سال 1951ء کا تھا۔ پارلیمنٹ مصر کی تھی۔ حکومت شاہ فاروق کی تھی۔ وزارت تعلیم اُس ڈاکٹرطٰہٰ حسین کے پاس تھی جو بچپن میں ایک ڈاکٹر کی نا اہلی کی وجہ سے بصارت کھو بیٹھا تھا۔ جس نے فرانس سے پی ایچ ڈی کی اور تاریخ پر اور عربی کے کلاسیکی اور جدید ادب پر درجنوں نہیں بیسیوں کتابیں تصنیف کیں۔
اُس دن ڈاکٹرطٰہٰ حسین پارلیمنٹ میں آیا اور تقریر کے لیے کھڑا ہوا تو اُس نے ایوان کو بتایا کہ ایک کاغذ اس کے کوٹ کی دائیں جیب میں ہے اور ایک کاغذ اس کے کوٹ کی بائیں جیب میں ہے۔ اس نے ایوان کے ارکان کو حق دیا کہ وہ چاہیں تو دائیں جیب والا کاغذ منظور کر لیں اور چاہیں تو بائیں جیب والا کاغذ پسند کر لیں۔ دائیں جیب والے کاغذ پر تجویز تھی کہ مصر میں پرائمری تعلیم مفت کر دی جائے۔ بائیں جیب میں اس کا استعفیٰ تھا۔ ایوان نے مفت پرائمری تعلیم کی تجویز منظور کر لی۔ آنے والے وقت میں اسے میٹرک تک بڑھا دیا گیا۔ نابیناطٰہٰ حسین نے قرآن پاک پڑھانے والے مدارس کو پرائمری تعلیم کا کام بھی سونپ دیا۔ سکولوں کو کالج اور کالجوں کو یونیورسٹیاں بنایا۔ کئی نئی یونیورسٹیاں قائم کیں۔ آج مصریوں کی اکثریت کو جانے معلوم ہے یا نہیں کہ طٰہٰ حسین نے ستر سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں مگر مصری یہ ضرور جانتے ہیں کہ ہر مصری بچہ بستہ اٹھائے سکول جا رہا ہے توطٰہٰ حسین کی وجہ سے جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے بیان کے مطابق پرائمری سکول جانے والی لڑکیوں کا تناسب اس وقت 99.2 فیصد ہے۔ 98.9 فیصد بچے اور بچیاں پرائمری سکول کے آخری درجے تک پہنچ جانے میں کامیاب ہو جا تی ہیں۔ 71 فیصد بچے اور بچیاں سکینڈری سکول کی تعلیم مکمل کر رہے ہیں!
مصریوں کو یہ سہولت تھی کہ ان کے ملک نے انگریزی زبان کا ہیٹ نہیں پہنا ہوا تھا۔ ہمارے ہاں یقینا یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ لاکھوں بچے پرائمری سکولوں میں نہیں جا رہے۔ پتیلے اور دیگچیاں مانجھ رہے ہیں۔ ورکشاپوں میں گاڑیوں کے نیچے لیٹے کپڑے اور ہاتھ کالے کر رہے ہیں یا گھروں میں صاحبوں اور بیگمات کی جھڑکیاں اور بعض اوقات تشدد سہہ رہے ہیں۔ یہ مسئلہ بڑا ضرور ہے مگر بنیادی نہیں! اصل مسئلہ یہ ہے کہ انگریزی زبان کی پوٹلی قوم کے کاندھے سے کیسے اتار جائے؟
اس کا حل یہ نہیں کہ سپریم کورٹ یا حکومت کہہ دے کہ کل سے اردو زبان کا نفاذ ہو جائے یا ہو جائے گا۔ فرمایا تو قائد اعظم نے بھی تھا کہ ملک کی زبان اردو ہو گی۔ مگر کیا ان کے کہنے سے ہو گئی؟ نہیں! اس لیے کہ بیورو کریسی حائل ہے اور بیورو کریسی کو کنٹرول کرنے والے سیاست دانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے نہ بیورو کریسی کے حربوں کا مقابلہ کر سکتی ہے! ریاست یا حکومت کے سربراہ کے اردو میں تقریر کرنے پر بغلیں بجانے والے سادہ دل اردو دوست یہ نہیں جانتے کہ اردو کے نفاذ کا مطلب وفاقی اور صوبائی حکومت کے دفتروں اور خود مختار اور نیم خود مختار اداروں میں فائلوں پر سارا کام اردو میں کرنا ہے۔ اس کام کی نزاکتوں اور باریکیوں سے وزیر اعظم آشنا ہیں نہ ان کے وزراء۔ نتیجہ یہ ہے کہ چند ماہ پہلے سپریم کورٹ کے حکم پر اردو کے نفاذ کا جو غلغلہ برپا ہوا تھا، وہ حکومتی ناواقفیت اور بیورو کریسی کی لاپروائی کی دھول میں گم ہو چکا ہے! ہوا میں اڑتے ہوئے مٹی کے چند ذرات کے سوا پیش منظر پر کچھ بھی نہیں نظر آ رہا!
