دو ہی خاندان تھے پورے ضلع میں، کھاتے پیتے، آسودہ حال اور علاقے کی سیاست میں دخیل۔ ایک راجوں کا اور دوسرا جاٹ!
بڑے راجہ صاحب اور بڑے چوہدری صاحب جب تک زندہ رہے، دونوں میں گاڑھی چھنتی رہی۔ سیاسی اختلاف کے باوجود، تعلقات میں گرم جوشی رہی۔ رشتے تک ہوئے۔ پھر دوسری نسل برسرِ اقتدار آئی۔ نئے راجہ صاحب تیز مزاج تھے۔ اکھڑ اور زود رنج! بات بات پر بڑ ہانکنی اور تفاخر! نئے چوہدری نے کچھ عرصہ برداشت کیا۔ پھر اس نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینا شروع کیا۔ مخاصمت تلخی میں بدل گئی۔ یہاں تک کہ سرِراہ، سلام دعا سے بھی گئے۔
انسانوں کے طبائع مختلف ہوتے ہیں۔ صرف انگلیوں کے نشانات ہی نہیں‘مزاج بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ تیسری نسل اوپر آئی تو نیا راجہ، جو آکسفورڈ سے پڑھ کر آیا تھا، چل کر چوہدریوں کے گھر گیا۔ اپنے والد کی طرف سے کی گئی زیادتیوں کی معافی مانگی اور تجویز پیش کی کہ علاقے کے عوام کی اقتصادی ترقی کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے۔
آپ کا کیا خیال ہے ‘راجہ اور چوہدری خاندان کے درمیان باہمی تعلقات نے جو تین مختلف ادوار دیکھے، وہ کوئی طے شدہ پالیسی کا نتیجہ تھے یا تین خاندانی سربراہوں کی ذاتی پسند یا ناپسند تھی! یقینا ان تبدیلیوں کی پشت پر انفرادی خواہشات تھیں۔ سخت مزاج راجہ صاحب نے باگ سنبھالی تو گھوڑے پر چابکوں کی بارش کر دی۔ اُن کا جانشین اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا، جہاں دیدہ تھا، مزاج میں نرمی تھی اور نفاست بھی۔چنانچہ ایک شخص کی وجہ سے پورا منظر نامہ تبدیل ہو گیا۔
مگر ملکوں کے درمیان تعلقات، کسی فرد کی ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر نہیں بدلتے! سخت مزاج وزیر اعظم آ کر لڑائی جھگڑے کی طرف بڑھے بھی تو ادارے اسے لگام ڈال دیتے ہیں۔ اور اگر کوئی ریشہ خطمی ہونا چاہے تو اُسے بھی ملک کے عوام کو، سیاسی حالات اور طویل المیعاد بیلنس شیٹ کو سامنے رکھنا پڑتا ہے۔
تین سو سال تک روس نے اپنے خونی پنجے جنوب کی طرف بڑھائے رکھے۔ وسط ایشیا کوہڑپ کرنے کی پالیسی کسی زار نے تبدیل نہ کی۔ ایک بار توچنور کی طرف بڑھتی ہوئی روسی سپاہ پوری کی پوری برفانی طوفانوں کی نذر ہو گئی۔ صدیوں پر پھیلے ہوئے پالیسی کے تسلسل کی وجہ سے 1865ء میں تاشقند پر قبضہ ہوا۔ بالشویک آئے تو انہوں نے زار کے مقابلے میں حمایت حاصل کرنے کے لیے وسط ایشیائی مسلمانوں سے آزادی کا وعدہ کیا مگر جیسے ہی قدم جمے، زار کی پالیسی اپنا لی۔ یہاں تک کے بسماچی تحریک نے ترکستان کو آزاد کرانے کی جدوجہد تیز کر دی۔ یہ اور بات کہ روس کی اشتراکی حکومت نے پورے سنٹرل ایشیا پر قبضہ مستحکم کر لیا۔ کئی زار آئے اور گئے۔ سٹالن تھا یا برزنیف! وسط ایشیا کے معاملے میں سب ایک ہی پالیسی پر گامزن رہے!
آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکی صدر کے آنے سے امریکی خارجہ پالیسی بدل جاتی ہے؟ کیا کبھی ایسا ہوا کہ ایل بی جانسن آیا یا نکسن یا بش یا اوباما تو آتے ہی وزارتِ خارجہ کو پسِ پشت ڈال کر، اپنے ذاتی دوستوں کی ڈیوٹی لگا دی کہ روس سے تعلقات بہتر کرو‘ مشرق وسطیٰ میں یوں کر دو اور چین جاپان کو فلاں پیغام بھجواؤ۔ نہیں! جناب ایسا نہیں ہوتا! جو کچھ بش سینئرنے کیا وہ عشروں پہلے طے ہو چکا تھا۔ جو سرگرمیاں بش جونیئر نے دکھائیں وہ بھی فردِ واحد کی آرزو پر مشتمل نہیں تھیں۔ رفتار کا فرق ہو سکتا ہے! مگر پالیسیاں طے شدہ تھیں۔ اوباما منتخب ہوا تو مسلم دنیا میں ایسے ایسے احمق بھی تھے جو یہ توقع کر رہے تھے کہ افغانستان سے فوج واپس بلا لی جائے گی اور مسلمانوں سے معافی مانگی جائے گی! آج نہیں تو کل امریکی وزارت خارجہ کی خفیہ دستاویزات ثابت کر دیں گی کہ مشرقِ وسطیٰ میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر مسلمانوں کی تقسیم امریکہ نے بہت پہلے طے کر لی تھی۔ اگر تیسری دنیا کے کسی ملک میں میجر کی سطح کے کسی فرد کو چن لیا جاتا ہے اور فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ اسے اس ملک کا سربراہ بنایا جائے گا تو نیا امریکی صدر آ کر اُس کی خفیہ ’’سرپرستی‘‘ جاری رکھتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وہ آ کر، ایک نئے شخص کے نام کے گرد دائرہ لگائے۔
عربوں کے حوالے سے اسرائیل کی پالیسی طے شدہ ہے۔ یہی حال عرب طاقتوں کا ہے۔ ایران کی جو پالیسی بھارت اور پاکستان کے ضمن میں چلی آ رہی ہے‘ اس میں تسلسل ہے اور اگر تعصب یا وابستگی سے بالا تر ہو کر دیکھا جائے تو اس تسلسل کا نظر آنا چنداں مشکل نہیں! یہی حال بھارت کا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے اس کی پالیسی طے شدہ ہے۔ حکومت کانگرس کی ہو یا بی جے پی کی یا کل کسی اور پارٹی کی آ جائے تو اِس پالیسی میں فرق نہیں پڑے گا۔ اگر من موہن سنگھ نے اپنے آبائی گائوں گاہ ضلع چکوال میں گائوں کے لوگوں کو شمسی توانائی کی سہولت بہم پہنچائی تو احمق سے احمق بھارتی نے بھی یہ نہ سوچا ہو گا کہ پاکستان سے دوستی ہو گی! ہاں‘ مودی کے لاہور آ کر وزیر اعظم سے غیر سرکاری ملاقات کرنے سے بہت سے پاکستانی یہ ضرور سمجھ رہے ہیں کہ باہمی تعلقات نے نیا ورق الٹا ہے اور جنوبی ایشیا کا منظر نامہ تبدیل ہو جائے گا! ایسا نہیں! ایسا ہوتا بھی نہیں۔ یہ دو خاندانوں کا مسئلہ نہیں‘ دو ملکوں کا مسئلہ ہے۔ بھارت کی پالیسی وہی رہے گی جو طے شدہ ہے۔ یہ تو وقتی مصلحتوں کے پیشِ نظر مودی نے چہرے پر مسکراہٹ سجائی ہے۔ بہار میں الیکشن نہ جیتا جا سکا۔ کچھ ادیبوں اور شاعروں نے انتہا پسند پالیسی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایوارڈ واپس کیے۔ عیسائیوں کو ہدف بنایا گیا۔ برطانیہ میں مودی کو خفت اٹھانا پڑی۔ دنیا بھر میں نفرین ہوئی۔ اس کا ازالہ مودی نے اپنے طور پر یہ کیا کہ پاکستان کا رُخ کیا۔ اس کی وزارتِ خارجہ اس میں شامل نہ تھی۔ شامل نہ ہونے کا مطلب واضح ہے کہ اصل پالیسی وہی ہے جو چلی آ رہی ہے!
