یہ واقعہ غالباً دوست عزیزرئوف کلاسرا نے لکھا ہے۔ جنگ عظیم شروع ہوئی تو برطانیہ کو ہندوستانی جنگجوئوں کی ضرورت پڑی۔ شہر شہر بستی بستی بھرتی کا کام شروع ہو گیا۔ ڈپٹی کمشنروں کو اُوپر سے احکام ملے کہ عوام کو ترغیب اور تحریص دی جائے۔ انگریزی میں اس کیلئے جامع لفظ ایجاد ہوا ہے،
Motivate
کرنا! جنوبی پنجاب کے کسی گائوں میں ڈپٹی کمشنر نے دربار منعقد کیا اور تقریر میں کہا کہ ملکہ معظمہ کو اپنے اور اپنی سلطنت کے دفاع کیلئے تمہارے فرزندوں کی ضرورت آن پڑی ہے۔ اس پر ایک غریب کسان اُٹھا۔ فرض کیجئے اس کا نام گاما تھا۔ ڈی سی سے کہنے لگا، حضور! اگر نوبت یہ آ گئی ہے کہ ملکہ معظمہ کا دفاع گامے کے بیٹے کے سرآن پڑا ہے تو خداہی خیر کرے!
عمران خان نے بلدیاتی انتخابات جیتنے پر ذوالفقار مرزا سے فون پر رابطہ کیا اور کہا کہ وہ یعنی عمران خان، سٹیٹس کو کا مقابلہ کرنے پر انہیں، یعنی ذوالفقار مرزا کو مبارک باد دیتے ہیں!مشہور و مقبول مزاحیہ ڈرامہ سیریز’’بلبلے‘‘ کا کردار محمود اکثر اس قبیل کے فقرے بولتا ہے :’’وہ جو تم کرو گے، وہ انصاف ہو گا؟‘‘یا’’ وہ جو تم کمائو گے، وہ پیسہ ہوگا؟‘‘! تو تبدیلی کی منتظر قوم سن لے کہ وہ جو سٹیٹس کو کا مقابلہ کرے گا، وہ ذوالفقار مرزا ہوگا!
پتا نہیں، سٹیٹس کو سے عمران خان کی کیا مراد ہے! خان
صاحب غالباً یہ سمجھ رہے ہیں کہ کوئی جاگیردار وڈیرا، کروڑ پتی، جو اپنے آقا کے ’’کارناموں‘‘ میں برابر کا شریک ہو اور پھر لڑ جھگڑ کر الگ ہو جائے، وہ دراصل سٹیٹس کو کا مقابلہ کرتا ہے۔ ظاہر ہے سٹیٹس کو کا مقابلہ کرنے والا انقلاب کا یعنی تبدیلی کا نقیب ہی تو ہوتا ہے! آج ہی یارِ مہرباں خالد مسعود خان نے خبر دی ہے کہ مشاہد اللہ خان کے ایک بھائی کو لندن میں فضائی کمپنی کا سٹیشن منیجر لگایا گیا ہے، دوسرے بھائی کو نیو یارک میں اور ماشاء اللہ تیسرے بھائی کو پیرس میں سٹیشن منیجر لگایا گیا ہے۔ اب فرض کیجیے، کل مشاہداللہ خان مسلم لیگ نون سے ناراض ہو کر الگ انتخاب لڑتے ہیں تو عمران خان انہیں یقیناً سٹیٹس کو کا مقابلہ کرنے پر مبارک باد دیں گے۔ اگر مولانا حیدری، جے یو آئی سے الگ ہو جائیں تو اسی قسم کی صورتِ حال پیش آئے گی!
اس کے ساتھ ہی یہ راز بھی کھل جانا چاہیے کہ عمران خان تبدیلی سے کیا مراد لیتے ہیں؟اگر عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ تبدیلی سے مراد سماجی اور اقتصادی تبدیلی ہو گی ،جاگیردارانہ نظام ختم ہوگا، تعلیمی نظام از سرنو مرتب کیا جائے گا، وی آئی پی کلچر کا جنازہ اٹھے گا، فیکٹریوں کارخانوںکے مالکان سرکاری واجبات قانون کے مطابق ادا کریں گے تو پھر یقیناً عوام بے وقوف ہیں یا بھولے ہیں! بے وقوفو! ذوالفقار مرزا زرداری صاحب سے اس لیے نہیں الگ ہوئے کہ وہ ملک میں معاشرتی اور معاشی انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ ان کا جھگڑا قومی معاملات پر نہیں تھا! وہ تو محض اتفاق ہے کہ جب ذوالفقار مرزا کی بیگم صاحبہ سپیکر تھیں اور انہوں نے قرضہ معاف کروا لیا تو عمران خان نے سپیکر صاحبہ کو سٹیٹس کو کا مقابلہ کرنے پر مبارک باد نہیں دی! وہ جاتے جاتے یہ قانون بھی منظور فرما گئیں کہ تمام سابقہ سپیکر صاحبان ڈھیروں مراعات کے حقدار ہوں گے!
