر افسوس! صد افسوس ! آج ایم کیو ایم جس طرح اپنے آپ کو تضحیک کا سامان بنا رہی ہے‘ دماغوں اور دلوں میں اپنے بارے میں جو تاثر قائم کیے جا رہی ہے‘ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی تعلیمی اور ثقافتی قیادت کرنے والوں نے اپنا کیا حال کر لیا ہے ؎
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جوگوشِ نصیحت نیوش ہے
ایک زمانہ تھا جب ان حضرات کے آبائو اجداد اپنی عزت کے بارے میں اس قدر حساس تھے کہ غربت میں بھی وقار قائم رکھتے تھے‘ فاقوں سے مر جاتے تھے کسی کے سامنے دست سوال درازنہیں کرتے تھے‘ فکر یہ ہوتی تھی کہ لوگ کیا کہیں گے۔
اب حالت یہ ہے کہ کون سی بات ہے جو نہیں کی جا رہی اور کون سی تضحیک ہے اور پھبتی‘ جو اڑائی نہیں جا رہی ! بلیک میلنگ کا الزام لگ رہا ہے۔ دہشت گردی‘ قتل و غارت اورجسموں میں ڈرلنگ کرنے کے الزامات تو پرانے ہو چکے ’’بوری بند‘‘ ایسا محاورہ بنا کہ نتھی ہی ہو گیا۔
جب بھی الطاف بھائی قیادت سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہیں لوگ ہنسنا شروع کر دیتے ہیں ۔ جس بے بسی اور بے کسی کے عالم میں بیٹھ کر ٹیلی فونک تقریریں سنی جاتی ہیں‘ اس کے لیے کیا کیا تشبیہیں نہیں تراشی گئیں۔ اب جو قومی اسمبلی میں استعفے دیئے گئے ہیں تو خلق خدا کہہ رہی ہے کہ انہیں استعمال کیا جا رہا ہے اور مقصد استعمال کرنے والوں کا کراچی میں لیے گئے ایکشن کی کشتی میں سوراخ کرنا ہے۔ کثیر تعداد لوگوں کی یہ بھی رائے رکھتی ہے کہ یہ بلیک میلنگ ہے جو اس گروہ کا وتیرہ ہی بن چکا ہے!
اردو بولنے والی آبادی کے ساتھ دو المیے ہوئے اور دونوں المیے ایسے کہ مُہر پر مُہر لگتی گئی! سندھی وڈیروں‘ بلوچی جاگیرداروں اور اپنے آپ کو پاکستانی کہلانے کے بجائے پٹھان پنجابی کشمیری کہلانے والوں نے اردو سپیکنگ حضرات کو دیوار سے لگایا یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو مہاجر کہلانے پر مجبور ہو گئے ۔ استبدادی کوٹہ سسٹم تو ناانصافی کی طویل داستان کا محض ایک باب ہے ! اس المیے نے انہیں پاکستانی سے مہاجر بنا دیا؟ دوسرا المیہ یہ ہوا کہ مڈل کلاس کے نام پر ایم کیو ایم بنی تو اس کے رہنمائو ں کی کثیر تعداد مڈل کلاس کو خیر باد کہہ کر اپر کلاس میں منتقل ہو گئی۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ کراچی اور حیدر آباد کے لوگ جانتے بوجھتے ہوئے اور سب کچھ سامنے دیکھتے ہوئے بھی خاموش رہے اور ساتھ رہے! ورنہ کیا انہیں نہیں معلوم تھا کہ لندن میں براجمان قیادت‘ ہاتھوں سے ایک پتہ توڑے بغیر‘ قابل رشک معیار زندگی سے لطف اندوز ہو رہی ہے! کیا وہ نہیں جانتے کہ کن کن لیڈروں کے کنبے امریکہ میں کہاں کہاں رہ رہے ہیں! دیکھتے دیکھتے اثاثے کروڑوں اربوں تک پہنچ گئے۔ وہ جو اداکارائیں ہمیشہ پچیس برس ہی کی رہتی ہیں‘ تو لیڈر بھی مڈل کلاس ہی میں رہے! دوسری طرف شہرت اس قدر خراب ہوئی کہ حکیم سعید‘ رئیس امروہی اور صلاح الدین جیسے مشاہیر‘ جو انہی کے چشم و چراغ تھے‘ خلق خدا نے انہیں کے کھاتے میں ڈالے۔ ثبوت ہو نہ ہو‘ زبان خلق کو کون روک سکتا ہے!!
ایک سوال ہے جو رہ رہ کر ذہن میں اٹھتا ہے۔ دماغ میں چبھتا ہے اور دل میں گرہ ڈالتا ہے۔ جب قائد تحریک ٹیلی فونک خطاب کے دوران‘ گانے گاتے ہیں اور عجیب و غریب کیفیتوں کے مظاہرے کرتے ہیں تو اس وقت تحریک کے رہ نما‘ اکثریت جن کی سنجیدہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘ کیا نہیں سوچتی کہ صورتحال مضحکہ خیز ہے سخت مضحکہ خیز اور یہ کہ تحریک سے باہر کے لاکھوں کروڑوں لوگ ہمارے بارے میں اور ہمارے قائد کے بارے میں کیا کہیں گے اور کیا رائے رکھیں گے؟کیا برصغیر کے مسلمانوں کی علمی اور دینی قیادت کرنے والوں کے قابل فخر جانشینوں میں سے کسی کو بھی نہیں معلوم کہ زکوٰۃ ‘ فطرانے اور کھالیں سیاست چلانے کے لیے نہیں ہوتیں؟
اُٹھو! اے اہل کراچی اُٹھو! خدا کے لیے انگڑائی لو! اپنے اوپر بلیک میلنگ جیسے پست الزامات لگنے کے اسباب رفع کرو! خدا کی قسم ! جن لوگوں کی جدوجہد چند وزارتوں کے حصول پر موقوف رہی‘ وہ تمہارے نمائندے نہیں ہو سکتے! کسی کے ہاتھ میں نہ کھیلو! مضحکہ خیز گیت گانے والوں کی پرورش کا تم کیوں سامان بنتے ہو؟ جن کے اہل و عیال بحراوقیانوس کے پار ہیں‘ انہیں وہیں بھیجو‘ اٹھو‘ انگڑائی لو‘ استعفوں کا کھیل تمہاری قامت سے بہت نیچے اور تمہاری شان سے بہت کم ہے! اپنے عالی مرتبت نام کے ساتھ ’’بوری بند‘‘ جیسے مکروہ سابقے اور لاحقے لگانے والوں کی نام نہاد لیڈری کو بوری میں بند کر کے بحیرہ عرب میں پھینک دو! قیادت ایسی چنو جو سر سید احمد خان‘ علی برادران ‘ حکیم اجمل خان‘ لیاقت علی خان‘ حکیم محمد سعید‘ پروفیسر کرار حسین مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا احمد رضا خان بریلوی کے پائے کی ہو! اپنا رشتہ پورے ملک کی مڈل کلاس سے جوڑو! سب تمہارے اپنے ہیں اور تمہیں مایوس نہیں کریں گے!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“