بھارت کے معاملے میں ہماری پالیسی کیا ہے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے کچھ اور سوالوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہماری وزارت خارجہ کا دائرہ اختیار کیا ہے؟ راولپنڈی کا اس میں کیا کردار ہے اور کتنا ہے؟ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ان کے چہیتے پرنسپل سیکرٹری جب کار میں سوار ہو کر امرتسر گئے اور بھارتی سکیورٹی ایڈوائزر ڈکسٹ کو ملے تو پرنسپل سیکرٹری کے ہمراہ بھارتی سفیر تھا‘ دہلی میں متعین پاکستانی سفیر نہیں تھا!نہ ہی ہماری وزارتِ خارجہ اس سارے معاملے میں شامل تھی! تو پھر اس ذاتی اور شخصی رابطے کا کیا نتیجہ نکلا؟ کیا بھارت اور پاکستان کی تاریخ میں اس قسم کی ملاقاتیں جگہ پائیں گی؟ نہیں! شاید آدھی سطر کی جگہ بھی نہ پائیں‘اس لیے کہ اگر پاکستان میں وزارتِ خارجہ کو گھر کا کام کاج کرنے والی ماسی بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور پالیسی سازی کبھی راولپنڈی منتقل ہو جاتی ہے اور کبھی رائے ونڈ تو بھارت میں ایسا نہیں ہوتا!
جس ملک میں اڑسٹھ سال میں یہی نہ طے ہوا ہو کہ ملک کے بازار جمعہ کے دن چھٹی کریں گے یا اتوار کو، اور جمعہ یا اتوار کے دن شاپنگ کے لیے نکلتے وقت کسی بازار کے بارے میں یقین نہ ہو کہ بند ہو گا یا کھلا، اُس ملک میں خارجہ پالیسی کیا طے ہو گی اور کس طرح ہو گی؟ ہم آج تک یہی نہ طے کر پائے کہ کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہونے تک ہمارے عمومی تعلقات بھارت کے ساتھ کیسے ہوں گے؟ ایک ماڈل چین کا ہے۔ تائیوان کو چین الگ ملک نہیں مانتا مگر سیاحتی، تجارتی، سفارتی اور ثقافتی تعلقات معمول کے مطابق چل رہے ہیں! ہم آج تک اس کنفیوژن کا شکار ہیں کہ تجارتی، سیاحتی اور ثقافتی تعلقات بھارت کے ساتھ معمول کے مطابق رکھیں یا نہ رکھیں۔ ضرورت پڑنے پر پیاز تک درآمد ہو جاتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ملک کے طول و عرض میں غیر ریاستی(نان سٹیٹ) ایکٹر جذبات کو آسمان تک لے جاتے ہیں اور فضا میں جنگی ترانے گونج اُٹھتے ہیں!
مودی صاحب ایک بار نہیں، پچاس بار وزیر اعظم کے ذاتی محلات میں تشریف لائیں! پاکستانی مہمان کے آنے پر کبھی تنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ مگر مودی کو معلوم ہے کہ اصل فیصلے وہ وفد کرے گا جو بھارتی وزارت خارجہ کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کے نمائندوں کو ملے گا! مودی تو جانتا ہے! کیا ہمارے وزیر اعظم کو بھی معلوم ہے؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“