رہی یہ بات کہ ذوالفقار مرزا نے بلدیاتی الیکشن میں امتیازی فتح حاصل کی تو صاف بات ہے کہ وہ
Electible
ہیں۔ یہ علاقے کا معاملہ ہے اور شخصی حوالہ ہے۔ وہ علاقے کے طاقت ورشخص ہیں۔ فیوڈل ہیں اور صنعت کار! وہ اگر مسلم لیگ نون میں شامل ہو جاتے یا پی ٹی آئی میں یا کسی بھی جماعت میں، تو انہوں نے جیتنا ہی تھا۔ عوام کو معلوم ہے کہ انہوں نے بھی بدین ہی میں رہنا ہے اور مرزا صاحب اور ان کے خاندان نے بھی۔ان کا نفع نقصان انہی سے وابستہ ہے۔ زرداری صاحب تو دور بیٹھے ہیں۔ پنجابی محاورہ یہی تو ہے: رب نیڑے یا گھسُن۔ یعنی اللہ میاں نزدیک ہیں یا مُکہّ جو کسی بھی لمحے کمر پر پڑ سکتا ہے!
استاد گرامی پڑھا رہے تھے۔ گزرے وقتوں میں طلبہ استاد کے گرد نیم دائرہ بنا کر فرش پر بیٹھتے تھے۔ استاد گرامی نے دستار اتاری ہوئی تھی۔ گلے کا بٹن کھولا ہوا تھا۔ تکیے سے ٹیک لگائے تھے۔ سامنے سینئر درجے کا شاگرد بیٹھا تھا اور فقہ کی ایک مشکل کتاب کا سبق پڑھ رہا تھا۔ اچانک بڑے دروازے سے ایک طویل قامت وجیہ شخص مسجد میں داخل ہوا۔ اُس کی دستار کا طرہّ کلف زدہ تھا اور بلند! پیٹھ پر پڑا ہوا شملہ اُس کے وقار و جلال میں اضافہ کر رہا تھا۔ ایک ہالہ سا اُ س کی شخصیت کے گرد چمکتا ہوا
محسوس ہوتا تھا۔استادِ گرامی سنبھل کر بیٹھ گئے۔گلے کا کھلا ہوا بٹن بند کر دیا۔ سر پر دستار رکھ لی۔ اُس زمانے میں یہ بھی ہوتا تھا کہ اہلِ علم آکر خاموشی سے حلقۂ درس میں بیٹھ جاتے، جہاں استاد غلطی کرتا، ٹوکتے، رائے سے اختلاف کرتے اور عملی نکات پر شائستگی سے بحث مباحثہ ہوتا جس سے طلبہ استفادہ کرتے! استاد گرامی اُٹھے، وہاں گئے جہاں وہ شخص وضو کر رہا تھا۔ ادب و احترام سے ملے۔ پھر جھجکتے جھجکتے پوچھا: ’’ جناب کا اسمِ گرامی؟‘‘ وجیہ اور بارعب شخصیت والے نے جواب میں کہا: ’’میں سمجھا نہیں‘‘ ۔پاس کھڑے ہوئے طالب علم نے لقمہ دیا کہ استاد گرامی آپ کا نام پوچھ رہے ہیں! خالص دہقانی لہجے میں گندھا ہوا جواب آیا:’’ جی میرا نام جوسف ہے‘‘! استاد گرامی الٹے قدموں واپس آئے۔ دستار چٹائی پر رکھی۔ گلے کا اُوپر والا بٹن کھولا، تکیے پر نیم دراز ہوئے اور طلبہ سے فرمایا:’’ سبق جاری رکھو۔ یہ جوسف ہے!‘‘
چنانچہ جملہ جاگیرداروں، وڈیروں، زمینداروں ،ڈیرہ داروں ،صنعت کاروں، ٹیکس چوروںاور استحصال کنند گان کو خوشخبری ہو کہ ’’تبدیلی ‘‘ سے خائف ہونے کی کوئی ضرورت نہیں! سٹیٹس کوکا ’’مقابلہ‘‘ کرنے والے اُن کے اپنے ہی آدمی ہوں گے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“