ہمارے محترم دوست اور سینئر جناب عرفان صدیقی کی قلمرو گزشتہ ہفتے وسیع سے وسیع تر کر دی گئی ہے۔ ان کی سلطنت میں اب تمام ادبی، تحقیقاتی، تاریخی اور لسانی اداروں کی اقلیمیں شامل ہو گئی ہیں۔ عرفان صدیقی کی مرصع اور مسجع اردو کی ایک دنیا رطب اللسان ہے الفاظ پر ان کی حکمرانی ہے اور فقروں کو نوک قلم سے زر وسیم میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ شاعر تُھڑ دلے ہوتے ہیں۔ انہوں نے نثر نگاروں کی تعریف کم ہی کی ہے۔ حافظؔ نے تو شاعری میں بھی اپنی ہی کی ؎
غزل گفتی و دُر سفتی، بیا و خوش بخوان حافظؔ
کہ برنظم تو افشاند فلک عقدِ ثریا را
حافظ! تو نے غزل کیا کہی، موتی پرو دیے۔ اب آ کر خوش الحانی سے سنا اس لیے کہ آسمان، ثریا کا ہار تیری شاعری پر قربان کرتا ہے۔
ظفر علی خان نے خواجو کرمانی کی غزل گوئی کو خراجِ تحسین پیش کیا ؎
تو غزل خوانی پہ آ جائے تو ہے خواجوئے وقت
زلفِ عنبر بار سے کژدم بکھیر، اژدر نکال
ہاں! حسرت موہانی نے وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا ؎
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظمِ حسرتؔ میں کچھ مزا نہ رہا
کیا عرفان صدیقی یہ بھاری پتھر اٹھائیں گے؟
اس وقت کابینہ میں وہ واحد رکن ہیں جو اردو کے ادیب ہیں۔ وہ اس پیڈسٹل پر بیٹھے ہیں جو افسر شاہی کی مسندوں سے بلند تر ہے۔اُن کے پاس اختیار ہے، اقتدار ہے۔ وزیر اعظم کا کان ان کے نزدیک ہے۔ انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستانی نوکر شاہی کے دو پُرزے بیٹھے ہوں تو سنگدلی کی انتہا یہ ہے کہ سائل کی موجودگی میں اسی سائل کے کیس پر انگریزی میں گفتگو کرتے ہیں تا کہ برتری قائم رہے اور سائل رکاوٹوں کی نوعیت نہ سمجھ پائے۔ غریب اور ان پڑھ شخص کا بیٹا پائلٹ بنا تو باپ نے حسرت بھرے لہجے میں پوچھا کہ اسے کیسے معلوم ہو گا کون سا جہاز اس کا بیٹا اڑا رہا ہے۔ بیٹے نے کہا وہ باپ کے مکان پر بم گرائے گا تا کہ جان جائے۔ انگریزی سے ناآشنا عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور مراعات ہڑپ کرنے والے اہلکار، انہی عوام پر انگریزی کا رعب جھاڑتے ہیں! تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو!
مقتدرہ قومی زبان کو قائم ہوئے عشرے گزر گئے۔ تین سال بعد اس کے قیام کو چالیس برس ہو جائیں گے۔ اس نے سارا بنیادی کام کر لیا۔ معروف ادیب اس کے سربراہ رہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی، جمیل جالبی، افتخار عارف، پروفیسر فتح محمد ملک، دوستِ دیرینہ ڈاکٹر انوار احمد، سب لائق فائق لوگ تھے۔ اردو زبان و ادب کے اساتذہ اور رہنما! ہر ایک نے بساط بھر حصہ ڈالا۔ تراجم ہوئے۔ کتابیں چھپیں۔ مگر بیورو کریسی کے بیل کو سینگوں سے پکڑنا اور بات ہے۔ یہاں وفاقی سیکرٹری تو دور کی بات ہے، سیکشن افسر اپنے آپ کو پروفیسروں، پی ایچ ڈی ڈاکٹروں اور دیگر اہلِ علم پر فائق گردانتا ہے۔
اصل مسئلہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے معاملات طے کرنا ہے۔ ان معاملات کی تفصیل یہ کالم نگار روزنامہ دنیا کی سترہ ستمبر 2015ء کی اشاعت میں بیان کر چکا ہے۔ جناب عرفان صدیقی مقتدرہ قومی زبان کے ادارے کا اس انداز میں احیا کریں اور کرائیں کہ یہ کمیشن، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور افسر شاہی کے دیگر ارباب قضاو قدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ پہلے مرحلے میں مقابلے کے مرکزی امتحان (سی ایس ایس) میں اردو کا مضمون اسی طرح لازمی قرار دیا جائے جس طرح انگریزی زبان کا ہے۔ دوسرے مرحلے میں سارا امتحان اردو یا انگریزی دونوں میں دینے کا آپشن ہو۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں سارا امتحان اردو میں ہو مگر ساتھ ہی انگریزی جانچنے کا کڑا امتحان ہو تا کہ سول سرونٹس انگریزی پر اسی طرح دسترس رکھتے ہوں جیسے اردو پر۔ بیورو کریسی میں اِس وقت ڈاکٹر وحید احمد، یاسر پیرزادہ اور شکیل جاذب جیسے مستعد افسر موجود ہیں جو اردو زبان و بیان پر مہارت رکھتے ہیں۔ نفاذِ اردو کے تقاضوں سے آشنا ہیں اور اپنے قبیلے یعنی افسر شاہی سے نمٹنے کا ڈھنگ بھی جانتے ہیں۔
یہ فقیر تو یہی صدا لگا سکتا ہے کہ ؎
خیری کن ای فلان و غنیمت شمار عمر
زان پیشترکہ بانگ برآید فلان نماند
سلیم احمد یاد آ رہا ہے ؎
شاید کوئی بندۂ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“